امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کے درمیان امریکا بھارت کے درمیان حالیہ قربت کی جو نئی پینگیں استوار ہوئی ہیں اس تناظر میں اسی سال پاکستان کا دو سال 26-2025ء کے لئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا غیر مستقل نان ویٹو ممبر منتخب ہونا پاکستان کے لیے ایک اچھی خبر اور خیر شگون ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل ممبرز کی تعداد 15 ہوتی ہے جن میں سے پانچ مستقل ممبرز چین، امریکا، برطانیہ، روس، فرانس ویٹو پاور کے حامل ہوتے ہیں جبکہ دس غیر مستقل ممبرز جن میں سے 5 کا انتخاب ہر سال جنرل اسمبلی 2 سال کے لیے کرتی ہے۔ پاکستان 2025-26ء کے لیے سلامتی کونسل کا ممبر منتخب ہوا ہے اور سال کے ابتدائی سیشن جس کی صدارت چین کے وزیر خارجہ وانگ زی نے کی جبکہ پاکستان کے نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ سینیٹر اسحاق ڈار نے پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے کلیدی خطاب کیا سینیٹر اسحاق ڈار نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردی پوری دنیا کے لیے بڑا چیلنج ہے اور پاکستان کو کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور افغان سر زمین سے دہشت گردی کا سامنا ہے۔
انھوں نے پر امن اور مستحکم افغانستان کو خطے کے مفاد میں قرار دیتے ہوئے عالمی امن اور سلامتی کے لیے اجتماعی اقدامات کی ضرورت پر زور دیا۔ اسحاق ڈار نے غزہ میں 15 ماہ بعد جنگ بندی معاہدے کو امید کی کرن قرار دیتے ہوئے غزہ کے عوام کی فوری امداد کا مطالبہ کیا۔ انھوں نے مسئلہ کشمیر کا اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل پر بھی زور دیا اور کہا کہ پاکستان عالمی گورننس میں بہتری اور کثیرالجہتی تعاون کے فروغ کے لیے چینی اقدام کا خیر مقدم کرتا ہے۔ نائب وزیراعظم نے مزید کہا کہ پاکستان دہشت گردی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے ہر ضروری اقدام کر رہا ہے اور عالمی امن و سلامتی کے لیے اجتماعی کوششوں میں کردار ادا کرتا رہے گا۔
پاکستان کا سلامتی کونسل کے غیر مستقل رکن کے طور پر انتخاب عالمی سطح پر اس کی سفارتی پوزیشن کو مضبوط بنانے کا ایک اہم موقع فراہم کرتا ہے، خاص طور پر امریکا بھارت قربت سے پیدا ہونے والے چیلنجز کے تناظر میں پاکستان اس فورم کو مختلف طریقوں سے اپنے قومی مفادات کے تحفظ کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔ عالمی سفارتی توازن قائم کرنے میں پاکستان اپنا بھر پور کردار ادا کرے گا۔امریکا اور بھارت کی قریبی شراکت داری، خاص طور پر دفاعی اور اسٹریٹجک امور میں، پاکستان کے لیے سفارتی چیلنجز پیدا کر سکتی ہے۔ پاکستان سلامتی کونسل کے فورم پر چین، ترکیہ، سعودی عرب، اور دیگر دوست ممالک کے ساتھ مل کر اپنی سفارتی حکمت عملی کو مستحکم کر سکتا ہے۔
مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کے لیے موجودہ حکومت کی ایک دیرینہ کمٹمنٹ ہے۔بھارت کے ساتھ کشیدگی خصوصاً مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر پاکستان سلامتی کونسل میں بحث کے لیے دباؤ ڈال سکتا ہے۔بھارت کے یکطرفہ اقدامات اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو عالمی برادری کے سامنے مؤثر انداز میں پیش کر سکتا ہے۔ پاکستان کو دفاعی اور سکیورٹی کے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ پاکستان خطے میں اسلحے کی دوڑ، بھارت کی جدید دفاعی صلاحیتوں، اور امریکی دفاعی امداد پر خدشات کا اظہار مؤثر انداز میں کر سکتا ہے۔جنوبی ایشیا میں توازن برقرار رکھنے کے لیے عالمی برادری کو اعتماد میں لے سکتا ہے۔ افغانستان اور علاقائی استحکام پاکستان، افغانستان میں استحکام کے حوالے سے اپنا کردار سلامتی کونسل میں مزید اجاگر کر سکتا ہے کیونکہ بھارت کی افغانستان میں موجودگی پاکستان کے لیے اسٹریٹجک خدشات کا باعث ہے۔
