چولستان کی خیر ہو

چولستان ڈیزرٹ جیپ ریلی سیاحت کے محکمے کا سالانہ بڑا ایونٹ ہے۔ اسے ہوبارہ فاؤنڈیشن انٹرنیشنل پاکستان بھی سپانسر کرتی ہے۔ ہوبارہ فاؤنڈیشن انٹرنیشنل کے توسط سے متحدہ عرب امارات کے ملک بھر میں منصوبے بروئے عمل ہیں جو زیادہ تر جنوبی پنجاب میں ہیں۔ چولستان میں تلور کی ریلیز کے لیے باقاعدہ وسیع و عریض انکلوڑر بنائے گئے ہیں۔ ڈیئر یعنی ہرنوں کے انکلوڑر الگ سے ہیں۔
رواں سال بھی جیپ ریلی کی ٹرافی زین محمود نے اٹھائی۔چولستان ڈیزرٹ جیپ ریلی کی پریپئیرڈ کیٹیگری زین محمود نے 216کلومیٹرکا فاصلہ تین گھنٹے 56منٹ 54 سیکنڈ میں طے کرکے پہلی پوزیشن حاصل کرلی۔ نادر مگسی نے یہی فاصلہ 3گھنٹے 58 منٹ اور48 سیکنڈ میں طے کر کے دوسری پوزیشن جبکہ جعفرمگسی  4گھنٹے 5منٹ اور41سیکنڈ میں طے کرکے تیسرے نمبر پر رہے۔زین محمود کے ہمراہ سپورٹنگ ڈرائیور زین عبداللہ ،نادر مگسی کے ہمراہ نصرت علی اور جعفر مگسی کے ساتھ ابراہیم خاکوانی تھے۔ اسی طرح سٹاک کیٹگری میں خالد حمید پہلے ،مسعود ہوتھ دوسرے جبکہ سید آصف امام تیسرے نمبر پر رہے۔ پریپئیرڈ بی کیٹیگری میں اسد شادی خیل پہلی، شہر یار شادی خیل دوسری اور نعمان سرانجام تیسری پوزیشن پر آئے۔ پرپیئیرڈ سی فلک شیر خان فرسٹ، محمود مجید سیکنڈ، آصف علی تھرڈ، پرپیئیرڈ ڈی میں ظفر بلوچ فرسٹ، تاج خان مہر سیکنڈ، بیورجھ مزاری تھرڈ ریے۔خواتین کیٹیگری میں دینا پٹیل فرسٹ اور سلمی مروت سیکنڈ رہیں۔
جیپ ریلی کا ایونٹ ہمیشہ سے بھرپور رہا ہے۔ اس مرتبہ گزشتہ برسوں کی نسبت رش کم تھا۔ وسائل آڑے آئے یاجیپوں کی پھرتیاں کم اور گم ہو گئیں۔ موسم سال بہ سال گرم ہوتا جا رہا ہے۔ گلائیڈرز آب و تاب کے ساتھ فلائنگ کا شوق رکھنے والوں کو محفوظ کرتے نظر آئے۔ ہم اس مرتبہ صحرائے چولستان میں تھوڑا آگے ریلی کے ٹریک پر چلے گئے۔ ٹریک کے درمیان میں کچھ فاصلے پر دو کاریں ریت میں پھنسی ہوئی تھیں۔وہ تو اچھا ہوا کہ جیپوں کی واپسی کچھ دیر بعد تھی۔ ٹریک پر 4 ویل ڈالے یا جیپ ہی چل سکتی ہے۔عام کاریں پھنس بلکہ ریت میں دھنس جاتی ہیں۔جن کو نکالنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے۔ ہم لوگوں نے دھکا لگا کر ’’ٹوچن‘‘ کر کے ان گاڑیوں کو نکلوایا۔ ہمارے گروپ میں شعیب مرزا صاحب کی کمی شدت سے محسوس کی گئی۔ ان کو صحت کے کچھ مسائل درپیش آگئے تھے۔باقی وہی دوست تھے جو ہرسال جاتے ہیں۔ افتخار خان، عقیل انجم اعوان، محمد اکرم، سید بدر سعید، سید اسد نقوی، اور کامران پرویز۔
 مجھے اور مرزا صاحب نے ٹرین پر جانا تھا جبکہ باقی دوست ڈائیوو کے ذریعے گئے۔ تیز گام سے رحیم یار خان کا سفر کیا۔ واپس سب دوست گرین لائن سے آئے۔ واپسی کا سفر بہاولپور سے شروع کیا۔ یہ قلعوں اور محلات کا شہر ہے۔
کرنل کمال الدین نے لاہور سے پْرتپاک طریقے سے سی آف کیا۔ ہو بارہ فاؤنڈیشن انٹرنیشنل پاکستان اور ڈیئر فاؤنڈیشن انٹرنیشنل پاکستان کے چیئر پرسن بریگیڈیئر مختار احمدصاحب بھی بریفنگ دیتے رہتے ہیں۔
چولستان کے وزٹ پر ہر بار کچھ نیا ہی سامنے آتا ہے۔ اس مرتبہ سلو والی سنٹر کے قریب ہی پانچ کلو لمبائی اور اتنی چوڑائی پر مشتمل انکلوڑر بنایا گیا ہے۔ اس کے گرد 14فٹ اونچی فینس ہے۔طوالت کی بات کی جائے تو فینس 20کلو میٹر طویل بنتی ہے جو صرف 21دن میں مکمل ہو گئی۔ ابو ظہبی کے فرمانروا شیخ محمد بن زید کے دورہ چولستان سے تین ہفتے قبل ہی یہ منصوبہ تجویز پایا اور ان کی آمد سے قبل پایہ تکمیل کو پہنچ گیا۔ اس انکلوژر میں بھی ہوبارہ بسٹرڈ چھوڑے گئے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر وہاں سے اْڑ کر نئے مستقروں اور مسکنوں میں چلے گئے۔ 
