گھر کا بڑا وہ فرد ہوتا ہے جو خاندان کے معاملات میں راہنمائی فراہم کرتا ہے، فیصلے کرتا ہے، اور جو اس خاندان کو ایک مرکزی سمت میں رہ کر آگے بڑھنے کی تحریک دیتا ہے۔ یہ کردار ہمیشہ سے معاشرتی ڈھانچے کا حصہ رہا ہے، اور اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ تمام مسائل اور اختلافات کو سمجھداری سے حل کیا جائے تاکہ گھر کا ماحول محفوظ اور مستحکم رہے۔ جب ایک گھر کا بڑا اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے خاندان کے افراد کے مفادات کو مدنظر رکھ کر فیصلے کرتا ہے، تو اس سے گھر کے تمام افراد کو ایک مرکزیت اور ہدایت ملتی ہے، جو خاندان کو یکجہتی کی طرف لے کر جاتی ہے۔ مفکرین اور فلسفیوں کا کہنا ہے کہ ’’فیصلہ سازی کے عمل میں استحکام، جڑوں کا گہرا تعلق، اور تجربے کی گہرائی ہی خاندان کے استحکام کا ضامن بن سکتی ہے۔‘‘ ارسطو نے کہا تھا: ’’خاندان کا استحکام اس بات پر منحصر ہے کہ اس کے ارکان کس طرح باہمی تعاون اور احترام کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہیں۔‘‘ یہ بات ہمیں بتاتی ہے کہ جب خاندان کے افراد ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور احترام کے ساتھ رہتے ہیں تو خاندان کی بنیادیں مضبوط ہوتی ہیں۔ لیکن جب یہ تعاون اور احترام کم ہو جاتا ہے، تب ہم دیکھتے ہیں کہ گھر کی بنیادیں ہلنا شروع ہو جاتی ہیں، اور اختلافات بڑھنے لگتے ہیں۔ اس لئے، گھر کا بڑا نہ صرف فیصلہ کرتا ہے، بلکہ وہ اس بات کا بھی خیال رکھتا ہے کہ تمام فیصلے عادلانہ، حکمت سے بھرپور، اور تمام افراد کے لیے فائدہ مند ہوں تاکہ گھر کا ماحول ہمیشہ محفوظ، مستحکم اور پرسکون رہے۔
جب تک یہ کردار ایک فرد یا چند منتخب افراد کے ہاتھ میں رہتا ہے، خاندان میں ایک تسلسل اور ہم آہنگی رہتی ہے۔ بزرگوں کا فیصلہ، ان کی تجربہ کاری، اور ان کی رہنمائی ہی گھر کی بنیادوں کو مضبوط رکھتی ہے۔ ان کے فیصلے خاندان کے مستقبل کا تعین کرتے ہیں اور ہر فرد کی زندگی کو ایک متعین سمت میں ڈھالتے ہیں۔ بزرگوں کے فیصلے نہ صرف ایک مضبوط عزم کے ساتھ ہوتے ہیں، بلکہ وہ خاندان کے مشترکہ مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے کیے جاتے ہیں، جو کہ طویل مدت میں خاندان کی ترقی اور خوشحالی کا باعث بنتے ہیں۔
مہاتما گاندھی نے اس بات کو ایک اور زاویے سے بیان کیا تھا: ’’جتنی بھی قومیں مضبوط رہی ہیں، ان کے یہاں بزرگوں کا مقام ہمیشہ بلند رہا ہے۔‘‘ یہ الفاظ نہ صرف سیاسی یا سماجی سطح پر درست ہیں بلکہ ہمارے گھریلو ماحول پر بھی پوری طرح صادق آتے ہیں۔ جب کسی خاندان میں بزرگوں کی رہنمائی ختم ہو جاتی ہے، تو اس کے اثرات خاندان کی وحدت اور استحکام پر پڑتے ہیں۔ بزرگوں کی رہنمائی اور تجربہ خاندان کو ایک مرکزیت فراہم کرتا ہے، جو فیصلوں میں توازن اور انصاف کا پہلو لاتا ہے۔ لیکن جب یہ رہنمائی ختم ہو جاتی ہے، یا جب بزرگوں کی اہمیت کم ہو جاتی ہے، تو اختلافات بڑھنے لگتے ہیں، اور ہر فرد اپنے نظریات کو دوسروں پر مسلط کرنے لگتا ہے۔ اس سے بے ترتیبی پیدا ہوتی ہے اور خاندان میں منتشر خیالات اور بے سکونی کا ماحول پیدا ہو جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ خاندان کی وحدت پارہ پارہ ہو جاتی ہے اور وہ ایک مضبوط اور ہم آہنگ ڈھانچے کی جگہ منتشر اور کمزور ہو جاتا ہے۔ گاندھی جی کے اس قول کا مقصد ہمیں یہ یاد دہانی کرانا ہے کہ بزرگوں کی رہنمائی نہ صرف خاندان کی تقدیر کو بہتر بناتی ہے بلکہ اس سے تمام افراد کی زندگی میں نظم، احترام اور یکجہتی کی فضا قائم رہتی ہے۔
مفکر فریڈرک نِیٹشے نے اس بات کو اس طرح بیان کیا تھا: ’’جب ہر کوئی خود کو بڑے مقام پر دیکھنے لگے، تو معاشرتی ساخت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہے۔‘‘ نِیٹشے کا یہ قول نہ صرف معاشرتی سطح پر درست ہے بلکہ یہ ہمارے گھریلو ماحول پر بھی گہرا اثر ڈالتا ہے۔ اسی طرح خاندان میں بھی اگر ہر فرد خود کو بڑا سمجھنے لگے اور اپنی اہمیت کو دوسروں سے بڑھا کر دیکھنے لگے، تو اس کے نتائج بدتر ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ ہر فرد کا نقطہ نظر مختلف ہوتا ہے اور ہر کسی کا طرزِ عمل یا سوچنے کا انداز اپنی جگہ پر منفرد ہوتا ہے۔ جب ان مختلف نقطہ نظر کو ایک مرکزیت یا متفقہ رہنمائی فراہم نہیں کی جاتی، تو یہ اختلافات اور نظریاتی تضادات آپس میں ٹکرا کر مسائل پیدا کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ کبھی بھی یکجہتی میں نہیں بدلتا، بلکہ اختلافات کی ایک ایسی زنجیر بن جاتی ہے جو خاندان کی بنیادوں کو کمزور کرتی ہے۔ جب افراد کے درمیان احترام، تعاون اور ہم آہنگی ختم ہو جاتی ہے، تو خاندان کی داخلی ساخت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہے، جیسے کہ ایک عمارت جس کی بنیادیں ہل جائیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ خاندان میں فیصلہ سازی کا عمل ایک مضبوط، تجربہ کار اور عقل مند فرد کے ہاتھ میں ہو، تاکہ ہر فرد کے خیالات کو عزت دی جائے، لیکن فیصلے ایک واحد محور سے کیے جائیں تاکہ یکجہتی اور ہم آہنگی برقرار رہے۔
ہر فرد کا یہ سوچنا کہ وہ سب سے زیادہ اہم ہے، نہ صرف اس کے اپنے مفادات کو نقصان پہنچاتا ہے بلکہ خاندان کے باقی افراد کے درمیان بھی عدم اعتماد اور بیزاری کی فضا پیدا کرتا ہے۔ جب ایک فرد خود کو دیگر تمام افراد سے زیادہ اہم سمجھنے لگتا ہے، تو وہ دوسروں کی رائے کو نظرانداز کرتا ہے اور اپنے فیصلوں کو تمام خاندان پر مسلط کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ خاندان کے اندر ایک کشیدگی پیدا ہوتی ہے، جہاں ہر شخص اپنے مفادات کو ترجیح دینے لگتا ہے اور ایک دوسرے کے نقطہ نظر کو اہمیت نہیں دیتا۔ اس سے تعلقات میں دراڑ آتی ہے اور خاندان کے اندر جو محبت اور بھائی چارہ ہونا چاہئے، وہ کم ہوتا جاتا ہے۔ جب افراد ایک دوسرے سے الگ تھلگ ہو جاتے ہیں اور ایک دوسرے پر اعتماد نہیں کرتے، تو پورا خاندان کمزور پڑ جاتا ہے۔ اس صورتحال میں وہ یکجہتی جو خاندان کے لئے ضروری ہوتی ہے، مفقود ہو جاتی ہے، اور محبت کی جگہ تنازعات اور دشمنی لے آتی ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہر فرد کو اپنے مقام کا شعور ہو اور وہ اپنے فیصلے دوسروں کی رائے اور ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے کرے تاکہ خاندان کا ماحول محبت اور احترام سے بھرپور رہے۔
بڑوں کا فیصلہ کرنا اس لئے ضروری ہے کیونکہ وہ تجربے اور بصیرت کے حامل ہوتے ہیں۔ ان کی رہنمائی صرف ان کی عمر کے تجربات پر مبنی نہیں ہوتی، بلکہ وہ خاندان کے مختلف اراکین کی ضروریات اور خواہشات کو بھی سمجھتے ہیں۔ جب بزرگ گھر کے اندر اہم فیصلے کرتے ہیں، تو وہ نہ صرف اپنی ذاتی خواہشات پر غور کرتے ہیں، بلکہ پورے خاندان کے مفادات کو سامنے رکھتے ہیں۔ ان کا فیصلہ عموماً عادلانہ اور متوازن ہوتا ہے کیونکہ وہ تمام پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہیں اور ایک ایسی راہنمائی فراہم کرتے ہیں جو تمام افراد کے فائدے میں ہو۔ اس کے علاوہ، بڑوں کا فیصلہ کرنا اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ خاندان کے افراد کے درمیان ایک احترام کا رشتہ قائم ہو اور کوئی بھی فرد اپنے آپ کو دوسروں سے برتر نہ سمجھے۔ یہ ایک ہم آہنگی کا ماحول پیدا کرتا ہے جس میں ہر فرد کو اپنی اہمیت کا احساس ہوتا ہے اور وہ پورے خاندان کی بہتری کے لئے کام کرتا ہے۔ جب خاندان میں سب کے خیالات اور جذبات کا احترام کیا جاتا ہے اور بڑوں کی رہنمائی حاصل ہوتی ہے، تو اختلافات کم ہو جاتے ہیں اور ایک مضبوط، متحد خاندان کا قیام ممکن ہوتا ہے۔ اس طرح سے فیصلے کرنے کا عمل نہ صرف فرد کی بہتری کے لیے ہوتا ہے بلکہ خاندان کی مجموعی فلاح و بہبود کے لیے بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔
اپنے بزرگوں کو اپنی زندگی میں اہمیت دیں۔ وہ آپ سے ہمیشہ محبت کرتے ہیں اور آپ کی بھلا ئی کے لیے ہمیشہ فکرمند رہتے ہیں۔ یہ یاد رکھیں کہ وہ اپنی عمر گزار چکے ہیں اور ان کے تجربات بے شمار ہیں جو آپ کے لیے قیمتی ثابت ہو سکتے ہیں۔ ان کی رہنمائی آپ کو زندگی کے مختلف پہلوؤں میں بہتر فیصلے کرنے میں مدد دیتی ہے۔ ان کے تجربات اور بصیرت کا فائدہ اٹھائیں اور انہیں اپنے خاندان کے سربراہ سمجھتے ہوئے ہر چھوٹے سے بڑے مشورے کے لیے ان سے ضرور بات کریں۔ جب آپ بزرگوں کا احترام کریں گے اور ان سے مشورہ لیں گے، تو آپ کو نہ صرف زندگی کی مشکلات کا بہتر حل ملے گا، بلکہ آپ کے درمیان ایک مضبوط اور محبت بھرا رشتہ قائم ہوگا۔ ان کی دعائیں اور تجربات آپ کی زندگی میں سکون اور کامیابی کا باعث بنیں گے۔