موجودہ پنجاب حکومت کا پنشنرز کی پنشن کم کرنے اور عوامی نمائندوں کی تنخواہوں میں بے تحاشہ اضافہ کرنا کمال کر دیا،

ڈاکٹر طاہر بھلر
سیاست کو عبادت کہنے والوں نے عبادت کا ریٹ بڑھا لیا،مریم سرکار نے پنجاب میں بل منظور کرلیا، اراکین اسمبلی کی تنخواہوں میں چار سو چھبیس فیصد سے لے کر اٹھ سو پچاس فیصد تک اضافہ کر کے اپنی اور اپنی کابینہ اور ارا کین کی غربت کا یہ حل تلاش کیا ہے کہ اتنے غریب اراکین جو الیکشن پر تو آسانی سے کروڑوں لگا سکتے ہیں ہر وقت پجیرو،پریڈو پر سفر کرتے نظر آتے ہیں ،انکی جائدادیں اندرون و بیرون ملک پھیلی ہوتی ہیںان امیروں کی نام نہاد غربت دور کرنے کا یہ حل تلاش کیا ہے کہ ان کی تنخواہ میں یکمشت سینکڑوں فیصداضافہ کر دیا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ سیاست کو عبادت قرارار دینے والی مریم سرکار کے نزدیک یہ اصول کار فرما ہے کہ منہ سے کچھ کہواور کرو اپنے فائدے، بھاڑ میں جائے عام آدمی اور اس کے مسائل اور اس کی غربت اور پنشنرز اور ریٹائرڈ حضرات جن کا اوڑھنا بچھونا صرف ان کی پنشن ہے اور اب وہ اس جسمانی حالت میں بھی نہیں ہیں کہ وہ اس انرجی سے کام کر سکیں جو وہ جوانی میں کیا کرتے تھے ان کو ایک حرف غلط کی طرح مٹانا ان کی پنشن میں اضافہ کی بجئے کمی کرنا ان کے مسائل میں بے حد اضافہ کر دینے کے مترادف ہے۔ یہ عبادت ہے ان سیاسی موقع پرستوں کی ان کے بس میں ہو تو وہ ہم پنشنرز کو کسی دریا میں پھینک دینے سے بھی نہ گریز کریں۔قارئین پہلی یات یہ کہ دو دسمبر کے ایک نوٹیفیکیشن کے مطابق،ریٹائر ہونے والے حضرات کے لئے اضافہ شدہ منظور شد پنشن میں اضافہ جوآج سے دس پہلے کا منظور ہوا تھا وہ بھی ختم کیا گیا ہے۔دو ہزار گیارہ،دو ہزار پندرہ، دو ہزار بائیس میں ہہونے والے تمام اضافے بیک قلم جنبش ختم کر دیے گیے ہیں کہ خزانے پر بو جھ پڑ رہا ہے۔فیملی پنشن کو بھی دس سال تک محدود کر دیا گیا ہے۔ فوجیوں کی اس مد میں مراعات میں کوئی کمی نہیں ہوئی بلکہ ان کی مراعات میں اضافہ کیا گیا ہے۔ پنجاب میں دو دسمبر دو ہزار چوبیس سے ریٹائر ہونے والے ملازمین کو پنشن کے اس نئے نوٹفیکیشن کے مطابق ادا کی جائے گی۔تا ہم سرکاری ملازمین نے اس نئے آڈر کو مسترد کر دیا ہے۔ دوسری بات یہ کہ قبل از و قت ریٹیائر منٹ لینے پر پنشن میں کٹوتی کی جا رہی ہے۔ تیسری بات یہ کہ نئے قانون کے مطابق پنشنر کو اور ان کی اہلیہ کو تا زندگی تک پنشن ملے گی۔ دونوں کی وفات کے بعد ان کے بچوں کو پننشن نہیں مل سکے گی۔ یہی ضابطہ نئے تعینات ہونے والوں اور پہلے سے کام کرنے والے سرکاری ملازمین پر پر لاگو ہو گا۔ اب پچیس سالہ سروس مکمل کرنے کے یعد ریٹائر ہونے والے ملازمین کو اکٹھی ملنے والی رقم میں کمی کر کے ان کو مایوس کیا ہے۔ یاد رہے کہ ابھی تک کی اطلاعات کے مطابق سندھ ، کے پی کے بلوچستان میں ایسا کوئی نوٹیفیکیشن تا حال جاری نہیں ہوا یہ صرف مریم بی بی کی حکومت نے نافذ کرنے کی ٹھانی ہے۔حالانکہ چاہیے تھا کہ اپنی بھاری کابینہ میں وزیروں کی تعداد کم کرتیں اور پنجاب میں شاہانہ اخراجات کم کرتیں دوروں اور ترقی کے نام پر اخراجات کم کرتیںاور بغیر مانگے اپنی سیاسی دکان چمکانے کے لئے طلبا کوگھر بیٹھے زبردستی سکالرشپ نہ بھجتیں۔ حالیہ اقدام کو آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق وفاقی حکومت کی ہدائت پر قرار دیا جا رہا ہے۔ غور سے دیکھا جائے توماضی کی حکومتوں میں کیے گئے اس اضافہ شدہ پنشن کو منسوخ کرنے کے فیصلے سے کسی بھی سرکاری آڈر کی حیثیت کو دھچکا لگا ہے جس سے ہرشخص سرکار کے کسی بھی آڈر کی حیثیت کو ہمیشہ کے لئے شک کی نظر سے دیکھا کرے گا۔ ایسے ہی حکومتوں کی ساکھ متاثرہوتی ہے کہ آج اگر ایک آڈر منسوخ ہو رہا ہے تو کل کو نہ جانے کیا کیا منسوخ ہو جائے۔ پنشنرز کا یہ ہر گز قصور نہیں، قصور تو حکومت کا ہوتا ہے کہ وہ اگر ماہانہ آمدن سے پنشن فنڈ کی کٹوتی نہیں کرتی رہی، اور نہ وہ اس حاصل شدہ آمدن سے کسی منصوبے میں اس پنشن فنڈ کو استعمال نہیں کر سکئیں جو کہ ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے۔ترقی یافتہ ممالک میں پنشن فنڈ سے ریل سٹیٹ،شاپنگ مالز، زراعت ،تجارت، سٹاک ایکسچیج،بینکو ںغیرہ میں سرمایہ کاری کی جاتی ہے۔انڈیا میں دو ہزار چارمیں پنشن فنڈ قائم کیا تھا اور اسی وجہ سے ان کا پنشن فنڈ بھی خود مختار ہے۔جعلی کاغذات پر ، گھوسٹ ملازمین، ایک سے زیادہ پنشن حاصل کرنے والوں کی حوصلہ شکنی ضروری ہے لیکن پنشن کا بوجھ صرف ان پنشنر کو قرار دینا مناسب نہیں جنہوں نے اپنی جوانی کے شب وروز بڑی ایمان داری سے اس ملک کی خدمت کرنے میں صرف کیے ہوں۔ کوسنا ہے اس ملک کی انتظامیہ کو کوسیں، عام پنشنر شہری کو اس نااہلی کی سزا نہ دیں ، اداروں کی کر پشن ٹھیک کریں ،غیر ضروری سیاسی بھرتیوں کو کم کریں، وائٹ ایلیفینٹ اداروں کو آپ آج تک بند نہیں کر سکے،پی آئی اے سے کر تمام گھوسٹ ملازمین اورشوگر مافیہ، قبضہ مافیا، آی پی پی ز سے معاہدوں پر نظر ثانی کریں۔اداروں کی کار کر دگی بہتر کریںوزارا کی تعداد کم کریں ، اپنے دوروں کو کم کریں معذرت کے ساتھ یہ کہنا پڑھ رہا ہے کہ سیاست کو عبادت کہنے والی مہارانی کو صرف پنجاب ہی نظر آیا تھا اور صرف کمزور بزرگ پنشنرز ہی نظر آئے تھے بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لئے حیف ہے ، افسوس ہے اس نے ان بزرگ پنشنرز سے اس مہنگائی کے دور میں ماضی میں ہونے والے پنشن کے اضافوں کو ختم کر کے انصاف نہیں کیا اور برق گرائی ہے تو بیچارے پنشنرز پر، کہاں گئی اصلاحات،کب کرو گی اپنے الے تللے اخراجات پر کنٹرول، اور کتنا بڑھا? گی اپنے ممبروں کی تنخوائیں اورمراعات۔ حکومت پنجاب سے پنشنرز کا یہی التماس ہے کہ اس آرڈر پر پر دوبارہ غور کیا جائے اور اس آرڈر کو فوری واپس لیا جائے یا پھر مالیاتی ایمرجنسی نافذ کر کے اپنے وزارا اور ممبروں کے اضافہ شدہ بے تحاشہ اضافہ بھی واپس لیا جائے۔پنشنرز کا کوئی سیاسی اےجنڈا نہیں ،وہ تو صرف یہ گوش گزار کرنا چاہ رہے کہ صرف ان کو کمزور سمجھ کر ان سے زیادتی نہ کی جائے اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے اس دور میں ان کی روزمرہ زندگی میں مشکلات میں اضافہ نہ کیا جاوے کہ وہ بھی خدا نخواستہ اپنے جائز مطالبات کے حصول کے لئے سڑکوں پر آنے پر مجبور ہو جائیں۔ 
 بقول شاعر جس دور میں لٹ جائے غریبوں کی کمائی اس دور کے سلطاں سے کوئی بھول ہوئی ہے

ای پیپر دی نیشن