ضرب مومن مشقوں کی چند یادیں(1)

یہ ان دنوں کی بات ہے جب آئی ایس پی آر کے دروازے اخبار نویسوں اور عوام پر ابھی بند نہیں ہوئے تھے۔ بریگیڈیئر صدیق سالک،میجر جنرل راشد قریشی، بریگیڈ یئر صو لت رضا توراولپنڈی میں تھے۔ لاہور میں کرنل سفیرتارڑ تھے۔ ان کے بعد میجرشاہد کرنل بن کر بھی خدمات انجام دیتے رہے اور بریگیڈیئر بن کر رخصت ہوئے۔ لاہور میں ابتدائی سالوں میں سہگلوں کی کوٹھی کے پیچھے گندے نالے کے اوپر آئی ایس پی آر کے دفتر میں کیپٹن ارشد کافی عرصہ تعینات رہے۔ جہاں میں صحافیوں اور عوام پرآئی ایس پی آر کے دروازے کھولنے کی بات کر رہا ہوں، وہاں مجھے میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ جو بعد میں لیفٹیننٹ جنرل بن گئے تھے،کا ذکربھی ضرور کرنا پڑے گا کیونکہ ان کی طرح کسی نے بھی پریس اور عوام سے رابطہ نہیں کیا۔ یہ بھی تاریخ میں پہلی اور آخری بار ہوا۔ وہ فاٹا میں ضرب عضب کے نام سے فوجی آپریشن کے ترجمان تھے۔ راولپنڈی میں بریگیڈیئر عدیل اورکرنل شفیق جو ،اب بریگیڈیئربن چکے ہیں، خصوصی طور پر اخبار نویسوں  کی توجہ کا مرکزہوتے تھے۔ 
جنرل ضیاء الحق کے طیارے کے حادثے کے بعدجب جنرل مرزا اسلم بیگ آرمی چیف بنے تو وہ بھی لوگوں میں گھل مل گئے تھے۔ انہوں نے ہمیشہ اپنے کام سے کام رکھا اورایک طویل عرصے کے بعد ملک میں جمہوریت کو پنپنے کا بھرپور موقع فراہم کیا۔ملک میں عام انتخابات کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو وزیراعظم بنیں توانہوں نے جنرل مرزا اسلم بیگ کو تمغہ جمہوریت عطا کیا، یہ اپنی نوعیت کا ایک منفردتمغہ ہے جو آج تک کسی اور جرنیل کو نصیب نہیں ہوا۔ 
آرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ کے ذہن میں پتہ نہیں کیا سوچ آئی کہ انہوں نے صرف آئی ایس پی آر کے ہی نہیں، پوری فوج کے دروازے عوام کے لیے کھول دئیے اور ’’ضرب مومن ‘‘ کے نام سے ایک بہت بڑی ایکسرسائز پنجاب کے میدانوں میں کی گئی۔جس میں لاہور، کراچی، کوئٹہ، پشاور اور ملتان کے صحافی شریک ہوئے۔ لاہور سے ہم لوگوں کو کرنل سفیرتارڑ صاحب ایک فوجی وین میں بٹھا کر سرگودھا لے گئے۔صبح سویرے کا یہ سفر بڑا ہی خوشگوارتھا، ارشاد احمدحقانی تھے،مصطفیٰ صادق تھے،زیڈ اے سلہری تھے،بیگم بشریٰ رحمان تھیں،جمیل اطہر بھی تھے۔سارے راستے خوش گپیاں ہوتی رہیں اور خاص طور پر محترمہ بشریٰ رحمان اور جناب سلہری کی ذات طنز ومزاح کاا نشانہ بنتی رہی، لیکن وہ دونوں جوبزرگ تھے، مسکراتے ہی رہے۔
ضرب مومن کے لیے ہم لوگ سرگودھامیں اکٹھے ہوئے تو اس سے آگے ہمیں ایک خصوصی ٹرین میں بٹھا دیا گیا ،جس کے ایک ایک ڈبے میں دو،دو صحافی سوار تھے، میرے ڈبے میں محترم ارشاد احمد حقانی نیچے والی سیٹ پر تھے اور میں اوپر والی سیٹ پرلیٹ گیا۔ ہم دونوں ضلع قصور کے تھے اور وہ میرے استاد تھے اور دفتری ساتھی بھی۔ ہمارا آپس میں گھریلو رابطہ تھا،خاندانی رابطہ بھی تھا،میں نے ان کے گھر ایک ،دو ر اتیں بسر کیں۔وہ بڑے شفیق انسان تھے،اسلامیہ کالج قصور میں اسلامیات کے پروفیسر تھے۔ ار شادحقانی نے کہا کہ بھکر میں میرے ایک شاگرد ڈپٹی کمشنر لگے ہوئے ہیں، وہ ابھی ملنے آئیں گے۔ میں نے کہا جی ٹھیک ہے،آجائیں تو ضرور ملیں گے۔وہ آئے تو ان کے ساتھ کافی دیر تک ارشاداحمد حقانی اور میں نے گپ شپ کی۔ 
