فضل حسین اعوان
یہ 16 دسمبر 1970 کی شام ہے۔ سورج غروب ہونے میں صرف ایک گھنٹہ بچا ہے۔اس کے غروب ہونے کے ساتھ ساتھ سردی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔سکول ٹیچر جمال انورٹرین پر لاہور جانے کے لیے گھر سے نکلتا ہے۔ ٹرین کے سٹیشن پر آنے سے 10 منٹ قبل وہ لائل پور ریلوے اسٹیشن پہنچ جاتا ہے۔اسٹیشن کے باہر لائل پور ریلوے اسٹیشن جلی الفاظ میں اس کا استقبال کرتے ہیں۔ٹکٹ لینے کے بعد مین گیٹ سے وہ ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم میں داخل ہو جاتا ہے۔سامنے تین بوگیوں والی ٹرین اسے نظر آتی ہے۔پاکستان میں لمبی لمبی مسافر ٹرینیں چلتی ہیں۔تین ڈبوں والی ٹرین اس نے اس سے پہلے کبھی اسٹیشن پر یا کہیں بھی نہیں دیکھی تھی۔ٹرین کے سامنے کی بوگی پر کسی اور زبان میں جس کو انورجمال نہیں سمجھتا تھا جو لکھا تھا،وہ ٹرین کا نام ہو سکتا تھا۔اس نے غور سے دیکھا تو اسی عبارت کے نیچے تھوڑے سے چھوٹے الفاظ میں انگریزی میں زینٹی ایکسپریس روم لکھا تھا۔یہ ہسٹری کا ٹیچر تھا ،اس نے سن رکھا تھا کہ کئی سال قبل زینٹی ٹرین روم سے چلی، ایک سرنگ میں داخل ہو گئی اور اس کے بعد اس کا کبھی سراغ نہ مل سکا تا ہم یہ ضرور ہوتا رہا کہ کبھی اس ٹرین کو اس ملک میں کبھی اس ملک میں دیکھا گیا۔جس میں سے سوارمسافر سوائے ایک بار کے کبھی باہر نہیں آئے۔انور کی طبیعت میں مہم جوئی موجود تھی۔پاکستان کے طول و عرض میں یہ شکار کے لیے اور پہاڑوں کی سیر کے لیے کبھی اکیلا کبھی اپنے دوستوں کے ساتھ نکل جایا کرتا تھا۔اس ٹرین کو دیکھ کے پہلے تو یہ خوفزدہ سا ہوا کیونکہ اس ٹرین کی سٹوری ہی کچھ اس قسم کی تھی کہ بڑے بڑوں کا اس ٹرین کی کہانی پڑھ کر یا سن کر پتا پانی ہو جاتا تھا۔مگر کچھ مہم جو ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی جان کو خطروں میں ڈال ایڈونچرزم کو انجوائے کرتے ہیں۔ایسے کئی مہم جوو¿ں کے بارے میں پتہ چلتا ہے کہ وہ جان سے بھی چلے گئے تھے۔جن لوگوں کے اندر مہم جوئی کی خو ہوتی ہے وہ خطرات مول لینے سے نہیں کتراتے۔ جمال انور بھی ایسا ہی شخص تھا۔وہ سینٹر والی بوگی سے فرنٹ والی بوگی کی طرف گیا۔اس نے آہستہ سے دروازے کو ہاتھ لگایا تو دروازہ کھل گیا۔ یہ اس کے اندر داخل ہو گیا۔اتفاق سے عین اس موقع پر جب یہ ٹرین میں سوار ہو رہا تھا۔ ایک 24 سال کی لڑکی نے اسے دیکھا اور بغیر سوچے سمجھے اور کوئی انکوائری یا تصدیق کیے،سینٹر والی بوگی میں سوار ہو گئی۔بعد میں پتہ چلا کہ اس لڑکی کا نام صائمہ تھا۔ وہ اسی شہر کے نواحی گاو¿ں کی رہنے والی تھی۔ یہ گنگا رام ہاسپٹل لاہور کی نرس تھی اس نے لاہور جانے والی ٹرین میں سوار ہونا تھا۔وہ شاید اسی ٹرین کو لاہور والی ٹرین سمجھ کے اس میں سوار ہو گئی تھی۔
اںورکے جیسے ہی ٹرین کے اندر دونوں قدم جاتے ہیں۔ ٹرین چل پڑتی ہے۔صائمہ کی دو سال قبل شادی ہوئی تھی اس کا خاوند نوید اختربینک مینجر تھا۔یہ جوڑا لاہور میں رہائش پذیر تھا۔صائمہ اپنے والدین سے ایک رات کے لیے ملنے آئی تھی۔ وہ اس ٹرین پر سوار ہو گئی جو ٹرین کبھی اپنی منزل پر نہ پہنچ سکی۔طویل عرصے تک صائمہ کے گھر والوں نے اس کا انتظار کیا اور پھر صبر کر کے بیٹھ گئے۔
