• news
  • image

فتح مکہ ،فتح مبین

پیر فاروق بہاؤالحق شاہ  

فتح مکہ سرکار دوعالمؐ کی مدنی زندگی کا ایک اہم ترین غزوہ ہے۔عہد نبوی کے تمام غزوات کی ایک الگ اہمیت ہے۔ لیکن مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ فتح مکہ میں اسلامی شوکت کا ایسا اظہار ہوا کہ عالم عرب پر اسلام کی دھاک بیٹھ گئی۔مسلمانوں کو بیت اللہ میں داخل ہوکر طواف کا موقع ملا۔کعبۃاللہ کو بتوں سے پاک کردیا گیا اور ایک طویل عرصہ کے بعد اللہ کی وحدانیت کا علم کعبہ کی چھت پر لہرادیا گیا۔
 آٹھ ہجری  10 رمضان المبارک کو  دس ہزار صحابہ کرام ؓکا لشکر لے کر حضور اکرم ؐنے مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ کا سفر فرمایا۔مدینہ سے باہر نکل کر دو ہزار افراد اور اسلامی لشکر کے ساتھ مل گئے۔ یوں 12000 صحابہ کا لشکر جرار مدینہ سے مکہ کی طرف روانہ ہوگیا۔ لیکن اللہ کی تائید اور سرکاردوعالم ؐکی دعا کی بدولت کہ اتنی بڑی سرگرمی سے کفار بے خبر رہے۔ حضور اکرم نے  ؐپیش قدمی کرتے ہوئے مکہ مکرمہ سے محض ایک منزل کے فاصلے پر ایک مقام پر قیام فرمایا۔ آپ ؐنے سارے اسلامی لشکر کو پورے میدان میں پھیلا دیا۔ ہر صحابی کو کہا کہ اپنا الگ الگ چولہا روشن کریں۔ رات کے وقت ابوسفیان خبر گیری کے لیے مکہ سے باہر نکلا تو آگ کا اتنا بڑا الاؤ دیکھ کر پریشان ہو گیا۔ اس کو ایک خیال یہ تھا کہ شاید یہ بنوں خزاعہ کا لشکر ہو۔ لیکن ابوسفیان نے اس خیال کی تردید کی کہ انکا  لشکر اتنا عظیم نہیں ہوسکتا۔ اس دوران ابوسفیان کی ملاقات حضرت عباسؓ سے ہوئی ،جنہوںنے ابو سفیان کو آگاہ کیا کہ  بہتر یہی ہے کہ حضور اکرم ؐسے امان طلب کر لو۔ ورنہ اس عظیم لشکر کے سامنے تمہاری کوئی اوقات نہیں ہے۔ حضرت عباس ؓنے ابو سفیان کو اپنے خچر پر ساتھ بٹھایا اور سرکار دو عالم ؐکی بارگاہ میں پیش کر دیا۔ حضرت عمرؓ بن خطاب  اس کے قتل کے درپے ہوئے لیکن سرکار دو عالم ؐنے منع فرما دیا۔ ایک ایسا شخص جس نے مسلمانوں کے خلاف جنگیں لڑیں۔ جس نے اسلام کو نقصان پہچانے کی ہر ممکن کوشش کی۔جس نے نبی کریمؐکو شہید کرنے کی کوشش کی۔ جس کی بیوی ہندہ نے حضرت حمزہؓکا کلیجہ چبایا۔ ایسے متعصب اور کٹر دشمن کو سامنے پا کر معاف کرنا اللہ کے نبی کی صفت ہوسکتی ہے عام آدمی اس کو معاف کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔
 حضور کے سفر مکہ کے دوران جحفہ کے مقام پر آپؐکے چچا زاد بھائی ابو سفیان بن حارث اور پھوپھی زاد بھائی عبداللہ بن امیہ ملے۔ آپؐ نے ان کو دیکھ کر منہ پھیر لیاکیونکہ ان دونوں نے حضورؐکو ہر طرح سے ایذا پہنچائی تھی۔ لیکن فتح مکہ ہو جانے پر حضرت علیؓ نے ابوسفیان بن حارث کو حضور سے معافی مانگنے کا طریقہ سکھایا تو آپؐنے معاف فرمایا۔اس طرح حضرت عباسؓنے حضور اکرم ؐسے عرض کی یارسول اللہؐ ابو سفیان ایک جاہ پسند اور اعزاز پسند شخص ہے۔ آپ اس کو کچھ اعزاز عطا فرمائیں تاکہ یہ مطمئن ہوجائے حضور اکرمؐ نے شان کریمی کا بے مثال مظاہرہ فرماتے ہوئے اعلان فرمایا کہ جو شخص ابوسفیان کے گھر دا خل ہو گا۔ اس کو بھی امان ہوگی۔جس پر ابوسفیان از حد مسرور ہوا۔
