وطن عزیز میں ہر گزرتے دن کیساتھ بے چینی اور مایوسی میں اضافہ ہو رہاہے۔آئینی و سیاسی بحران گہرا ہو رہا ہے۔تاہم ٹائی ٹینک جہاز کا کیپٹن اور عملہ یہ احساس کرنے سے قاصر ہے کہ جہاز آئس برگ سے ٹکرانے کے بعد ڈوب رہاہے۔ جہاز کے مسافر لائف بوٹ سے محروم ہونے کی بنا پر چیخ و پکار کر رہے ہیں تاہم انکی صدا کیپٹن کے کانوں سے ٹکرا کر واپس آجاتی ہے۔غربت ، افلاس،بھوک،کرپشن، سماجی ناہمواری اور نا انصافی کی دہائی ہے تاہم کیپٹن ماننے سے انکاری ہے۔ اس گھمبیر صورتحال میں ٹائی ٹینک منزل مقصود پر کیسے پہنچے گا؟
معیشت کاپہیہ جام ہے۔افراط زر خوفناک حد تک بڑھ گیا ہے جو عوام کی قوت خرید نگل چکا ہے۔ طالب علموں اور نوجوانوں کو وطن عزیز میں کوئی مستقبل نظر نہیں آرہا .یہ بات باعث تشویش ہے کہ ہمارے نوجوان امریکہ،برطانیہ اور یورپ پہنچنے کے خواب آنکھوں میں سجا۔ کشتیوں میں سوار ہو کر سمندر کی لہروں میں گم ہو رہے ہیں۔ کہیں انسانی سمگلروں کے ہاتھوں گولیوں کا نشانہ بن رہے ہیں ۔
دوسری طرف حکمران طبقہ ، مسائل کے حل میں مکمل طور پر ناکام نظر آتاہے۔قومی سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہیں تاہم سیاستدانوں کی اکثریت ذاتی مفادات میں سرگرداں نظر آتی ہے۔ ایسے میں ملکی مسائل کا حل کیسے ممکن ہے؟قومی سلامتی اور خود مختاری کو کیسے یقینی بنایا جائے ؟کیا اب بھی وہ وقت نہیں آن پہنچا جب کلیدی عہدوں پر فائز محب وطن لوگ ذاتی مفادات کو قربان کرکے پاکستان کے ٹائی ٹینک کو ڈوبنیسے بچانے کیل۔ آگے بڑھیں اور عوامی مسائل کے حل کیل۔ قومی مفاہمت کا راستہ اختیار کریں جو حاکمیت کے نئے نظام میں ڈھونڈا جاسکتاہے۔ قومی سلامتی کی خاطر نئے نظام کی طرف بڑھنے کا یہ بہترین وقت ہے کیونکہ عالمی سیاست بھی کروٹ لے رہی ہے۔ عالمی سیاست امریکہ اور یورپ سے ایشیا کی طرف منتقل ہورہی ہے جس میں آئندہ ماہ و سال میں عالمی سیاست کا مرکزو محور چین ہوگا۔ مغرب سے مشرق کی جانب سیاسی شفٹ کا احساس کرتے ہوئے اگر ہم نے خود کو تبدیل نہ کیا تو خدانخواستہ وطن عزیز کسی سانحہ سے دوچار ہو سکتا ہے۔
موجودہ حاکمیت کا نظام عوام کے مسائل حل کرنے میں مکمل ناکام ہے۔قیام پاکستان کے وقت نوزائیدہ ریاست کی آبادی تقریبا سات کروڑ تھی جو 2025ء میں بڑھکر اب تقریبا 25 کروڑ ہوچکی ہے۔ گورننس کا موجودہ نظام جو پاکستان میں رائج ہے اسکی ابتدا 1803ء سے 1857ء کے درمیان ترتیب پانا شروع ہوئی تھی تاہم موجودہ پاکستان کے علاقوں میں اس نظام کی آزادانہ شکل اس وقت اختیار ہوئی جب 1901ء میں پنجاب اور صوبہ سرحد (پختونخواہ) کو شمالی ہندوستان میں۔ یوپی (دہلی، آگرہ اور اودھ) سے علیحدہ کرکے صوبائی اور انتظامی اکائیوں کی شکل دی گئی تھی۔موجودہ پاکستان کے علاقوں اور پوری دنیا میں بہت تبدیلیاں آچکی ہیں۔ بیسویں صدی کے دوسرے نصف کے بعد دنیا بھر میں نہ صرف امریکہ،یورپ اور آسٹریلیا جیسے ترقی یافتہ ملکوں بلکہ ترقی پذیر ملکوں میں بھی جہاں آبادی کے بے تحاشہ بڑھ جانے کے باعث شدید مشکلات اور مسائل درپیش ہیں وہاں انتظامی اختیارات اور مالی وسائل کی درجہ بدرجہ صوبائی،ضلعی،اور شہری حکومتوں اور بلدیاتی اداروں تک منتقلی کے اصول‘ طریقہ کار اور شہری و دیہی علاقوں کے انتظامی معاملات کے نئے اور بہتر گورننس ماڈل بنا کر کافی عرصے سے استعمال کیئے جارہے ہیں جن کے نتیجے میں دیہی اور شہری زندگی کی بہتری اور عام لوگوں کی سہولتوں کے حصول میں حیرت ناک حد تک مثبت نتائج ایک حقیقت بن چکے ہیں۔