صائمہ کی تو کبھی واپسی نہ ہو سکی مگر جمال انور کے مطابق وہ بھی کبھی لاہور نہیں پہنچ سکا تھا۔
جمال انور ٹرین میں سوار ہوتا ہے تو سامنے ایک سیٹ خالی تھی۔ ٹرین میں موسم معتدل تھا نہ گرمی نہ سردی تھی۔سیٹ پر بیٹھنے کے لیے آگے بڑھتے ہوئے اس نے مسافروں کا جائزہ لیا تو سارے مسافر بالکل خاموش بیٹھے ہوئے تھے۔ان کے اندر کوئی حرکت نہیں تھی۔نہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ بات کر رہے تھے نہ ہل جل رہے تھے لیکن سارے کے سارے زندہ تھے۔ان کے چہرے کسی بھی تاثر سے عاری تھے۔ ان میں عورتیں تھیں۔ ان میں نوجوان تھے اور ان میں بچے بھی تھے۔جمال انور کہتا ہے کہ دس منٹ گزرے ہوں گے کہ ان میں سے پچھلی سیٹوں سے ایک شخص اٹھا۔ اس نے میرا بازو پکڑا اور کچھ بڑبڑاتے ہوئے مجھے ٹرین سے اترنے کا اشارہ کیا۔ ٹرین اس وقت رک چکی تھی۔اس نے جو کچھ کہا تھا وہ میری سمجھ میں نہیں آسکا شاید وہ وہی زبان بول رہا ہو جس میں ٹرین کے باہر زینٹی ایکسپریس روم لکھا ہوا تھا۔
جمال کے بقول اندر کا ماحول اس قدر پر اسرار تھا کہ مجھے خوف محسوس ہونے لگا۔میری ایڈونچرزم کی خواہش کہیں دفن ہو چکی تھی۔میں ان کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا تھا کہ بوگی کے اندر تمام کے تمام مریض ہیں، روبوٹ ہیں یا جنازے ہیں۔میں نے دروازے کی طرف ہاتھ بڑھایا تو وہ میرا ہاتھ لگنے سے قبل ہی کھل چکا تھا۔ٹرین سے نیچے اترا تو یہ پلیٹ فارم کے درمیان میں نہیں بلکہ اس کے شروع میں ہی رکی ہوئی تھی۔ٹرین جتنی دیر بھی چلتی رہی اور اب جب کہ مجھے اتارنے کے بعد پھر یہ روانہ ہو چکی تھی کسی ایک موقع پر بھی اس کے انجن کی کی آواز اور ٹرین کی چھک چھک سنائی نہیں دی۔جس نے میرے خوف میں مزید اضافہ کر دیا۔
مجھے پتہ نہیں تھاکہ میں کہاں ہوں ؟ کس شہر میں ہوں۔ کس اسٹیشن پر ہوں۔مجھے تو لاہورجانا تھا۔ دفعتاً میری نظر پلیٹ فارم کے شروع میں لگے ہوئے بورڈ پر پڑی تو فیصل آباد لکھا تھا۔گویا میں فیصل آباد ریلوے اسٹیشن پر تھا۔میں نے اس شہر کا نام کبھی نہیں سنا تھا۔میں شش و پنج میں پڑ گیا کہ یہ کون سا اسٹیشن ہے جو ٹرین کے 10 منٹ چلنے کے بعد آ گیا۔ایسا اسٹیشن کسی نواحی علاقے کا ہی ہو سکتا تھا مگر یہ کوئی بڑا ریلوے اسٹیشن اور اس کا پلیٹ فارم بھی لمبا چوڑا تھا۔چند قدم کے فاصلے پر فروٹ ،ٹی سٹال اور دیگر اشیا کے ٹھیلے موجود تھے۔ ان میں سے سب سے قریب والے کے پاس جا کر میں نے پوچھا کہ لاہور یا لائل پور جانے والی ٹرین کب آئے گی۔ اس شخص نے حیران ہو کر مجھے پاو¿ں سے سر تک دیکھا پھر سر سے پاو¿ں تک دیکھا یہ پکا جگت باز لائل پوری تھا۔ اس نے کہا نواں آیا ایں سونیا۔یہ لائل پور ہی ہے لیکن اس کا نام کئی سال سے شاہ فیصل کے نام پر فیصل آباد رکھ دیا گیا ہے۔