 حضور اکرم ؐ نے لشکر اسلام کو مکہ کی طرف کوچ کا حکم ارشاد فرمایا۔ آپؐنے حضرت عباسؓ  سے فرمایا کہ ابوسفیان کو پہاڑ کی چوٹی پر کھڑا کرو۔ تاکہ سارا لشکر اس کے سامنے سے گزرے چنانچہ ایسا ہی کیا گیا ہر قبیلہ اپنے اپنے پرچم کے ساتھ گزرتا ابوسفیان حضرت عباسؓ سے دریافت کرتا یہ کونسا قبیلہ ہے حضرت عباسؓقبیلے کا نام بتاتے یہاں تک کہ آپ ؐکا دستہ مبارک گزرا۔آپ ؐکے آگے چلتے ہوئے صحابہ ترانے پڑھ رہے تھے حضرت سعد ؓکے ہاتھ میں سرکار دو عالم ؐکے لشکر کا پرچم تھا۔ابو سفیان نے یہ منظر دیکھ کر حضرت عباس ؓسے کہا تمہارے بھتیجے کے ساتھ بھلا کسی کی طاقت ہے کہ جنگ لڑے اس نے تو بڑی سلطنت جمع کرلی ہے حضرت عباس ؓنے فرمایا یہ بادشاہت نہیں بلکہ نبوت ہے۔
 اللہ کے آخری نبی ؐ آپنے  اس آبائی شہر میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہو رہے تھے۔جہاں سے آپؐکو رات کی تاریکی میں نکلنا پڑا تھا جہاں پر آپؐپر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے تھے۔ جہاں پر مکہ کی وسعتیں آپؐپر تنگ کر دی گئی تھیں۔ جہاں آپؐکو طواف کرنے سے روک دیا جاتا تھا۔جہاں آپؐ پر اوجھڑی ڈال دی جاتی تھی۔جہاں آپؐ پر پتھر برسائے جاتے تھے۔ جہاں آپؐکا مذاق اڑایا جاتا تھا۔ آج اس شہر میں بارہ ہزار کے لشکر کے ساتھ اتنا ’’انافتحنالک فتحامبینا ‘‘کی بشارت لے کر یہ عظیم کامل اور آخری نبی مکہ میں داخل ہو رہے تھے۔ اسی دن آپؐ نے سیاہ عمامہ باندھ رکھا تھا ایک اونٹنی پر سوار تھے۔ جو نہی آپؐکی نظر بیت اللہ شریف پر پڑی آپؐکا سر اقدس اللہ کریم کی بارگاہ میں جھک گیا۔ آپؐنے اپنا سر اس قدر جھکایا کہ آپ نے عمامہ شریف کی سلوٹیں ڈھلیں  پڑ گئی۔ اونٹنی پر ہی آپؐ نے طواف فرمایا۔
 مختلف کتب سیرت میں حضور اکرم ؐکا خطبہ درج ہے اس کا مفہوم عرض کر رہا ہوں آپؐنے فرمایا اے قریشیو اللہ نے تم سے جاہلیت کے غرور کو ختم کردیا۔ سب آدم کی اولاد ہیں اورآدم مٹی سے بنے تھے۔آپؐ نے فرمایا تم میں سے بہتر وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے۔آپؐ نے پوچھا اے قریش بتاؤ میں تمہارے ساتھ کیا کرنے والا ہوں سب نے کہاآپ ؐشریف بھائی ہیں۔ شریف بھائی کے بیٹے ہیں آپ ؐجو کریں گے اچھا کریں گے آپؐ نے فرمایا جاؤ تمہیں آزاد کیا سب کو معاف کیا۔یہ جرأت انگیز حوصلہ صرف آپؐ کاہی ہوسکتا ہے ورنہ اس موقع پر انسان کہاں قابو میں رہتا ہے۔ آپؐ کی اس کیفیت کو علامہ اقبال نے یوں بیان فرمایا۔
آنکہ بر اعدا در رحمت کشاد
مکہ راہ پیغام لا تثریب داد
وقت ھیجا تیغ او آھن گداز
دیدہ او اشک بار اندر نماز
 ترجمہ جس نے دشمنوں پر رحمت کا دروازہ کھولا۔ جس نے مکہ کے لوگوں کے لئے لا تثریب کا پیغام دیا۔ میدان جنگ میں آپکی تلوار لوہے کو پگھلا دیتی ہے۔ لیکن آنکھوں سے اشک جاری ہورہے ہوں گے۔
 فتح مکہ کا سب سے اہم  مرحلہ بیت اللہ شریف کو بتوں سے پاک کرنا تھا۔ اس وقت کعبہ میں تین سو ساٹھ سے زائد بت موجود تھے۔ آپؐ اپنی کمان کے ساتھ بتوں کو گراتے او ریہ آیت پڑھتے جاء الحق وزہق الباطل اور آپ کی ٹھوکر سے بت اوندھے منہ گرتے۔عثمان بن طلحہ چابی لے کر کعبہ کے اندر داخل ہوئے۔ اس کو تصاویر سے پاک کیا۔حضرت بلالؐنے  کعبہ کی چھت پر کھڑے ہوکر اذان دی اور انہوں نے کعبہ میں طویل عرصہ کے بعد اللہ کی واحدانیت کا اعلان کیا۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں سیرت رسولؐپر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

epaper

ای پیپر-دی نیشن