قندھار ہائی جیکنگ بازگشت

انڈین ایئر لائنز کی پرواز آئی سی 814 کو 1999ء میں24دسمبر کے دن کھٹمنڈو سے دہلی جانے کے دوران ہائی جیک کیا گیا۔ اس جہاز میں 176مسافر دو پائلٹ اور عملے کے15ارکان موجود تھے۔ اس کی مزید تفصیل میں جانے کے بجائے اس حوالے سے انڈیا کی شدت پسند ذہنیت میں پیدا ہونے والے خلفشار ،ہیجان اور خلجان کی بات کرتے ہیں۔ اس ہائی جیکنگ پر ایک فلم بھی بن چکی ہے۔ وار آن ٹیرر قندھار۔  اس میں امیتابھ بچن کا مرکزی کردار تھا۔ فلمی کہانی اور کچھ افسانوی کہانیوں نے حقائق کو بھی متاثر کیا ہے۔ مگر زمینی حقائق کی نفی ممکن نہیں ہو سکتی۔ حال ہی میں نیٹ فلکس پر ویب سیریز آئی سی 814 ریلیز ہوئی ہے جس پر انسانوں کے گلے کاٹ دینے والے نان ایشو کو ایشو بنا اصولوں کا واویلا کر رہے ہیں۔ یہ جہاز پانچ لوگوں نے ہائی جیک کیا۔ جہاز میں یہ ایک دوسرے کو ان ناموں سے مخاطب کرتے تھے: چیف، ڈاکٹر، برگر،بھولا اور شنکر۔ ان میں سے ایک نام مکمل ہندوؤں والا ہے’’شنکر‘‘ باقی ناموں سے نہیں پتہ چلتا کہ یہ کس مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔
ویب سیریز میں کہانی آئی سی 814 کو ہائی جیک کیے جانے کے واقعات کے گرد گھومتی ہے۔ اس ویب سیریز کے معاملے کو انڈین حکومت بھی سنجیدگی سے لے رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر شور برپا ہے کہ ہائی جیکر تو مسلمان تھے۔ انہوں نے ہندوؤں کے نام استعمال کئے۔نیٹ فلیکس ویڈیو میں بھی شروع میں یہی نام استعمال کیے گئے ہیں۔ جس سے یہ ویب سیریز دیکھنے والے گمراہ ہوں گے کہ یہ جہاز ہندو نوجوانوں نے ہائی جیک کیا تھا۔حکومت ہند نے اپنے کان نہیں دیکھے، کتے کے پیچھے دوڑ لگا دی۔ترنت بیان جاری کر دیا کہ کسی بھی شخص کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ اس قوم کے جذبات کے ساتھ کھیلے۔انڈیا کی ثقافت اور تہذیب کی عزت کی جانی چاہیے۔ آپ کو کسی بھی چیز کو غلط معنوں میں دکھانے سے قبل ایک مرتبہ ضرور سوچنا چاہیے۔ حکومت اس معاملے کے ساتھ انتہائی سنجیدگی سے نمٹے گی۔
یہ پیش رفت اس وقت سامنے آئی ہے جب نیٹ فلکس انڈیا کی کنٹینٹ ہیڈ مونیکا شیرگل کو انڈیا کی مرکزی وزارت اطلاعات و نشریات کی طرف سے آئی سی 814 ویب سیریز کی وجہ سے پیدا ہونے والے تنازعے کے باعث طلب کیا گیا تھا۔ متعصب کج فہم اور کوڑھ مغز سوشل میڈیا صارفین نے ویب سیریز کے تخلیق کاروں پر الزام لگایا کہ ان کی جانب سے جان بوجھ کر ہائی جیکروں کے نام بدل کر ’بھولا‘ اور ’شنکر‘ رکھے گئے ہیں۔
انوبھو سنہا اور ترشانت سری وستوا کی جانب سے بنائی گئی یہ سیریز دراصل ایک کتاب ’فلائٹ ان ٹو فیئر، دی کیپٹنز سٹوری میں بیان کیے گئے واقعات پر مبنی ہے اور اس میں نصیر الدین شاہ، وجے ورما اور پنکج کپور نے اہم کردار ادا کیے ہیں۔بی جے پی اس معاملے میں پیچھے رہ جائے ایسا ممکن نہیں ہے۔سیریز کے تخلیق کاروں پر تنقید کرنے والوں میں بی جے پی رہنما امت مالویا بھی شامل ہیں۔انہوں نے اپنے ایک ایکس بیان میں کہا ہے کہ ’آئی سی 814 کے اغوا کار خطرناک قسم کے دہشت گرد تھے، جنہوں نے اپنی مسلم شناخت چھپانے کے لیے نقلی ناموں کا سہارا لیا تھا۔ فلم ساز انوبھو سنہا نے ان کے لیے غیرمسلم نام استعمال کر کے ان کے مجرمانہ ارادے کو جائز قرار دیا۔ نتیجہ؟ اب کئی دہائیوں بعد لوگ یہ سوچیں گے کہ ہندوؤں نے آئی سی 814 کو ہائی جیک کیا تھا۔
