شہر اقتدار میں نئے اسپتالوں کی ضرورت  

ٹی ٹاک …طلعت عباس خان ایڈووکیٹ 
takhan_column@hotmail.com 

اسلام آباد کے سب سے پرانے اور بڑے سرکاری اسپتال( پمز ) کا شمار کسی زمانے میں بہترین اسپتالوں میں ہوتا تھا جہاں مریض کو دور دراز علاقے سے لانے کیلئے ہیلی پیڈ کی سہولت میسر تھی مگر اب ایسا نہیں، اسپتال میں مریضوں کی تعداد کئی گنا زیادہ ہے۔ مریض اب راہداریوں میں ایسے پڑے نظر اتے ہیں جیسے اتوار بازار میں سبزیاں اور پھل… اسلام آباد میں پہلے ایچ ایٹ قبرستاں کی جگہ بھر چکی ہے اب تو ایچ الیون قبرستان  میں بھی بہت کم جگہ ہے۔ آبادی میں بہت اضافہ ہوا ہے مگر ان حالات میں سرکاری اسپتال وہی کھڑے ہیں۔ جس سے سہولیات کا فقدان ہے۔ اسی ہفتے میرے عزیز کو برین ایمرج ہونے پر پمز اسپتال لایا گیا تھا۔لہذا مریض کی تیمارداری کرنے گیا۔ اس اسپتال کی ایمرجنسی اور او پی ڈی مچھلی منڈی کا منظر پیش کر رہی تھی۔ یوں لگا جیسے یہ مریضوں کی منڈی ہے جسے اپ دیکھ کر اس ذات کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتے ہیں کہ میں تندرست ہوں۔ کار پارکنگ میں گیا گیٹ پر ہی پرچی ہاتھ میں تھما دی۔ کار کواندر لے جانا چاہا تو گاڑی پر زور دار ہاتھ مارکر کہا نکالیں چالیس روپے پھر اندر جائیں کہا یہ رقم آپ واپسی پر بھی لے سکتے تھے تمہارا یوں روکنے کا انداز اچھا نہیں لگا۔ کہا چالیس روپے دیں مجھے لیکچر نہ دیں مریض دیکھنے آیا تھا۔لہذا در گزر کیا اب جب ایمرجنسی پر پہنچا تو یوں لگا جیسے کسی علاقے میں دہشت گردی کا واقع پیش آ چکا ہے اور سارے اپنے اپنے مریضوں کو اسٹیچر پر لٹاکر ایمرجنسی روم میں داخل ہو رہے ہیں اور کچھ مریضوں کو باہر لے جایا جا رہا تھا۔یاد رہے۔ پمز ایمرجنسی میں داخل و خارجی دروازہ ایک ہی ہے لہزا اندر جاتے وقت رش کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اندر داخل ہوا تو مریضوں کی چیخ و پکار تھی۔ کہتے ہیں تندرستی ہزار نعمت ہے۔یہاں کے حالات دیکھ کر کہہ سکتے تندرستی انمول  نعمت ہے۔کچھ مریض ڈاکٹر کا انتظار کر رہے تھے کچھ یہاں سے کسی دوسرے اسپتال کا رخ کرتے دکھائی دیئے اور کچھ لا علاج ہو کر گھر جاتے ہوئے کھائی دیئے۔ ایمرجنسی  ہال میں داخل ہوا اپنے عزیز سے ملا بیڈ پر تھا۔ اس ہال میں چھ سات مریض پہلے سے موجود تھے۔ میرا یہ مریض انیس گریڈ کا ریٹائر افسر تھا۔لیکن یہاں ایک ہی صف میں مریض پڑے تھے۔ نہ کوئی گریڈ تھا نہ گریڈ والا۔ سب علاج کیلیے تھے۔میرے مریض کو اتوار کی صبح سات بجے برین ایمرج کا اٹیک ہوا تھا بروقت اسپتال پہنچنے پر ڈاکٹر نے علاج کیا اور خطرہ ٹل گیا لیکن تھوڑی تھوڑی دیر پر پرچی ملتی رہی کہ اب یہ میڈیسن لے کر آئیں۔ روم لینے کی کوشش کی تو بتایا گیا اج اتوار ہے کل مل جائے گا۔ کر ٹیسی سینٹر پہنچے ملک صاحب نے ویلکم کیا کہا فائل لے آئیں۔ جب کہ فائل سارا دن کبھی ایک ڈاکٹر کے پاس کبھی ٹیسٹ لیباٹری کے ہاتھوں میں ہوتی۔ پھر بتایا گیا کہ آج سٹاف چلا گیا ہے کل دیکھیں گے ہو سکتا ہے کل ڈسچارج کر دیں۔ پھر شفٹ بدلتی ہے تو بتایا جاتا ہے کہ مریض کو اج رات مزید رکھیں گے۔ کہاں رکھیں گے جہاں چھ سات مریض پہلے سے موجود ہیں۔ ان حالات میں کہا گیا کہ جس ڈاکٹر  کے مریض ہیں وہ لکھ کر دیں کہ انہیں روم دیا جائے تو پھر روم میں شفٹ کرنا ممکن ہے ورنہ نہیں۔ ڈاکٹر سے رابطہ کیا تو کہا وارڈ میں کمرہ دے سکتا ہوں۔ یہان ہم مریض کا خیال بہتر کر سکیں گے۔لہذا انکی بات مان لی اور وارڈ میں شفٹ ہو گئے۔ مگر رات ساری میں ایک بار مریض کا بلڈ پریشر لیا گیا۔ سی ٹی سکین کرانے کیلیے سٹاف موجود نہیں تھا۔ اپنی مدد اپ کے تحت سکین اور ٹیسٹ کرائے گئے۔ یعنی مریض کے ساتھ مین پاور کا ہونا لازم ہے۔ یہاں ڈاکٹروں اور سٹاف کی کمی کا سامنا تھا۔ڈاکٹروں سے کام زیادہ لیا جاتا ہے اور تنخواہیں عام سرکاری ملازم جیسی انہیں دی جاتی ہیں۔ اگر ان ڈاکٹروں کی تنخواہیں ہائی کورٹ کے ججز کی تنخواہیں کے برابر  کر دی جاتی تو بہتر نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ لیکن نہ مریضوں کی اور نہ ہی ان کی بہتری کا کوئی سوچتا ہی نہیں یہاں کے ڈاکٹر مجبوری اور خدمت کے جزبے کی وجہ سے کام کر رہے ہوتے ہیں تو غلط نہ ہو گا۔ سہولیات کا فقدان ہے۔ مریض، ڈاکٹروں اور سٹاف کو جن مشکلات کا سامنا ہے  سرکار اس بارے سوچتے نہیں جس کی وجہ سے عام ادمی ان کا نشانہ بنتا ہے۔ یہاں ایک ایسے ہی مریض کا ذکر کرتا ہوں جس کی بیماری ایک جیسی مگر حالات مختلف تھے۔ اسی بیماری کا شکار مریض امریکہ میں تھا۔ اسے ایمرجنسی میں وہاں کے مقامی اسپتال لے جایا گیا انکا میں یہاں آنکھوں دیکھا حال پیش کرتا ہوں اس مریض کو نیویارک بروکلین میں رات کے ڈنر کے بعد علاج کے سلسلے میں دوستوں کے ساتھ قریبی  اسپتال لے کر پہنچ گئے۔ پتہ چلا کہ ان کو برین ایمرج ہوا ہے۔ وقت پر آجانے سے ان کی حالت خطرے سے باہر ہو جاتی ہے۔ انہیں نیند کا ٹیکہ لگا کر سو جانے دیا گیا انہوں نے فوری بطور مریض کو داخل کر لیا اور علاج شروع کردیا۔ دوستوں نے ہمیں پاکستان میں اطلاع کی کہ اپ کے بھائی اسپتال میں داخل ہیں کومے میں ہیں۔ یہ سن کر فیملی نے مجھے فوری نیویارک جانے کا کہا۔ رات کی فلائٹ سے نیویارک روانہ ہو گیا۔ دوبئی پہنچا تو گھر رابطہ کرنے پر بتایا گیا کہ ان سے بات ہو گئی ہے ہوش میں ہے۔ لیکن تم سفر جاری رکھو۔ دوسرے روز ائیر پورٹ پہنچا۔ ہمارے پیارے دوست رانا رمضان ڈاکٹر شاہد مجھے لینے آئے ہوئے تھے۔ مجھے اسپتال لے گئے۔ بھائی اسپتال کے ایک کمرے میں تھے جہاں ایک ایکسٹرا آرام دہ کرسی تھی مجھے بیٹھ جانے کو کہا۔ اس دوران مریض سے گپ شپ رہی۔ گھر والوں سے فون پر بات کرائی۔ سب کی جان میں جان آئی۔ ڈاکٹر جو ان پر کام کر رہے تھے انہوں نے تفصیل سے مجھے مریض کے متعلق بتایا اور یہ بھی بتایا کہ تین چار روز مزید رہنے کے بعد یہ واپس پاکستان جا سکتے ہیں۔ مجھے بتایا کہ اگر ان کے پاس کچھ وقت گزارنا پسند کرو تو اس ارام دہ کرسی پر ارام بھی آپ کرسکتے ہو۔ گپ شپ بھی کر سکتے ہو۔ پھر سٹاف نے مجھے کیف ٹیریاں  دکھایا جہاں اخبارات ٹی وی، چا? کافی مفت میسر تھی۔ رات کو قریب ہی موٹل تھا وہاں سونے چلا جاتا۔شام کو دوست آ جاتے۔ ان میں رانا رمضان ، ڈاکٹر شاہد ڈاکٹر جعفری صاحب ا جاتے ان سے روز گپ شپ ہوتی۔ علاج کرنے والا ڈاکٹر کم فرشتہ زیادہ لگا۔ ہر سوال کا جواب دیتا۔یہ یہودی ڈاکٹر تھا اور یہ اسپتال بھی یہودیوں کا ہی تھا۔ لیکن ہمیں وہاں علاج کرانے میں کوئی مشکل نہ آئی۔ بتایا کہ فیس دینے کی فکر نہ کریں ہمیں معلوم ہے اپ پاکستانی مسلم ہیں۔ ہم مریض دیکھتے ہیں اس کے مذہب نیشنلٹی کو نہیں دیکھا جاتا۔ کہا اگر چاہوں تو میں پاکستان میں  برین ایمرج ہر لیکچر دینے آسکتا ہوں۔ جب اسپتال سے ڈسچارج کیا گیا تو ڈاکٹر نے اپنا زاتی فون نمبر اور اسپتال کا نمبر ہمیں دیا۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ جب ہم پاکستان واپسی کیلیے ایئرپورٹ پہنچے تو کائنٹر والے نے بازو پر لگی پلاسٹک کی چپ دیکھ کر پوچھا کیا اپ اسپتال داخل تھے۔اسپتال کا ڈسچارج کارڈ دکھایا بتایا کہ یہ ڈاکٹر کا فون نمبر ہے۔ جس پر انہوں نے ڈاکٹر سے بات کی۔ ڈاکٹر نے کہا اسے تین چار قدم آگے اور پیچھے چلا کر دیکھیں اگر چلنے میں اسے کوئی مشکل نہ لگے تو اسے جانے دیا جائے۔ پھر ایسا ہی کیا گیا اور ہمیں جانے دیاگیا جتنے دن اسپتال رہے کسی نے نہیں کہا کہ یہ میڈیسن اور ٹیسٹ باہر سے لے کر آؤ یا اس کی قیمت پہلے دو۔ کبھی بھی ایسے نہیں ہوا۔ روز کھانے کا مینیو مریض کو دیا جاتا تھا تانکہ مریض اپنی پسند کا آڈر کھانے کا کرے اور اسے کھانے کو وہی ملتا جس کی وہ ڈیمانڈ کرتا وہ اسے کھانے پینے کو ملتا تھا۔ یعنی اسپتال نہیں ہوٹل لگا اب ہمارے اسپتال اپ کے سامنے ہیں۔  مریض نے کیا ٹھیک ہونا اس کے ساتھ انے والے ذہنی ٹینشن کا شکار ہو کر وہ بھی مریض ہو جاتے ہیں۔ فارن میں کسی مریض کو مین پاور کی ضرورت نہیں ہوتی۔جبکہ یہاں اس کے بغیر گزارہ نہیں۔ اب اپ پرائیوٹ اسپتال کی کہانی سنے تو علاج نہیں خوف آتا ہے۔ اسلام آباد کا سب سے بڑا پرائیوٹ اسپتال غریبوں کے نام پر بنا مگر علاج امیروں کا ہی کرتے ہیں۔پیسہ ہے تو علاج یہاں ہر قسم کا ممکن ہے۔ یہ اسپتال غریبوں کے نام پر بنا تھا، لیکن غریب وہاں،  باہر بھیگ مانگتے ضرور دیکھے جا سکتے ہیں۔ کسی غریب کو اس اسپتال میں علاج کرانا نصیب نہیں  جو عوامی سرکاری اسپتال ہیں وہ لگتا ہے انسانوں کے نہیں ڈنگروں حیوانوں کیلیے اسپتال ہیں۔ ایسا کیوں ہے یہ اپ جانتے ہیں۔ اس کا ایک ہی حل ہے کہ تمام بڑے سرکاری ملازمین پر پابندی لگا دی جائے کہ یہ اپنا اور فیملی کا علاج انہیں سرکاری اسپتالوں سے کرانے کے پابند ہونگے تو پھر بہتری آ سکتی ہے ورنہ نہیں۔اسلام آباد میں جتنی آبادی بڑی ہے سرکاری اسپتالوں کی تعداد نہیں بڑی۔ لہذا ضروری ہے کہ جلد از جلد دو تین مزید بڑے اسپتال یہاں بنائیں جائیں۔

ای پیپر دی نیشن