جمال کیلئے لائل پور سے فیصل آباد کا سفر 54 سال پر محیط تھا۔وہ 16 اکتوبر 2024 کو فیصل آباد کے ریلوے اسٹیشن پر اترا تھا۔وہ کیسے گھر گیا اس کے ساتھ کیا ہوا اس کے کتنے عزیز رشتہ دار اب بھی موجود تھے۔یہ الگ سٹوری ہے۔اس سے پھر کبھی پردہ اٹھائیں گے۔اس کی اپنی اصل عمر 75 سال تھی لیکن وہ نظر تیس سال کا آ رہا تھا۔ ٹرین پر سوار ہوا تو اس کی یہی عمر تھی۔اس کے کپڑوں سے گھر سے چلنے سے قبل کی لگائی گئی پرفیوم کی خوشبو آرہی تھی۔زینٹی ٹرین فیصل آباد کے علاوہ انڈیا کے کسی اسٹیشن پر بھی نظر ا چکی تھی۔دیگر ممالک میں بھی اس کو دیکھا گیا تھا۔اب چلتے ہیں زینٹی کی ٹرین کی کہانی کی طرف کہ اس کا کیا قصہ کیا ماجرہ کیا کہانی کیا داستان ہے جو روم سے چلتی ہے ملکوں ملک گھومتی ہے۔
1845 میں میکسیکو میں 104 ایسے آدمی پائے گئے جو بظاہر غیر حاضر دماغی کے مرض کا شکار تھے وہ نہیں جانتے تھے کہ وہ کون ہیں؟ کہاں سے آئے ہیں اور ان کے ساتھ کیا حادثہ پیش آیا ہے؟ لیکن ان سب کا ایک ہی بیان تھا جو انہوں نے اٹالین زبان میں دیا." ہم ٹرین کے مسافر ہیں۔"
اٹلی میں زینٹی کمپنی نے نئی ٹرین لانچ کی۔ اس کی تین بوگیاں تھیں۔ پہلے سفر کے لیے عام لوگوں کو سفر کی دعوت دی گئی۔ فری ٹکٹ کے ساتھ کھانا پینا اور واپسی بھی فری تھی۔ اس ٹرین کے ساتھ عملے کے چھ لوگ موجود تھے عملے کے لوگ اور مفت مسافر بڑے خوش تھے ان کا یہ حسین سفر تھا۔ اس سفر کا آغاز جون 1911 کو ہوا جس کا کبھی اختتام نہ ہو سکا۔ اس سال کے اگلے سال 1912 کو ٹائٹینک اپنے پہلی سمندری سفر کے دوران ڈوب گیا تھا اس کے مالک بروس اسمےکو ٹائی ٹینک کی مضبوطی پر بڑا ناز تھا۔اس نے بڑا بول بولتے ہوئے کہا تھا یہ جہاز اس قدر مضبوط ہے کہ اسے خدا بھی نہیں ڈبو سکتا اور پھر یہ جہاز ایک برف کے تودے سے ٹکرا کر دو ٹکڑوں میں بٹ گیا تھا۔ زینٹی ٹرین کا بھی یہ پہلا سفر تھا نہ ختم ہونے والا سفر۔۔۔
زینٹی ایکسپریس 106 مسافروں کو لے کر روم کے قریبی پہاڑی مقام سپیلو کے لیے روانہ ہوئی۔روم سے یہ فاصلہ تقریبآ ڈیڑھ سو کلومیٹر ہے۔سفر سے قبل اس میں موجود مسافر نہیں جانتے تھے کہ وہ ایک ایسے سفر پر روانہ ہو رہے ہیں جو کبھی ختم ہونے والا نہیں ہے۔ ایک ایسا سفر جس کی کوئی منزل نہیں۔ دوران سفر ٹرین ایک کلومیٹر لمبی لمباڈی سرنگ میں داخل ہوئی اور پھر وہ دوبارہ کبھی باہر نہ نکل سکی۔ ابتدا میں خیال کیا گیا شاید سرنگ کے اندر اسے کوئی حادثہ پیش اگیا ہو۔جس پر روم کی پولیس اور ریلوے حکام جائے حادثہ پر پہنچے۔ مشاہدہ کی غرض سے سرنگ کے اندر داخل ہو کر سکتے میں آگئے۔وہاں اس ٹرین یا اس کی باقیات کا نام و نشان تک نہیں تھا۔تحقیق کے لیے جانے والا ہر شخص خوفزدہ اور حیران تھا یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک سرنگ بغیر کوئی نشان چھوڑے پوری ٹرین ہی کو نگل گئی۔ حقائق جاننے کے لیے وسیع پیمانے پر جب تفتیش کا آغاز کیا گیا تو ریلوے انتظامیہ کے پاس دو ایسے آدمی آئے جنہوں نے خود کو اس ٹرین کے مسافر ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ سرنگ میں داخل ہونے سے قبل ہم نے سرنگ کی دائیں سائیڈ پر ایک تیز روشنی اور دھواں دیکھا تھا۔ ہمیں محسوس ہوا کہ شاید کوئی حادثہ ہونے والا ہے، سو ہم نے چلتی ٹرین سے چھلانگ لگا دی. اس بیان نے انتظامیہ اور پبلک کو مزید حیران کر دیا بلکہ چکرا کے رکھ دیا۔جس کے بعد رومن انتظامیہ نے کسی مصلحت کے تحت سرنگ کو دونوں اطراف سے بند کر دیا۔پھر طویل عرصے کے بعد 1926 میں شائع ہونے والی رپورٹ نے دنیا کو ششدر کر دیا۔اس رپورٹ کے مطابق میکسیکو میں 1845 میں 104 ایسے آدمی پائے گئے تھے جو بظاہر غیر حاضر دماغی کے مرض کا شکار تھے۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ وہ کون ہیں کہاں سے آئے ہیں؟ درحقیقت ان کے ساتھ ہوا کیا ہے؟ کیا حادثہ پیش آیا لیکن ان سب کا ایک ہی بیان تھا جو انہوں نے اٹالین زبان میں دیا۔"ہم زینٹی ٹرین کے مسافر ہیں" 1911 میں پیش آنے والے حادثے کو 1845 یعنی 66 سال قبل اسی تعداد کے حامل 104 مسافروں کا عین حادثے کے مطابق بیان ایک حیران کن امر تھا۔ کیا کوئی متوازی دنیا تھی جس میں واقعہ کا عکس قبل از وقت ظاہر ہو گیا تھا یا کوئی ٹائم ٹریول کا شاخسانہ تھا۔ٹائم ٹریول کے ذریعے ماضی یا مستقبل میں جانے کی باتیں ہوتی ہیں۔ یہ تعجب خیز ٹائم ٹریول ہے جس میں ماضی اور مستقبل پیہم ہوجاتے ہیں۔ ٹرین کے مسافر حقیقی حادثہ رونما ہونے سے 66 سال پیچھے کیسے چلے گئے؟ اس بات نے اس وقت دنیا کو اور بھی زیادہ حیران کر دیا جب یہ حقیقت سامنے آئی ,روم سے میکسیکو کا فاصلہ 10 ہزار کلومیٹر سے بھی زیادہ ہے جبکہ ان دونوں ریاستوں کے درمیان کئی بڑے سمندر بھی حائل ہیں۔یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ ممکن ہے ایک ٹرین بغیر کسی پٹڑی کے پانی پر چلتی ہوئی اتنا طویل سفر طے کر سکے. اس وقت کی حکومت اور لوگوں نے کوئی واضح دستاویزی ثبوت نہ ہونے کی بنا پر ان ایک 104 مسافروں کو ذہنی مریض سمجھتے ہوئے نظر انداز کردیا تھا تاہم اس کے باوجود 1845 میں میکسیکو انتظامیہ نے اس واقعے کی تفتیش کرتے ہوئے روم سے بھی اس نوعیت کے حادثے کی تفصیل طلب کی لیکن چونکہ اس وقت تک ایسا کوئی حادثہ رونما ہی نہیں ہوا تھا سو اس کیس کو بے بنیاد سمجھتے ہوئے بند کر کے ان 104 افراد کو پاگل خانے منتقل کر دیا گیا تھا۔
اس واقعے کا ایک انتہائی دلچسپ اور طاقتور پہلو موجود ہے جو لوگوں کےذہن سے آج بھی نہیں نکل سکا۔ 104 مسافروں میں سے ایک سے سگریٹ باکس برآمد ہوا جس پر نہ صرف ڈن ہل کمپنی کا مونوگرام تھا بلکہ اس پر 1907 عیسوی کا سال بھی درج تھا۔ ڈن ہل لانچ بھی 1907 میں ہوا تھا۔1907 میں بننے والے سگریٹ کا باکس 1845 میں ایک مسافر سے برآمد ہوا آج بھی انتظامیہ کے پاس موجود ہے۔
صائمہ کا کیا بنا وہ کس سٹیشن پر اتری، اگر اتری تو اپنے گھر تک نہیں پہنچ سکی؟ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ اب بھی ٹرین میں موجود ہو اور کسی بھی وقت اپنے گھر لوٹ آئے۔اگر وہ واپس آتی ہے تو یہ بھی بہت بڑی مسٹری ہوگی۔اس قبل انہی پیجز پر آپ کیساتھ انڈین فلائٹ 184 کی 45 سال بعد واپسی کی ناولٹ سٹوری شیئر کی تھی۔یہ بھی ایسی ہی کہانی ہے۔