اقتصادی سفارت کاری اور سی پیک پاکستان، چین کے ساتھ مل کر سی پیک اور بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کے خلاف امریکی بھارتی مخالفت کا جواب دے سکتا ہے۔ترقیاتی ایجنڈے کو فروغ دے کر عالمی حمایت حاصل کر سکتا ہے۔پاکستان کے سلامتی کونسل میں شمولیت اسے عالمی فورمز پر بھارت اور اس کے اتحادیوں کے اثر و رسوخ کا مؤثر جواب دینے کا موقع فراہم کرے گی۔ اگر پاکستان ایک منظم سفارتی حکمت عملی اپناتا ہے تو وہ امریکی-بھارتی قربت کے نتیجے میں پیدا ہونے والے چیلنجز کو کم کر سکتا ہے اور اپنے قومی مفادات کا بہتر دفاع کر سکتا ہے۔
امریکا اور بھارت کے درمیان بڑھتی ہوئی قربت پاکستان کے لیے کئی چیلنجز پیدا کر رہی ہے، خاص طور پر سفارتی، دفاعی، اقتصادی، اور جغرافیائی سیاست کے تناظر میں۔ پاکستان کی موجودہ مدبر اور تجربہ کار قیادت قائدپاکستان محمد نواز شریف، صدر آصف علی زرداری، وزیراعظم شہباز شریف، نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار، وزیر خزانہ، اور بالخصوص آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر، ان چیلنجز سے نمٹنے میں جاندار کردار ادا کر سکتے ہیں سیاسی و عسکری قیادت میں مکمل ہم آہنگی۔ سفارتی محاذ پر وزیراعظم و وزیر خارجہ ہمہ وقت کوشاں ہیں۔چین، ترکیہ، سعودی عرب اور خلیجی ممالک کے ساتھ تعلقات کو مزید مستحکم کرکے سفارتی وزن بڑھایا جا سکتا ہے۔ امریکا سے متوازن تعلقات برقرار رکھنے کے لیے سفارت کاری کا مؤثر استعمال ضروری ہوگا تاکہ پاکستان کے دفاعی اور اقتصادی مفادات متاثر نہ ہوں۔ اسلامی ممالک کے فورمز اور او آئی سی کو فعال کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے تاکہ بھارت کے یکطرفہ اثر و رسوخ کا توڑ کیا جا سکے۔
اقتصادی محاذ پر وزیر خارجہ اسحاق ڈار جو اس میں مہارت و خصوصی تجربہ رکھتے ہیں و وزیر خزانہ اورنگزیب مل کر پاکستان کو مشکلات سے نکالنے میں مصروف عمل ہیں۔چین-پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے منصوبوں کو مزید تیز کیا جائے تاکہ پاکستان کی معیشت میں استحکام آئے اور خطے میں اس کی اہمیت بڑھے۔وزیر منصوبہ بندی پروفیسر احسن اقبال اپنے طویل تجربے اور مہارت کو بروئے کار لاتے ہوئے قبل ازیں اڑان پاکستان کا منصوبہ پیش کر چکے ہیں یہ منصوبہ عالمی مالیاتی اداروں (آئی ایم ایف، ورلڈ بینک) اور دوست ممالک سے اقتصادی ریلیف حاصل کرنے کی مؤثر و مضبوط حکمت عملی تشکیل دے کر پاکستان کی مالی مشکلات کم کرسکتا ہے تاکہ پاکستان کو معاشی لحاظ سے مضبوط کیا جا سکے۔تجارت کا متبادل نظام تشکیل دیا جائے، خاص طور پر روس، چین اور وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ۔ دفاعی اور سکیورٹی محاذ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر جس کمٹمنٹ اور ذمہ داری سے نبھا رہے ہیں۔ پاکستان کو ڈیفالٹ سے نکالنے میں بھی ان کا بڑا کلیدی رول رہا ہے جس کی وزیراعظم شہباز شریف نے ہمیشہ اعتراف بھی کیا اور انھیں خراج تحسین بھی پیش کیا ہے۔
بھارت کے ساتھ توازن برقرار رکھنے کے لیے چین اور ترکیہ جیسے ممالک سے دفاعی تعاون بڑھایا جا سکتا ہے۔اندرونی سکیورٹی اور دہشت گردی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے انسداد دہشت گردی حکمت عملی کو مزید مؤثر بنایا جا سکتا ہے تاکہ پاکستان اندرونی طور پر مستحکم رہے۔ امریکا کو باور کرایا جائے کہ پاکستان جنوبی ایشیا میں استحکام کا ضامن ہے، اور بھارت کے ساتھ دفاعی معاہدوں سے خطے میں عدم توازن پیدا ہو سکتا ہے۔ عوامی اور میڈیا ڈپلومیسی میں بھی حکومت کے پاس وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ کی قیادت میں متحرک اور محنتی ٹیم موجود ہے۔ اس میں مزید اضافہ بھی کیا جاسکتا ہے۔عالمی میڈیا میں پاکستان کے بیانیے کو مضبوط کرنے کے لیے متعلقہ تھنک ٹینکس، میڈیا ہاؤسز، اور سفارتی مشنز کو زیادہ متحرک کیا جا سکتا ہے۔مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو زیادہ مؤثر انداز میں عالمی سطح پر اجاگر کیا جائے تاکہ بھارت پر دباؤ ڈالا جا سکے۔امریکا اور بھارت کی بڑھتی قربت کے باعث پاکستان کو متحرک اور چوکس سفارت کاری، اقتصادی استحکام، اور دفاعی توازن پر کام کرنا ہوگا۔ وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار سفارتی اور اقتصادی محاذ پر، جبکہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر دفاعی و سکیورٹی حکمت عملی میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