پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں بہتری کے امکانات 


بے نقاب      اورنگ زیب اعوان 

laghari768@gmail.com 

دنیا میں کوئی کسی کا مستقل دوست یا دشمن نہیں ہوتا. اپنے اپنے مفادات کو پیش نظر رکھ کر دوستی اور دشمنی کا تعین کیا جاتا ہے.. امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کبھی ایک سے نہیں رہے. ان میں کبھی گرمجوشی تو کبھی سرد مہری پائی جاتی رہی ہے. امریکہ جب بھی مشکل میں ہوتا ہے. اسے پاکستان کی ضرورت اور اہمیت کا احساس ہو جاتا ہے. اور وہ دوستی کا ہاتھ پاکستان کی طرف بڑھا دیتا ہے. پاکستان کے معاشی حالات اور جفرافیائی صورتحال نے ہمیشہ اس بڑھے ہوئے ہاتھ کو تھما ہے. امریکہ کی ظالمانہ  اور اسلام دشمن پالیسیوں کی وجہ سے امت مسلمہ اس سے نالاں ہے. کچھ جذباتی نوجوان اس بربریٹ کے خلاف مسلح جدوجہد کرتے ہیں. جہنیں عالم اسلام مجاہدین اور کفار دہشت گرد قرار دیتے ہیں. مسئلہ کشمیر، مسئلہ فلسطین کے سلسلہ میں امریکہ کی دوغلی اور منافقانہ پالیسی دنیا بھر کے سامنے عیاں ہے. انسانی حقوق کے علمبردار کا دعویٰ دار خود حقوق کی پامالی کا حصہ دار بنا ہوا ہے. مقبوضہ کشمیر کی عوام 77 سال سے حق خود ارادیت کے لیے لڑ رہی ہے. بھارت جو کہ دنیا بھر میں انسانی حقوق کی پامالی میں منفرد پہچان رکھتا ہے. اس کو امریکہ بہادر کی آشیر باد حاصل ہے. اسی طرح سے فلسطین کی نہتی عوام پر قیامت صغریٰ برپا کرنے میں بھی امریکہ کا ہاتھ ہے. امریکہ کی منافقانہ پالیسی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں. روس نے جب افغانستان پر قبضہ کی غرض سے حملہ کیا. تو امریکہ نے اس کو اپنے لیے خطرہ محسوس کرتے ہوئے. پاکستان کی مدد سے افغان مجاہدین کو اسلحہ اور ڈالر دیئے. تاکہ وہ سویت یونین کے خلاف لڑ سکے. اس جنگ کا مرکز پاکستان کی سر زمین بنی رہی. افغان مجاہدین پاکستان میں رہ کر تربیت حاصل کرتے. ان کو طالبان کے نام سے پکارا جاتا تھا. اس وقت یہ طالبان امریکہ کی آنکھ کا تارا تھے. وہ ان کو سر آنکھوں پر بیٹھتا تھا. پاکستان کی مسلح افواج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں نے افغانستان کی سر زمین کو سابق سویت یونین کے لیے قبرستان بنا دیا. 9 سال جنگ میں پھنسے رہنے کے بعد سوویت یونین نے اپنی افادیت اسی میں سمجھی. کہ اس دلدل سے جتنی جلدی ہو سکے. نکل جانا چاہیے. کیونکہ اس دوران سویت یونین کا اپنا وجود خود پارہ پارہ ہو رہا تھا. اس کا شیرازہ بکھرتا جا رہا تھا. جو سمٹ کر موجودہ روس تک محدود رہ گیا. اسے جغرافیائی اور معاشی لحاظ سے شدید دھچکا لگا. امریکہ نے یہ سب کچھ پاکستان کی مدد سے کیا. اپنا مطلب نکلتے ہی امریکہ نے پاکستان سے آنکھیں پھیر لیں. وہ طالبان جو افغانستان کی آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے. افغانستان کی آزادی کے بعد اقتدار کی لالچ میں آپس میں دست و گریبان ہو گئے. ان کے مختلف گروپس بن گئے. جس کے