اس مرتبہ چولستان میں چھوٹی چھوٹی جھیلیں دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ نیلا اور چمکیلا پانی، ان جھیلوں کی خوبصورتی میں اضافہ کرتا ہے مگر ہر جھیل کا پانی کھارا ہے۔ ان میں مچھلیاں کبھی پانی کے اوپر اور کبھی پانی کے اندر جاتی نظر آتی ہیں۔ ان قدرتی جھیلوں کی طرح قدرتی ٹوبے بھی چولستان میں پائے جاتے ہیں۔ جھیل اور ٹوبے میں پانی کے معیار کا فرق ہے۔ ٹوبوں میں پانی عموماً بارشوں کا ہوتا ہے۔ جانور اور پرندے اسے پیتے اور جیتے ہیں۔ انسان بھی انہی ٹوبوں سے پینے کے لیے پانی حاصل کرتے ہیں۔ چولستان میں دور دراز مائی دادی کے مزارکو کوئی سڑک نہیں جاتی مگر یہ مقام مرجع خلائق ہے۔کئی لوگ اسے مائی ڈاڈھی کا مزار بھی کہتے ہیں۔
اِدھر چولستان اْدھر انڈیا میں راجستھان کے صحرا ایسے ہیں جو دنیا میں اور کہیں کم ہی ہیں۔ صحرا عموماً لق و دق اور بے آب و گیاہ ہوتے ہیں مگر یہ گرین ریتلے صحرا ہیں۔ بارش ہونے پر صحرا سبزہ زار میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ نیچر سے محبت رکھنے والے صحرا کو اسی صورت میں دیکھنا چاہتے ہیں جبکہ کچھ لوگ صحراؤں کے کاشتکاری کے لیے استعمال کی حمایت کرتے ہیں۔ دونوں کے پاس اپنے اپنے جواز کے لیے مدلل اور ٹھوس دلائل ہیں۔ 
آج کل صحرائے چولستان سکڑ رہا ہے۔ فصلوں کے لیے زمین استوار ہو رہی ہے۔ صحرا میں سیکڑوں کی تعداد میں ٹیوب ویل لگائے ہیں جو سولر پر چلتے ہیں۔ جب تک سورج چمکتا ہے ٹیوب ویل چلتے رہتے ہیں، کیونکہ بل کا مسئلہ ہی نہیں ہے۔ میجر طاہر مجید نے بتایا کہ اس طرح ٹیوب ویلوں کی تنصیب سراسر غیر قانونی ہے۔ آپ وہاں سے پانی نہیں نکال سکتے جہاں واٹر چارجنگ نہیں ہوتی۔ زمین کے نیچے سے میٹھا پانی تیزی سے کم ہو رہا ہے۔ 
دراوڑ میں جیپ ریلی کے پوائنٹ کے قریب ہی دراوڑ قلعہ ہے۔ جو اپنے اْوپر گزرنے والی بپتا پراشک بہاتا کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا ہے۔ اس قلعہ کے قریب قبرستان میں چار صحابہ کرام سے منسوب قبریں ہیں۔ اس کے کچھ فاصلے پربائیو ڈائیورسٹی ہے جو اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے زیر اہتمام بروئے کار ہے۔ اسے بھی ہوبارہ فاؤنڈیشن سپانسر کرتی ہے۔ اس کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عبداللہ سے بھی ملاقات ہوئی۔ جڑی بوٹیوں، درختوں، پودوں اور جانوروں، پرندوں، حشرات کو پریزرو کرنے اور انہیں نیچرل ماحول فراہم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ان کی ٹیم نے ایک چھوٹا سا8 انچ کا سانپ پکڑ کر بوتل میں بند کر دیا۔ ہماری موجودگی میں وہیں پہ اسے صحرا میں ریلیز کر دیا گیا۔ ڈاکٹر عبداللہ کہتے ہیں ہم جانوروں، پرندوں حشرات کو بچاتے ہیں ان کی نسلوں کو ختم نہیں کرتے۔
میں نے پہلی مرتبہ بغیر گٹھلی کے بیر سلووالی کے ریسرچ اینڈ ری ہیبیلی ٹیشن سنٹر میں دیکھے۔ ان کی شکل سیب جیسی، سائز اور ذائقہ بیر جیسا ہے۔ یہ درخت نہیں بلکہ جھاڑی نما پودے کی طرح ہے۔اس سینٹر میں ڈاکٹر نعمان طارق نے سینٹر کے اغراض و مقاصد پر بریفنگ دی۔شمالی علاقہ جات کے سر سبز اور برف پوش پہاڑوں کی اپنی خوبصورتی ہے، صحرا اپنی دلکشی رکھتے ہیں۔ میرا دیس ہنستا بستا رہے۔ چولستان کی خیر ہو۔

فضل حسین اعوان....شفق

ای پیپر دی نیشن