ہائی جیکر جہاز کے اندر ایک دوسرے کو انہی ناموں سے پکارتے رہے تاہم بعد میں ان کے اصل نام بھی سامنے آگئے تھے۔وہ تھیابراہیم اختر ،شاہداختر،ظہورمستری ،صغیراور سنی احمد قاضی۔ویب سیریز میں یہ اصل نام بھی بتائے گئے ہیں مگر بال ٹھاکرے مائنڈ سیٹ کو اعتراض یہ ہے کہ شروع میں جب بھولا اور شنکر کے نام لئے گئے۔ اس موقع پر اصل نام ظاہر نہ کرکے ہندو دھرم کو نشِٹ کیا گیا ہے۔
فلائٹ 814لاہور میں اتری تھی۔ بھارتی حکومت کی طرف سے پاکستان کو اسی طرح کمانڈو ایکشن کرنے کو کہا گیا تھا جس طرح آئی سی 423پر1981ء میں کر کے ہائی جیکروں کو بے بس کرکے تمام مسافروں، عملے کے افراد اور پائلٹس کو آزاد کرالیا گیا تھا۔ 1999ء میں  اس جہاز کیہائی جیکر پاکستان میں رکنے کے لیے تیارنہیں تھے۔پاکستان بھی کسی جھنجٹ میں نہیں پڑنا چاہتا تھا۔ بھارتی حکومت نے ہائی جیکروں کے آگے ناک سے لکیریں نکالی تھیں۔ مولانا مسعود اظہر، مشتاق زرگر اور احمد سعید شیخ کو رہا کرنا پڑا تھا۔ مذاکرات قندھارمیں ہوئے تھے۔ ان میں آج کے انڈین سلامتی کے ایڈوائر اجیت دوول بھی شامل تھے۔ دوول صاحب بھارت سے24اگست1984ء کو ایک اور فلائٹ421کی ہائی جیکنگ کے دوران بھی مذاکراتی عمل کا حصہ تھے۔ 421 کی فلائٹ کی ہائی جیکنگ 1971ء میں اغوا ہونے والے گنگا جہاز کی طرح ڈرامہ تھی۔ اس پرواز میں آج کے انڈین وزیر خارجہ جے شنکر کے والد  کے سبرامینم بھی موجود تھے۔ جو ان دنوں انڈین انسٹیٹیوٹ آف ڈیفنس سٹڈیز اینڈ انلسز کے ڈائریکٹر تھے۔کے سبرامینم کا بھارت کے نیو کلیئر پروگرام کو نئے خدوخال میں ڈھالنے میں اہم کردار رہا ہے۔وہ دو مرتبہ اس انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر رہے۔پہلی مرتبہ 1969ء سے 1975ء اور پھر1989ء تا 1986ء حالیہ دنوں کے سبرامینم کے صاحب زادے  وزیر خارجہ جے شنکر نے کہا ہے کہ وہ انڈین فارن سروس میں اس وقت نوجوان افسر کے طور پر آئی سی 421 کی ہائی جیکنگ کے بحران کو ہینڈل کر رہے تھے۔ دوسری طرف وہ یرغمالیوں کے متاثرہ خاندانوں میں بھی شامل تھے۔ یہ جہاز  سکھ سٹوڈنٹس فیڈریشن کے سات شدت پسندوں نے اغوا کیاتھا۔ پاکستان لائے جانے کے بعد جہاز دبئی لے جایا گیا۔ اس اغوا کاری کا اختتام تمام ہائی جیکروں کے دبئی حکومت کے سامنے سرنڈر پر ہوا۔ ہائی جیکروں کو آپشن دیا گیا وہ اپنا ٹرائل وہیں کرا لیں یا بھارت چلے جائیں۔ سکھ  اغواء کاروں نے بھارت جانے کو ترجیح دی۔ دبئی میں سزاکا ڈر تھا۔ دبئی ہی میں ابتدائی تحقیقات کے دوران انہوں نے اعتراف کیا کہ  کے سبرامینم کی یہ ساری پلاننگ تھی۔ وہ پاکستان کی ایٹمی تنصیبات کو کھوجنا چاہتے تھے۔ ڈرامے بازی کا سب سے بڑا ثبوت یہ بھی ہے کہ دبئی ایئر پورٹ پر جہاز کھڑا ہے، مسافر عملہ اور پائلٹ جہاز کے اندر ہیں جبکہ سارے ہائی جیکر جہاز کے باہر ٹہل رہے ہیں۔  ان دنوں اقبال حسین لکھویرا دبئی میں جنگ کے بیورو چیف کی حیثیت ہے کام کررہے تھے۔وہ ایئر پورٹ گئے۔ ایئر پورٹ مینیجر سے کہا کہ اندر کی خبر دیں۔ ان کا جواب تھا اندر کی خبر وہ سامنے باہر پھر رہی ہے۔سات کے سات ہائی جیکر جہاز کے باہر تھے۔اس وقت ٹائم جو بھی تھا ان سات سکھوں کے 12 ضرور بجے ہوئے تھے۔

فضل حسین اعوان....شفق

ای پیپر دی نیشن