نتیجہ میں طویل عرصہ تک افغانستان میں جونریزی کا کھیل کھیلا جاتا رہا. جس کے اثرات پاکستان کی معیشت پر پڑتے رہے. کیونکہ افغانستان سے لوگ نقل مکانی کرکے پاکستان میں آباد ہوتے رہے. ان تارکین وطن کی میزبانی کے نتیجہ میں پاکستان کی معیشت پر شدید دباؤ پڑا. دوسری طرف پاکستان میں دہشت گردی، اور منشیات کے ناسور نے بھی اپنی جڑیں جمانا شروع کر دیں. اس خطہ میں امریکہ کی غلط پالیسیوں کا خمیازہ ہمیشہ پاکستان کو بھگتنا پڑا. اب بھی امریکہ نے افغانستان سے انخلاء￿  میں پاکستان کو اعتماد میں لیے بنا اپنی افواج افغانستان سے عجلت میں نکال لیں. اور نیٹو ممالک کا جدید ترین اسلحہ وہی چھوڑ گیا. جو افغانستان میں موجود دہشت گرد تنظیموں کے ہاتھ لگ گیا. داعش ان مسلح تنظیموں میں سر فہرست ہے. اس کی بیشتر کاروائیاں پاکستان کے خلاف ہیں. پاکستان میں آئے روز بم دھماکے ہوتے ہیں. جن میں معصوم شہری اپنی قمیتی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں. سیکیورٹی فورسز پر حملے کیے جاتے ہیں. ان دہشت گردوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے پاکستان کو کیثر رقم اپنے دفاع پر خرچ کرنی پڑتی ہے. جس کے نتیجہ میں ہماری ڈوبتی ہوئی معیشت پر مزید دباؤ پڑتا ہے. مجبورا نہ چاہتے ہوئے بھی حکومت وقت کو عوام پر ٹیکس لگانے پڑتے ہیں. جس سے عام آدمی کی شرح آمدن میں کمی واقع ہوتی ہے. تو دوسری طرف ملک میں افراط زر میں اضافہ ہوتا ہے. اس صورتحال میں حکومت وقت کے لیے حکومت کرنا آسان کام نہیں. پاکستان کو ہمیشہ امریکہ کی دوستی کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑی ہے. مگر اس نے کسی مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ نہیں دیا. ساتھ دینا تو درکنار اس نے کبھی حال تک نہیں پوچھا. پاک بھارت جنگوں میں اس کا کردار انتہائی افسوس کن رہا. جب ہم نے اپنے دفاع کے لیے اٹیمی دھماکہ کیا. تو ہم پر پابندیاں عائد کر دی گء. اور ہمارے ازلی دشمن بھارت پرانعامات کی بارش کی گئی. پاکستان میں جمہوری حکومتوں کی برطرفی میں امریکہ کی سازشیں کارفرما رہی ہیں. سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو امت مسلمہ کو متحد کرنے کی سزا دی گئی. اور انہیں تخت دار پر لٹکا دیا گیا. اسی طرح سے سابق صدر ضیاء￿  الحق کو اپنا مطلب نکل جانے کے بعد طیارہ حادثہ میں شہید کروا دیا گیا. سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کو تین بار حکومت سے باہر کیا گیا. وجہ انہوں نے امریکہ کی مرضی کے خلاف جا کر اٹیمی دھماکے کیے تھے. سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کو جلسہ گاہ سے واپسی پر شہید کروا دیا گیا. یہ وہ چند واقعات ہیں. جو پاکستان میں امریکہ کی سیاسی دخل اندازی کو عیاں کرتے ہیں. اب بھی ہمارے کچھ نادان دوست ٹرمپ سے امیدیں لگائے بیٹھے تھے. کہ ٹرمپ اقتدار میں آئے گا. تو ہمیں بھی اقتدار کے ایوانوں میں واپس لائے گا. وہ شاید بھول