یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ مجاہد کشمیرسید علی گیلانی مرحوم نے اپنی پوری زندگی تحریک آزادی کیلئے وقف کئے رکھی۔بھارت اس مرد مجاہد سے اس قدر خوف زدہ تھا کہ ان کے مرنے کے بعد بھی ان کی قبر پر پہرے لگائے گئے۔سید علی گیلانی 5اگست 2019ء کے بھارتی اقدامات کو کس طرح دیکھتے تھے اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔سید علی گیلانی مرحوم لکھتے ہیں کہ ریاست جموں و کشمیر کی موجودہ صورتِ حال سے آپ بخوبی واقف ہیں۔ پوری ریاست کو ایک قید خانے میں تبدیل کردیا گیا۔ ساری حْریت اور سیاسی قیادت اسیر یا نظربند ہے۔ شہروں اور دیہات سے تشویش ناک اطلاعات موصول ہورہی ہیں۔ اس قیدخانے میں اشیائے خوردونوش کی قلّت کے باعث فاقہ کشی کی نوبت آچکی ہے۔ ادویات اور علاج معالجے کے تعطل سے اموات واقع ہورہی ہیں۔ لیکن بھارتی حکومت نے اس ظلم،درندگی اور وحشت ناکی سے باہر کی دنیا کو بے خبر رکھنے کا پورا پورا انتظام کیا ہے۔ ریاست کے مواصلاتی نظام کو بند کرکے، یہاں ہونے والے ظلم وجبر کو چھپانے کے قاہرانہ حربوں کے ساتھ ہمارے مقامی میڈیا پر بھی غیر علانیہ سنسر شپ عائد کی گئی ہے۔ ریاست میں کہاں کیا ہورہا ہے؟ بھارتی فوج کے ظلم وستم، ہزاروں جوانوں کی گرفتاری اور ہلاکتوں کے بارے میں کوئی بھی خبر شائع نہیں ہورہی۔بھارتی حکمران روزِ اوّل سے جھوٹ اور فریب کے ذریعے عالمی راے عامہ کو گمراہ کرنے کی بزدلانہ کوشش کرتے چلے آرہے ہیں۔
اقوام متحدہ نے بھارت کو ان بدنام ملکوں کی فہرست میں شامل کیا ہے، جہاں انسانی حقوق کی پاس داری اور تحفظ کی خاطر کام کرنے والوں کو قتل، تشدد، دھمکی اور خواتین کارکنوں کو جنسی زیادتیوں کی دھمکیوں کا سامنا ہے۔ ان اہل کاروں کو قدم قدم پر قانونی اور انتظامی مشکلات سے دوچار کیا جاتا ہے۔بھارتی حکمرانوں کی تمام پابندیوں کے باوجود، اس وقت مسئلہ کشمیر کی گونج پوری دنیا میں سنائی دے رہی ہے۔ جس کا ایک بڑا ثبوت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (UNSC) کے اجلاس میں کشمیر پر بحث اور عالمی ذرائع ابلاغ پر خبروں کی اشاعت ہے۔ اسی سلسلے میںسید علی گیلانی کی چند اہم باتیں قارئین کی پیش خدمت ہیں:
’’ جموں وکشمیر کے میرے عزیز ہم وطنو!
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
5اگست 2019 ء سے شروع کیے جانے والے اقدامات سے بھارت کا مکروہ اور پْرفریب چہرہ، پہلے سے کہیں زیادہ بھیانک صورت میں دنیا کے سامنے آچکا ہے۔ جس کے تحت وہ اشاروں کنائیوں کے بجائے کھل کر یہاں کی آبادی کا تناسب تبدیل کرنے پر اْتر آیا ہے۔ طاقت کے نشے کی بدمستی اور اکثریتی ووٹ کے غرور نے دہلی کے حکمرانوں سے انسانیت، اخلاقیات اور جمہوریت کی ساری قدریں چھین لی ہیں۔ اور وہ اپنے فوجیوں کی تعداد میں ہوش ربا اضافہ کرکے یہاں کی محکوم آبادی کو یرغمال بناتے ہوئے من مانے فیصلے کرنے چڑھ دوڑے ہیں۔ حددرجہ افسوس ناک امر یہ ہے کہ وہ اس گھنائو نے اقدام پر ماتم کرنے کے بجائے خوشیاں منا رہے ہیں۔ اس مذموم اقدام سے پہلے پوری ریاست جموں و کشمیر کو ایک پریشان کن اور اضطرابی کیفیت میں مبتلا کرتے ہوئے، پکڑدھکڑ اور غیرانسانی، غیرقانونی اور غیراخلاقی پابندیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کیا گیا۔ پھر ایک جنگی صورت حال پیدا کرکے، یہاں کے عوام کو اپنی مسلح افواج کے حوالے کیا۔ پھر تمام انسانی اور سماجی رابطے منقطع کردینے جیسے بزدلانہ عمل سے اپنی ’بہادری‘ ثابت کرنے کی مذموم کوشش کی گئی۔
