ٹی ٹاک …طلعت عباس خان ایڈووکیٹ
takhan_column@hotmail.com
اک تبسم ہزار شکووں کا
کتنا پیارا جواب ہوتا ہے
بابا کرمو نے کہا مزاح کے لیے گالیاں یا جگتیں ضروری نہیں بلکہ اچھے انداز میں بھی مذاق کیا جا سکتا ہے ؟ لکھنوی انداز میں ایک گپ شپ حاضر خدمت ہے۔ داماد کو دسترخوان پر انڈوں کا سالن پیش کیا گیا توعرض کیا !جناب ان انڈوں کے والدین سے ملنے کا اشتیاق تھا ارشاد ہوا کہ برخوردار ، یہ بیچارے یتیم ہیں انھی کے سر پر دستِ شفقت رکھ دیجئے۔ دوسرے روز داماد گھر پر اکیلا تھا اور گھر والے سب اپنے اپنے کاموں پر گھر سے باہرجا چکے تھے۔ صحن میں مرغ اور مرغی گھوم پھر رہے تھے۔ اس نے مرغ کو پکڑا اور اس کی کھال اتار کر کمرے میں لٹکا دی۔ گھر میں جب سسرال والے واپس آئے تو مرغی تھی مگر مرغ غالب تھا۔ داماد سے پوچھا مرغ کو تو تم نے نہیں دیکھا کہا دن کو ادھر ادھر گھوم رہا تھا ابھی تھوڑی ہی دیر پہلے وردی اتار کر ہانڈی کے گرم پانی میں نہا رہا تھا۔ چلو اچھا ہوا ہے آپ آ گئے۔ اب آپ اس میں نمک مرچ اور گھی ڈال دیں تانکہ اچھی طرح نہا سکے۔ اب اپ چپاتیاں بنا لیں ان سے اس کو خشک کر لوں گا۔ ہاں رات کا کھانا نہیں کھاں گا۔ اگر اجازت دیں تو اپ کی گھوڑی پر میں واپس چلا جاں۔ کہا ٹھیک ہے مگر گھوڑی کو واپس کون چھوڑ کر جائے گا۔ کہا جانور بڑے سمجھدار ہوتے ہیں گھر پر یہ خود پہنچ جاتے ہیں۔ گھر والے مرغ کی وردی کو دیکھ کر کہتے جائیں کہ معلوم نہیں اسے کس نے سردی میں نہانے کا مشورہ دیا تھا داماد نے کہا اگر کل مجھے انڈوں کے والدین سے ملا دیتے تو میں مرغے کو سردی میں نہانے سے روک لیتا۔ سسر نے کہا بیٹا چلو میں تمہیں چھوڑ آتا ہوں۔ پھر گھوڑے پر سوار ہو کر سسر داماد کو چھوڑ نے گھر سے نکل پڑا۔ سسر نے داماد سے پوچھا راستے میں خچر کی یادگار آتی ہے۔ کیا وہ تم نے دیکھی ہے۔ داماد نے کہا دیکھی ہے مگر نہیں معلوم خچر کی یاد گار کیوں اور کس نے بنائی۔ پھر سسر نے داماد کو بتایا قیام پاکستان سے پہلے فوج میں خچر بٹالین ہوا کرتی تھی۔ فوج میں اسلحہ اور کھانے پینے کا راشن انہیں خچروں پر لاد کر ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتے تھے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب خچروں سے ٹرانسپورٹ کا کام لیا جاتا تھا۔ ان دنوں یہ خچر جس کی یہ یادگار بنائی گئی ہے یہ بہت مشہور خچر تھا۔ بڑا محنتی تھا۔ بغیر کھا بیئے کے یہ کئی کئی میل چلتا رہتا تھا۔ اگر دشمن کے ہاتھ لگ جاتا تو اسے مار بھی دیتا تھا۔ اس میں ایک ہی بری عادت تھی کہ یہ دو لتیا بہت مارا کرتا تھا۔ اس کی اس عادت کی وجہ سے ان کے اپنے تین چار جوان بھی اس کے ہاتھوں مارے جا چکے تھے۔اس کی اس بری عادت کی وجہ سے اس کی بھی موت واقع ہوئی تھی۔داماد نے پوچھا وہ کیسے۔کہا ایک روز بارود کے تھیلے پر بھی اس نے عادت سے مجبور ہو کر دو لتیا مار دیں پھر کیا تھا بارود پھٹ گیا اور یہ بھی مر گیا۔ اس کی خدمات کے صلے میں اسی جگہ پر اس کی یہ یاد گار گوروں نے تعمیر کر رکھی ہے۔ اس خچر کو اج بھی لوگ یاد کرتے ہیں۔ باتوں باتوں میں سسر کے ساتھ گھر پہنچ گیا۔ گھوڑے سے اتر کر سسر کو خدا حافظ کہا تو اس نے گھوڑے کے پیچھے کھڑے ہو کر گھوڑے کو تھپکی مار دی جس پر گھوڑے نے اسے زور دار دو لتی ماری اور یہ اچھل کر گھر کے اندر جا گرا۔ سسر کو انڈے کھلانا مہنگے بڑا گئے اور داماد کو سسر کے ساتھ گھوڑے کی سواری کرنا مہنگا پڑ گیا۔ اگر سکھوں کی بات نہ کی جائے تو کالم پڑھنے کا مزہ نہیں ائے گا۔ لہزا ایک واقع سردار کا پیش کرتا ہوں، ایک دفعہ لندن میں ایک سردار جی ایک دکان میں گئے اور پوچھا ؟ سرسوں دا تیل ہے ؟ دکان دار بولا ، کیا آپ سکھ ھو ؟ سردار کو اس کے سوال میں نسل پرستی کی بو آئی اور سردار جی نے جواب میں کہا، ہاں میں سردار ہوں مگر کیا میں کچھ پوچھ سکتا ہوں ؟ اگر میں زیتون کا تیل مانگتا تو کیا تم پوچھتے کہ میں اٹلی کا ہوں ؟ اگر میں براڈ وسٹ مانگتا تو کیا تم مجھے جرمن کہتے ؟ اگر میں کوشر ہاٹ ڈاگ مانگتا تو کیا آپ مجھے یہودی کہتے ؟ اگر میں حلال گوشت مانگتا تو کیا آپ مجھ سے پوچھتے کہ میں مسلمان ہوں ؟ دکان دار بولا نہیں .. شاید میں یہ سب نہ پوچھتا ... سردار غصے سے بولا پھر مجھ سے کیوں یہ پوچھا ؟ آخر یہ نسل پرستی اور سرداروں کے ساتھ ہی کیوں ... کیوں جب میں نے سرسوں کا تیل مانگا تو تم نے پوچھا کہ کیا تم سردار ہو ؟؛دکان دار نے سنجیدہ لہجے میں کہا سردار صاحب کیوں کہ یہ وائن شاپ ہے یہاں شراب ملتی ہے کسی قسم کا تیل نہیں۔ یہ سن کر سردار جی سخت شرمندہ ہو ئے اور دوکاندار سے معزرت کی اور ایک کریٹ بئر کا خریدہ اور گھر کو چل دئے۔ اگر ہماری قلمی کاوش پڑھ کر بھی آپ کے چہرے پہ مسکراہٹ نہیں آئی اور بارہ بجے ہوئے ہیں تو سمجھیں آپ بھی کسی غلط شاپ پر کھڑے ہیں تیل پوچھ رہے ہیں!!