چکے تھے. کہ اس دنیا میں طاقت کا نظام چلتا ہے. ٹرمپ کیونکر کسی ایک شخص کی محبت میں گرویدہ ہو کر پورے سسٹم سے دشمنی مول لے. اسے تو اہنے مفادات عزیز ہیں. اس نے امریکی عوام کی نظر میں خود کو پارسا ثابت کرنا ہے. اس لیے یہ پچھلی حکومت کی ہر پالیسی کو غلط قرار دے رہا ہے. اور پاکستان کے اس موقف کی بھی تائید کر رہا ہے. کہ افغانستان سے امریکی افواج کا انخلاء￿  غلط اور عجلت میں کیا گیا فیصلہ تھا. حالیہ دنوں پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسی کی کامیاب کاروائی کے دوران داعش کا ایک اہم کمانڈر شریف اللہ عرف جعفر گرفتار ہوا. جو امریکہ کو مطلوب افراد کی لسٹ میں شامل ہے . اس نے کابل ائیر پورٹ پر امریکی افواج پر حملہ کیا تھا. جس میں متعدد امریکی فوجی ہلاک ہو گئے تھے. اسی طرح یہ درجن سے زائد واقعات میں ملوث ہیں. جن میں امریکی افواج اور امریکی شہریوں کو نشانہ بنایا گیا. اس کی گرفتاری اور امریکہ کو اس کی حوالگی پر ٹرمپ حکومت  نے پاکستانی حکومت کا شکریہ ادا کیا ہے. اور اس کو ایک احسن اقدام قرار دیا ہے. جس کے نتیجہ میں پاکستان اور امریکہ کے تعلقات جو عرصہ دراز سے سرد مہری کا شکار تھے. ایک بار پھر سے بہتری کی جانب گامزن ہوئے ہیں. ٹرمپ حکومت شہباز شریف کی حکومت کے ساتھ مل کر چلنے پر آمادہ دکھائی دیتی ہے. کیونکہ اس وقت جب امریکہ خود شدید مالی مشکلات سے دوچار ہے. دنیا بھر میں اس کے مفادات کو شدید نقصان کا اندیشہ ہے. اسی صورتحال میں یہ خود کو محدود رکھنا چاہتا ہے. اور دوسروں کے کندھے پر بندوق رکھ کر چلانا چاہتا ہے. یوکرائن اور روس کی لڑائی میں یہ اربوں ڈالر یوکرائن کو دے چکا ہے. حالیہ دنوں یوکرینی صدر سے ٹرمپ کی ملاقات جو سوشل میڈیا کی زینت بنی ہوئی ہے. جس میں ٹرمپ یوکرینی صدر کو کہہ رہا ہے. کہ یوکرین کی تقسیم ہی مسئلہ کا واحد حل ہے. جس پر وہ احتجاج کرتے ہیں. داعش بھی امریکہ کے لیے درد سر بنی ہوئی ہے. یہ دنیا بھر میں امریکی تنصیبات پر حملے کر رہی ہے. یہ اس صورتحال میں داعش سے پاکستان کو لڑوانا چاہتا ہے. پاکستان اور امریکہ کے اچھے تعلقات پر کسی کو اعتراض نہیں. مگر ماضی کو دیکھتے ہوئے. پاکستان کو محتاط رہنے کی ضرورت ہے. یہ اس بار بھی پاکستان کو داعش سے لڑوا کر اپنا مقصد پورا کرکے چلا جائے گا. پاکستان کے حصہ میں دہشت گردی، خودکش دھماکوں کے سوا کچھ نہیں آئے گا. پاکستان کو اپنی سمت کا تعین کرنا ہوگا. اسے مفت میں امت مسلمہ کا سربراہ بننے کی بجائے. اپنی خود مختاری، مستحکم معیشت پر زور دینا چاہیے. دوسروں کی لڑائیاں کب تک ہم لڑتے رہے گے. ہمارے سیاسی رہنما کو بھی ہوش کے ناخن لینے چاہیے. جو اپنے سیاسی مستقبل کے لیے امریکہ کی خوشنودی حاصل کرنے کی جدوجہد میں لگے رہتے ہیں. امریکہ کا دوستی اور دشمنی کا ایک ہی بنیادی اصول ہے. وہ ہے اس کا اپنا ذاتی مفاد. 
شاید کبھی خلوص کو منزل نہ مل سکے 
وابستہ ہے مفاد ہر ایک دوستی کے ساتھ

ای پیپر دی نیشن