تاریخ گواہ ہے کہ حق وصداقت اور یکسوئی و یک جہتی کے سامنے تیروتفنگ، اسلحے، گولے بارود اور فوجوں کے ٹڈی دَل نے ہمیشہ مات کھائی ہے۔ حوصلہ، صبر، نظم ونسق ایک نہتی قوم کے وہ ہتھیار ہیں، جن سے وہ بڑی بڑی فوجی طاقتوں کو زیر کرسکتی ہے۔آپ خواتین و حضرات کو یہ دردمندانہ توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ بھارتی عہد شکن حاکموں کے اس شب خون کے دوران ہمیں ہاتھوں پہ ہاتھ دھرکر دشمن کے لیے ترنوالہ نہیں بننا۔ اس عریاں جارحیت کے خلاف سینہ سپر ہوکر کھڑے ہونا، قوم کے ہرفرد کی ذمہ داری ہے۔
سرکاری ملازمین، خاص طورپر پولیس کے اہلکاروں سے اپیل ہے کہ وہ غیرت اور حمیت کا مظاہرہ کریں۔ انھیں اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ اپنے ہی لوگوں کو تہہ تیغ کرتے رہنے کے باوجود بھارت ان پر بھروسا نہیں کرتا۔ اسی لیے انھیں غیر مسلح کرکے پوری کمانڈ اپنے فوجیوں کے حوالے کر دی گئی ہے۔ اگر اس ذلت سے بھی آپ کی رگِ غیرت نہیں پھڑکتی، تو اپنے ضمیر اور ایمان کا ماتم کرتے ہوئے، ہندنواز سیاست دانوں کی طرح اپنے انجام کا انتظار کرنا چاہیے۔
ریاست جموں و کشمیر سے باہر رہنے والے کشمیری بہنوں اور بھائیوں سے بھی اپیل کرتا ہوں کہ دیارِغیر میں رہ کر اپنے وطن کی صورتِ حال سے خود کو باخبر رکھیں۔ آپ میں سے ہرفرد یہاں کی ستم رسیدہ قوم کے لیے سفیر بن کر اپنے لوگوں کی جدوجہد میں اپنا کردار ادا کرے۔ یہاں ہونے والی مسلمانوں کی نسل کْشی اور انسانی حقوق کی پامالیوں سے دنیا کو آگاہ کرنا، آپ کی دینی، قومی اور انسانی ذمہ داری ہے۔ آپ اپنے بھائیوں کے دْکھ درد کو محسوس کریں اور بھارتی جارحیت کے نشہِ طاقت میں کئے جانے والے ظلم اوردرندگی کے تمام حربوں کو ایک ایک دروازے پر دستک دے کر بے نقاب کریں۔ اس مقصد کے لیے تحریر، تقریر، مکالمے اور دْعا سے کام لیں۔
خاص طور پر پاکستان کے عوام، ان کے حکمرانوں سے دردمندانہ اپیل ہے کہ اپنے نجی اور فروعی معاملات میں الجھنے کے بجائے مصیبت میں گھری اس محکوم، مظلوم اور نہتی قوم کی مدد کے لیے آگے آئیں۔ آپ اس مسئلے کے اہم اور بنیادی فریق ہیں۔ اگر آج آپ غیر سنجیدگی کا شکار ہوکر ذاتی مصلحتوں کے گرداب میں پھنس گئے، تو نہ تاریخ آپ کو معاف کرے گی اور نہ آپ کی آنے والی نسلیں محفوظ رہیں گی۔ اس لیے پورے عزم اور ہمت کے ساتھ دشمن کی فریب کاریوں اور مکاریوں کا آپ نے ہرسطح پر منہ توڑ جواب دینا ہے کہ اسی میں پوری ملت کی بقا اور کامرانی ہے۔
ہمیں اپنی اپنی سطح پر اس تحریک ِ مزاحمت کا حصہ بن کر اس کی رفتار کو مزید تیز تر کرنا اور اس کے ساتھ دوڑنا ہوگا۔ اگر دوڑنے کی سکت نہیں ، تو چلنا ہوگا، اور اگر چلنے کی بھی سکت نہیں تو رینگنا ہوگا ، لیکن کاروا ِن مزاحمت میں شامل ہوکر اپنے حصے کی ذمہ داری ہرصورت میں نبھانی ہوگی۔یہی واحد راستہ ہے عزت کا،آزادی کا، غیرت و حمیت کا۔ جب پوری قوم پورے عزم، ولولے اور نظم وضبط کے ساتھ اپنے جائز بنیادی حقوق کے لیے اْٹھ کھڑی ہوتی ہے، تو دنیا کی کوئی طاقت اس کو زیر کرنے میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی۔ بھارتی حکمرانوں کو جان لینا چاہیے کہ وہ اگر10 لاکھ کے بجا ئے اپنی پوری فوج کو یہاں لاکر ڈال دیں گے،تب بھی یہاں کے عوام اپنے بنیادی شہری حقوق سے ہرگز دستبردار نہیں ہونگے۔ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو!‘‘