ترقی یافتہ ملکوں کی طرح ہمارے حاکمیت کے نظام میں بھی جدید تقاضوں کیمطابق بہتری کیلئے بنیادی تبدیلیاں درکار ہیں۔عوامی مسائل کے حل کے لیئے حاکمیت کے نظام اور ریاستی انتظام میں عام لوگوں کی وسیع تر شرکت ضروری ہے تاکہ مرکز سے صوبوں اور صوبوں سے ضلعوں اور شہروں تک حاکمیت اور انتظامی اختیارات منتقل کیے جاسکیں۔ اس وقت وطن عزیز میں ریاستی انتظام دو سطحوں مرکز اور صوبوں میں طاقتور حکومتیں قائم کر کے چلایا جا رہا ہے جبکہ مقامی سطح پر میونسپل کارپوریشن اور دیہی علاقوں میں یونین کونسل یا تو معطل ہیں یا برا۔ نام وجود رکھتی ہیں جبکہ دنیا کے تمام ترقی یافتہ اور مہذب معاشروں میں اب ریاستی انتظام اور حاکمیت کے نظام میں حکومت اور اختیارات کو شہریوں سے قریب تر بنانے کیلئے اختیارات کو مقامی سطح پر لایا جاتا ہے تاکہ عوام اپنی روزمرہ زندگی کے فیصلے اور انتظامات خود کر سکیں۔ آج تمام ترقی یافتہ ملکوں میں عوامی مسائل کے حل کیلئے سیلف گورنمنٹ کا سسٹم رائج ہے جو عوامی مسائل کے شفاف حل کی بنیادی پالیسی مہیا کرتے ہیں۔جن پر حکومتیں کام کرتی ہیں۔کینیڈا میں کم ازکم چالیس محکمے لوکل گورنمنٹ کے پاس ہیں۔جن میں کوئی ممبر پارلیمنٹ مداخلت نہیں کر سکتا!سارے مسائل اختیارات کی مرکزیت کی وجہ سے ہوتے ہیں جسکے باعث ہمارے ہاں وزیراعظم خود کو بادشاہ سمجھ لیتاہے جبکہ ترقی یافتہ ملکوں میں حکومتیں چیکس اینڈ بیلنس کی بنیاد پر چلتی ہیں ۔گویا پاکستان کو محفوظ بنانے کیل۔ لوٹ کھسوٹ کے نظام کو چیکس اینڈ بیلنس کے نظام سے بدلنے کی ضرورت ہے۔ ارکان اسمبلی کا اپنے حلقوں میں ترقیاتی کاموں پر عملدرامد کے کام سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیئے۔ یہ کام متعلقہ مقامی حکومت کے انتظامی ڈھانچے کے دائرہ کار میں انجام دئیے جائیں۔ارکان اسمبلی کو انکی صوابدید پر ترقیاتی فنڈز کے نام سے کوئی رقم سرکاری رشوت کے طور پر ہرگز نہیں ملنی چاہئے۔ آئین میں ایسے طریق کار کا اضافہ کرنے کی ضرورت ہے کہ اگر کسی انتخابی حلقے کے شہری اکثریت کیساتھ محسوس کریں کہ انکا نمائیندہ قابل اطمینان کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر رہا تو وہ اکثریتی ووٹ سے اس نمائیندے کو اسمبلی کی رکنیت سے محروم کرکے واپس بلاسکیں۔الغرض ہمیں پاکستان کو اندرونی و بیرونی خطرات سے محفوظ رکھنے اور عوامی مسائل کے حل کیل۔ قومی مفاہمت کی ضرورت ہے۔اگر ہم نے سمجھداری سے کام لیتے ہو۔ سیاسی تضادات اور عوامی مسائل کے حل کی کوئی سبیل نہ نکالی۔ ازخود بہتر نظام حکومت تشکیل نہ دیا تو خدانخواستہ حالات قابو سے باہر ہوسکتے ہیں کیونکہ سائینس کا اصول ہے کہ تضاد نے اپنے حل کی طرف بڑھنا ہے۔ یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم تضاد کو خوش اسلوبی سے طے کر لیں بصورت دیگر تضاد کسی خوفناک المیہ کو جنم دے سکتاہے۔