سید مجتبیٰ رضوان
وزیرِ اعظم شہباز شریف اعلیٰ سطح کے وفد کے ہمراہ 4 روزہ سرکاری دورے پر سعودی عرب پہنچ گئے۔ گورنر جدہ شہزادہ سعود بن عبداللہ جلادی اور پاکستانی سفیر نے ان کا استقبال کیا، وزیراعظم سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات کریں گے۔پاکستان کے ساتھ سعودی عرب کے شروع سے خصوصی تعلقات قائم ہیں۔ پاکستان اور سعودی عرب میں دوستی کا پہلا معاہدہ شاہ ابن سعود کے زمانے میں 1951ء میں ہوا تھا۔ شاہ فیصل کے دور میں ان تعلقات کو بہت فروغ ملا۔ سعودی عرب ان چند ممالک میں ہے جنھوں نے سرکاری سطح پر مسئلہ کشمیر میں پاکستان کے موقف کی کھل کر تائید کی۔ ستمبر1965ء کی پاک بھارت جنگ میں سعودی عرب نے پاکستان کی بڑے پیمانے پر مدد کی۔ اپریل 1966ء میں شاہ فیصل نے پہلی مرتبہ پاکستان کا دورہ کیا اور اس موقع پر اسلام آباد کی مرکزی جامع مسجد کے سارے اخراجات خود اٹھانے کا اعلان کیا۔ یہ مسجد آج شاہ فیصل مسجد کے نام سے دنیا بھر میں جانی جاتی ہے۔ 1967ء میں سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان میں فوجی تعاون کا معاہدہ ہوا جس کے تحت سعودی عرب کی بری، بحری اور فضائی افواج کی تربیت کا کام پاکستان کو سونپ دیا گیا۔ اپریل 1968ء میں سعودی عرب سے تمام برطانوی ہوا بازوں اور فنی ماہرین کو رخصت کر دیا گیا اور ان کی جگہ پاکستانی ماہرین کی خدمات حاصل کی گئیں۔ شاہ فیصل کے دور حکومت میں سعودی عرب نے 1973ء کے سیلاب مین مالی امداد فراہم کی اور دسمبر 1975ء میں سوات کے زلزلہ زدگان کی تعمیر و ترقی کے لیے بھی ایک کروڑ ڈالر کا عطیہ دیا۔ 1971ء میں مشرقی پاکستان کی پاکستان سے علیحدگی پر شاہ فیصل کو بہت رنج ہوا اور انھوں نے پاکستان کی جانب سے تسلیم کرنے کے بعد بھی بنگلہ دیش کو تسلیم نہ کیا۔ پاکستان کے عوام ان کو آج بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ایک بڑے شہر لائل پور کا نام انہی کے نام پر فیصل آباد رکھا گیا جبکہ کراچی کی سب سے بڑی شاہراہ انہی کے نام پر شاہراہ فیصل کہلاتی ہیسعودی کابینہ نے سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان کسٹمز امور میں تعاون اور باہمی مدد کے حوالے سے ایک معاہدے کی منظوری دی ہے۔ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں سعودی عرب کی ٹیکنیکل اینڈ ووکیشنل ٹریننگ کارپوریشن اور پاکستان کے نیشنل ووکیشنل اینڈ ٹیکنیکل ٹریننگ کمیشن کے درمیان ٹیکنیکل اور ووکیشنل ٹریننگ سے متعلق ایک مفاہمتی یادداشت کی بھی منظوری دی گئی۔ اجلاس میں سعودی عرب اور مصر کی وزارت داخلہ کے درمیان سائنسی، تربیتی اور تحقیقی سرگرمیوں کے شعبے میں مذاکرات اور مفاہمتی یادداشت پر دستخط کا اختیار بھی تفویض کیا گیا۔ وزیر اعظم 19 سے 22 مارچ 2025 تک سعودی عرب کا سرکاری دورہ کر رہے ہیں۔ وزیرِ اعظم کے دورہِ سعودی عرب کا مقصد پاکستان اور سعودی عرب کے مابین دوطرفہ تعلقات کو مضبوط بنانا، اقتصادی تعاون کو بڑھانا اور دونوں ممالک کے درمیان سرمایہ کاری کو فروغ دینا ہے۔ شہباز شریف کے ہمراہ وفد میں نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ سینیٹر اسحٰق ڈار سمیت اہم وفاقی وزرا اور اعلیٰ حکام شامل ہیں۔ دورے کے دوران وزیراعظم کی سعودی ولی عہد و وزیراعظم محمد بن سلمان آل سعود سے ملاقات بھی متوقع ہے۔ ملاقات میں دونوں رہنما تجارت کو فروغ دینے، کلیدی شعبوں میں شراکت داری کو بڑھانے اور وسیع تر اقتصادی تعاون کو آسان بنانے کے طریقوں پر تبادلہ خیال کریں گے۔ دونوں رہنماؤں کی گفتگو میں باہمی دلچسپی کے امور بشمول عالمی اور علاقائی حالات بالخصوص غزہ اور مشرق وسطی کی ابھرتی ہوئی صورتحال کے ساتھ ساتھ امت مسلمہ سے متعلق مسائل ایجنڈے میں سرفہرست ہوں گے۔ وزیراعظم کا دورہ پاکستان اور سعودی عرب کے مابین گہرے تاریخی تعلقات کو اجاگر کرتا ہے اور دونوں ممالک کے مابین باہمی افہام و تفہیم میں اضافے، تجارت، سرمایہ کاری میں تعاون بڑھانے اور دوطرفہ، علاقائی اور عالمی معاملات پر سفارتی روابط کے مزید فروغ کی راہ ہموار کرے گا۔
ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق دورے کا مقصد دو طرفہ تعلقات معاشی تعاون اور سرمایہ کاری میں اضافہ کرنا ہے۔ دورے کے دوران نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار بھی شہباز شریف کے ہمراہ ہونگے اس کے علاوہ وفد میں اہم وفاقی وزرا اور سینئر سرکاری افسران بھی شامل ہونگے۔ ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق دورے کے دوران وزیراعظم شہباز شریف سعودی ولی عہد اور وزیراعظم محمد بن سلمان سے ملاقات کریں گے۔ ملاقات کے دوران دونوں ممالک کے مابین تجارت سمیت مختلف شعبہ جات میں تعاون پر غور ہوگا ملاقات کے دوران مشرق وسطی سمیت فلسطین کی صورتحال پر بھی بات چیت کی جائے گی۔