ہم سرگودھا پہنچے تو ایک بڑے آڈیٹوریم میں ضرب مومن کی مشقوں کے انچارج جنرل حمید گل نے خطاب کیا۔ انہوں نے اعلان کیا کہ اب ہم ماشاء اللہ ایک ایسی ایکسرسائز مکمل کر چکے ہیں ،جس میں یہ ثابت ہو گیا ہے کہ ہمارے پاس تین ریزرو ڈویڑن موجود ہیں اور جب کبھی انڈیا سے جنگ ہوئی تو ہم ان تین ریزرو ڈویژن کی مدد سے دو تین سو کلو میٹر انڈیا کے اندر گھس جائیں گے۔انہوں نے کیا خوب بات کی ، سب نے داد دی اور تالیاں بجائیں۔بعد میں سوال جواب کی محفل شروع ہوئی تو میں نے ان سے کہا کہ اگر کوئی نامکمل یا ادھورا ایجنڈا ہے تو وہ کشمیر کا ہے ، جو انڈیا کے قبضے میں ہے اور وہاں مظلوم کشمیریوں پر مظالم کے پہاڑ ٹوٹ رہے ہیں مگر آپ نے ہمیں جوایک ہفتہ پورا ایکسرسائز دکھائی ہے، اس میں تو کسی جگہ آپ نے پہاڑی جنگ کا منظر نہیں دکھایا تو کیا کشمیر کو آپ میدانی جنگ سمجھتے ہیں؟ 
 میرے اس سوال پر  انہوں نے کہا نہیں بھائی ایسے نہیں ہوتا، جب جنگ ہو تی ہے نا تو پھر کچھ علاقے انکے ہمارے پاس ہوں گے اور کچھ ہمارے علاقے انکے پاس ہوں گے، جب ہم میز پر بیٹھیں گے تو آپس میں معاملہ چلے گا،گفتگو ہوگی تو ان دو تین سو میل کو خالی کرنے کے لیے ہم ان سے کشمیر مانگیں گے۔میں نے کہا یہ تو کشمیر لینے کا کوئی نسخہ نہیں۔ چلیں لہو گرم رکھنے کا ہے ایک بہانہ، کے مصداق آپ نے اپنے جوانوں اور افسروں کو تگڑا کر لیا۔
حقیقت یہی ہے کہ انڈیا نے افغانستان کے دہشت گردوں کی پیٹھ ٹھونکی اور انہیں خود کش دھماکوں کی تربیت دے کر پاکستان کے اندر داخل کر دیا اور ہمیں افغانستان کی سرحد کے ساتھ ملحقہ فاٹا، ڈیرہ اسماعیل خان اور بلوچستان کے علاقے ان دہشت گردوں سے خالی کرانے کیلئے تقریباً 20 سال لگے۔ اب ہمارے وہ ڈویژنزجو ہمیں فالتو نظر آتے تھے، ہمارے لیے ضروری بن گئے۔ اب ان کی وہاں پر پکی چوکیاں بن چکی ہیں اور معاملہ پھر واپس پلٹ آیا ہے کہ انڈیا کے تونو ڈویژن کشمیر میں ہیں، باقی اس نے چائنہ کے لیے سنبھالے ہوئے ہیں جو پہاڑی ہیں۔چند ڈویژنز اس نے سیالکوٹ، واہگہ، قصور اور سلیمانکی کیلئے مختص کیے ہوئے ہیں۔ کشمیر میں توجنگ کا امکان انڈیا دیکھتا ہی نہیں۔ 
کشمیرمیں جہاد کے لیے مجاہد تنظیمیں تو بہت کھڑی کی گئیں، نوجوانوں کو برف پوش پہاڑوں کے اوپر سے وادی میں داخل کیا گیا جو یا تو موسم کی سختی سے ہی شہید ہو گئے یا پھر بھارتی فوج، جو ان کیلئے منتظر بیٹھی ہوئی تھی، اس کے ہتھے چڑھ جاتے تھے۔  اور جب ان مجاہدین کا زور شور بہت بڑھ گیا تو انڈیا نے ہمیں بدنام کرنا شروع کر دیا کہ ہم دہشت گردی کر رہے ہیں۔ اس نے بالآخر اقوام متحدہ سے یہ قراردادمنظور کروا لی کہ کشمیر میں داخل ہونے والے مجاہد دہشت گرد تصور کئے جائیں گے اور اگر وہ دہشت گردی کریں گے تو پاکستان کو ایک دہشت گرد ملک قرار دیا جائے اور اس کے خلاف وہی پابندیاں عائد کی جائیں جو ایک دہشت گرد ملک کے خلاف کی جاتی ہیں۔ آج اگر جنرل حمید گل زندہ ہوتے تو وہ میرا کالم پڑھ کر ٹھک سے فون کرتے کہ بھارت کی نو لاکھ فوج کشمیر کی چھوٹی سی وادی میں پھنس کر رہ گئی ہے۔ اور یہ کشمیری مجاہدین کا ہی کارنامہ ہے۔ بہرحال میرے پاس ان کے اس بیانئے کا کوئی جواب نہیں۔(جاری ہے)

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

ای پیپر دی نیشن