• news

گیارہ مئی کو دعوﺅں نہیں کارکردگی پر فیصلہ ہوگا : نوازشریف

لاہور (احسن صدیق سے) پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر محمد نواز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان کو مسائل سے نکالنے اور بدامنی دور کرنے کیلئے مضبوط حکومت کی ضرورت ہے جس کی رٹ مضبوط ہو اگر بیساکھیوں کے سہارے حکومت بنتی ہے تو پھر پاکستان کے مسائل کا حل ہونا مشکل ہے۔ بیساکھیوں والی حکومت عوام نے دیکھ لی ہے۔ 11مئی کو دعوﺅں نہیں کارکردگی کی بنا پر فیصلہ ہو گا، وہ وقت نیوز کے پروگرام ’اِن سائیٹ“ میں ایڈیٹر ”دی نیشن“ سلیم بخاری کو انٹرویو دے رہے تھے۔ یہ انٹرویو آج (اتوار) 10 بجے شب ”وقت نیوز“ پر نشر ہو گا۔ مسلم لیگ (ن) کے صدر محمد نواز شریف نے کہا کہ اس وقت ملک میں مسائل کا انبار لگا ہوا ہے، بہت بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔ ان چیلنجز کو دیکھ کر ڈر لگتا ہے۔ مخلوط حکومت نے ان 5 سال میں ملک و قوم کو کیا دیا ہے۔ اگر 18 کروڑ عوام کو کچھ دیا ہوتا تو آج ہم بھی مخلوط حکومت کو سلام کر رہے ہوتے لیکن اس نے بدامنی، لوڈشیڈنگ اور مار دھاڑ کے سوا کچھ نہیں دیا۔ ان چیلنجوں کو دیکھ کر اللہ سے دعا کرتے ہیں اگر تو ہمیں طاقت عطا فرمائے تو ہمیں راہ بھی دکھا۔ اللہ کا شکر ہے کہ عوام میں بہت پذیرائی ملی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کو حکومت میں آنے کا شوق نہیں، اس وقت قوم بڑی مشکل حالت میں ہے۔ پاکستان مسائل کی دلدل میں ڈوبا ہے، ہمارا مقصد صرف ملک کو مسائل سے نکالنا ہے۔ ہمیں صرف اس بات کی تڑپ ہے کہ پاکستان کو اس منجدھار سے نکالیں، یہ میری جدوجہد کا محور ہے۔ انہوں نے سندھ میں سیاسی اتحاد کے بارے میں کہا کہ ہمارا مقصد یہ ہے کہ سندھ میں جتنی ”لائیک مائنڈ پارٹیز“ ہیں جو سمجھتی ہیں کہ سندھ میں گڈ گورننس نہیں، رشوت اور سفارش ہے۔ ان سے مل کر سندھ کے حالات درست کرنے کے لئے بڑی سطح پر اتحاد بنائیں، یہ اتحاد الیکشن میں بہت م¶ثر کردار ادا کرے گا۔ سندھ میں بہت حالات خراب رہے ہیں وہاں رشوت ستانی اس حد تک ہے کہ اس کے بغیر نوکری نہیں ملتی۔ سفارش پر پروموشن ملتی ہے، سندھ والوں کا کوئی پُرسان حال نہیں۔ کراچی میں بدامنی ہے، سندھ کے اندر سفر کرنا محفوظ نہیں ہے۔ پیپلزپارٹی کا تعلق سندھ سے ہے لیکن سندھ کو نظرانداز کیا گیا۔ کراچی میں دانستہ طور پر دہشت گردی کی جاتی رہی ہے جو واقعی دہشت گردی کا شکار ہو رہے ہیں، ہم ان کے ساتھ ہیں لیکن ہمیں سپریم کورٹ کا وہ فیصلہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ کئی رولنگ پارٹیوں کے عسکری ونگ ہیں۔ ان پارٹیوں کے نام لئے گئے اور یہ بھی کہا گیا کہ ایسے بھی لوگ ہیں جنہوں نے سو سو بندے قتل کئے، وہاں قومی مفاد کو تارتار کیا جا رہا ہے، کوئی شخص چین کی نیند نہیں سو سکتا۔ انہوں نے پیپلزپارٹی کی اشتہاری مہم کے حوالے سے کہا کہ کاش! پیپلزپارٹی جیسی پارٹی اس قسم کے ہتھکنڈوں پر نہ اترتی، انہیں اس قسم کی منفی مہم نہیں کرنی چاہئے تھی۔ انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی کے پاس بیچنے کیلئے کچھ نہیں، 5 سال قوم کو پستی میں اتارا، معیشت تباہ ہوئی، ملک میں بدامنی بڑھی، ان حالات کی ذمہ داری ان کے کندھوں پر ہے۔ مشرف جتنی لوڈشیڈنگ چھوڑ کر گئے اس میں مزید اضافہ ہوا، اس کی ذمہ داری بھی پیپلزپارٹی پر ہے۔ اگر پیپلزپارٹی کام کرتی تو آج لوڈشیڈنگ نہ ہوتی۔ اگر اللہ کے فضل سے ہمیں حکومت ملی تو 5 سال میں سارے مسائل حل کریں گے۔ ہم انشااللہ 5سال میں لوڈشیڈنگ ختم کریں گے۔ ان کی کارکردگی صفر اور منفی ہے اس لئے وہ منفی اشتہاروں کا سہارا لے رہے ہیں کیونکہ ان کے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہے اب وہ الزام تراشی پر اتر آئے ہیں اور جھوٹے الزام لگا رہے ہیں۔ کم از کم پیپلزپارٹی سے یہ توقع نہیں تھی جو نئے نئے میدان میں اترے ہیں ان سے توقع ہو سکتی ہے۔ ہم کوئی الزام سازی کی سیاست نہیں کر رہے اور نہ ہی کوئی ایسی اشتہاری مہم شروع کی ہے، ہم تو اپنے کارناموں کی بات کر رہے ہیں، ہم صرف ایشوز کی بات کر رہے ہیں۔ پاکستان کی ترقی، خوشحال مستقبل کی بات کر رہے ہیں، پاکستان سے لاقانونیت ختم کرنے کی بات کر رہے ہیں۔ کالاباغ ڈیم کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اس کے بارے میں سندھ اور خیبر پی کے میں کسی کسی جگہ تحفظات موجود ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان تحفظات کو دور کیا جانا چاہئے۔ قوم اگر ایک ہو کر اس کا فیصلہ کرے اور جن لوگوں کے ذہنوں میں کالاباغ ڈیم کے بارے میں تحفظات ہیں ان کو دور کیا جائے وہ سب اتفاق رائے کریں تو یقینا اس منصوبے کو شروع کیا جا سکتا ہے۔ زرداری صاحب اس سلسلے میں کردار ادا کر سکتے تھے لیکن انہوں نے کسی بھی مسئلہ کو حل نہیں نکالا۔ بھارت سے تعلقات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ 1999ءمیں واجپائی لاہور آئے، انہوں نے پاکستان کے بارے میں اچھی باتیں کیں پھر ہم میز پر بیٹھے اور ڈائیلاگ ہوا جس میں طے پایا کہ ہم پُرامن طریقے سے اپنے معاملات کو حل کریں گے۔ جب یہ طے ہو گیا اور دستخط بھی ہو گئے اس میں کشمیر کا بھی ذکر تھا کہ ہم سارے معاملات کو بات چیت سے حل کریں گے۔ یہ پاکستان اور بھارت کی تاریخ میں بڑا فیصلہ تھا۔ وہ ایک تاریخی موقع تھا ایک نئی تاریخ بن رہی تھی لیکن اس سارے عمل کو سبوتاژ کیا گیا اور کرگل کا محاذ کھول دیا گیا جس نے سارے عمل کو ڈی ریل کر دیا۔ ایک نیا محاذ کھول کر سارے معاملات کو بالکل ختم کر دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ میرا یہ خیال ہے کہ کشمیر کے مسئلہ کو زندہ رکھنا چاہئے اس کو بھلا دینا بہت ظلم اور زیادتی ہے، ہم ایسی کوئی چیز نہیں ہونے دیں گے۔ باقی معاملات بھی آگے بڑھنے چاہئیں۔ کشمیر کے مسئلہ پر بھی م¶ثر انداز میں بات چیت ہونی چاہئے۔ بھارت پر دبا¶ ڈالیں کہ یہ بھی ایک مسئلہ ہے جو بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اسے احساس دلاتے رہیں لیکن ساتھ ساتھ ٹریڈ کریڈ اور تعلقات ٹھیک کریں۔ 1947ءسے پہلے ہم ایک ہی قوم تھے، ہماری رسم و روایات ایک تھیں، زبان ایک تھی، رہن سہن ایک تھا، ہم آپس میں ہمسائے ہیں تو ہمسائے کے ساتھ تعلقات ٹھیک رکھنے چاہئیں۔ اگر تنازعات ہیں تو انہیں دوستانہ انداز میں حل کر سکتے ہیں۔ انہوں نے پرویز مشرف کی جانب سے مقدمہ کئے جانے اور جلاوطن ہونے کے بارے میں کہا کہ اس کی بھی داستان ہے۔ ہماری زندگی کا ایک بڑا تاریک باب ہے جو مقدمہ بنا تھا اس سے بڑا جعلی اور جھوٹا مقدمہ ہو ہی نہیں سکتا کہ جرنیل ہوا میں ہے اور میں زمین پر ہوائی جہاز کو ہائی جیک کر رہا ہوں۔ ایک ملک کے وزیراعظم پر اتنا بڑا الزام عائد کر رہے ہیں، خدا کا خوف کرو۔ دنیا کیا کہے گی کہ پاکستان کا وزیراعظم ہائی جیکر ہوتا ہے۔ اس واقعہ سے بڑی جگ ہنسائی ہوئی۔ مشرف نے جو بویا وہی کاٹ رہے ہیں۔ جب امریکی صدر کلنٹن پاکستان آئے تو انہوں نے ٹی وی پر اچھا خاصا لیکچر دیا کہ آپ لوگوں نے یہ کیا کیا۔ ہم نے تو مشکل کاٹ لی لیکن پاکستان کو ان لوگوں نے مشکل میں ڈال دیا۔ جمہوریت کی بساط تو کئی مرتبہ لپیٹی گئی مگر اس دفعہ تو تمام حدیں ہی پھلانگ دی گئیں کہ ججوں کو گرفتار کیا گیا۔ جدید دنیا میں ججوں کی گرفتاری کسی ملک میں دیکھی گئی ہے! میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے ساتھ بہت ظلم کیا گیا۔ مجھے کال کوٹھڑی میں 14 ماہ کے لئے پھینک دیا گیا۔ دونوں بازو¶ں پر ہتھکڑی لگائی گئی، جہاز کی سیٹوں سے باندھ دیا گیا، اس کے بعد گھر والوں اور بچوں کو گرفتار کیا گیا۔ میرے ماں باپ کو گھر میں نظربند کر دیا گیا۔ کیا ایسا سلوک کسی وزیراعظم کے ساتھ کیا جاتا ہے جس نے اپنے دشمن کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر دیکھا جس نے کوئی بھیک قبول نہیں کی، مجھے کہا گیا کہ ایٹمی دھماکے نہ کرو ہم آپ کو 5 ارب ڈالر دینے کیلئے تیار ہیں ہم نے اسے قبول نہیں کیا اور غیرت سے جینے کو ترجیح دی۔ پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے میں اپنا کردار ادا کیا۔ اب خود ہی اس کے سامنے آ رہا ہے۔ انہوں نے عمران خان کے تیسری قوت بننے اور 100 سیٹیں لینے کے دعویٰ پر کہا کہ 11 مئی کو پاکستان کے عوام فیصلہ کریں گے، عوام کو میری شکل دیکھ کر یا کسی اور کی شکل دیکھ کر نہیں بلکہ یہ دیکھ کر فیصلہ کرنا چاہئے کہ کس نے ملک کے لئے کیا کیا ہے؟ اس کا ماضی کیا ہے، ہم نے حال ہی میں پنجاب میں کیا کیا ہے اور مستقبل میں کیا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے پاس تو کچھ بھی نہیں کہنے کے لئے اور دوسرے موصوف جو ہیں ان کے بارے میں عوام بہتر جانتے ہیں جن کا ماضی میں کوئی ٹریک ریکارڈ نہیں، وہ مستقبل میں کیا کریں گے۔ کھلاڑی صاحب، زرداری صاحب اور کئی اناڑی بھی ہمارے خلاف ہیں، ایم کیو ایم اور ق لیگ بھی ہمارے خلاف ہیں، ہم اکیلے ہی میدان میں ہیں اور کاررواں بنتا ہی چلا جا رہا ہے۔ 11 مئی کو اللہ کے فضل و کرم سے عوام ہمارے ہی حق میں ووٹ دیں گے۔ انہوں نے اپنے حوالے سے کہا کہ عوام بہتر جج ہیں، کارکردگی کو بھی دیکھ سکتے ہیں، میں نے جو غلطیاں کی ہیں ان سے سبق سیکھا ہے، اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ میری اصلاح فرمائے تاکہ قوم کی خدمت کر سکوں۔ میری پارٹی قوم کی خدمت کر سکے۔ پنجاب میں شہباز شریف کی حکومت کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت بہت صاف ستھری حکومت کے طور پر جانی جاتی ہے۔ شہباز شریف نے بہت محنت کی۔ صبح چار بجے اٹھ کر فیلڈ میں جاتے تھے، دن رات محنت کی، صحت کا خیال نہیں کیا۔ دیگر صوبوں سے موازنہ کریں تو ماشاءاللہ پنجاب کا اپنا مقام ہے۔ انکی حکومت دیانتدار اور کرپشن فری حکومت تھی۔ میٹروبس پر ٹرانسپیرنسی نے بھی کہا کہ کہ اس میں کوئی گھپلا نہیں، کوئی کمشن نہیں لیا گیا۔ انہوں نے کاشتکاروں کی خدمت کی، 20 ہزار ٹریکٹر دئیے، طلباءکو لیپ ٹاپ دئیے، پنجاب میں سڑکیں بنائیں، انفراسٹرکچر بہتر کیا، لاہور آپ کو پھولوں کا شہر نظر آتا ہے۔ پرویز مشرف کو آ¶ٹ آف ٹرن ترقی دئیے جانے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ مجھے احساس ہے کہ بغیر کسی ٹھوس وجہ کے سینئر آفیسر کو کبھی نظرانداز نہ کریں۔ ان کو آرمی چیف بنانا غلطی تھی۔ انہوں نے کہا کہ میں پاکستان کو مشکل سے نکالنے کے لئے ایک کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ وزارت عظمیٰ کے عہدے کے لئے نہیں کر رہا ہوں، ہم اپنا کام وہیں سے شروع کریں گے جہاں سے چھوڑا تھا۔ انہوں نے کہا کہ میرا قوم کو پیغام ہے کہ بڑی ہوش مندی اور دانش مندی سے فیصلہ کریں۔ یہ ملک بہت مشکلات میں گھرا ہوا ہے اور عوام کے پاس تاریخی موقع ہے۔ مجھے بڑی خوشی ہے کہ 35 سال بعد قوم فیصلہ کر رہی ہے کہ کس پارٹی کو لانا ہے اور کسے گھر بھیجنا ہے۔ کون سی ایسی پارٹی ہے جو اقتدار سے زیادہ عوام کا درد دل میں رکھتی ہے۔ پاکستان کو مقام دلانے کی کوشش کی ہے، کس پارٹی نے اپنے 2 ادوار میں پاکستان کو تیزی سے ترقی دی، کس پارٹی کے پاس اچھی ٹیم ہے یہ لوگ اچھی طرح جانتے ہیں۔ لوگ نعروں کی گونج میں کوئی فیصلہ نہ کریں بلکہ حقائق کو سامنے رکھ کر فیصلہ کریں گے تو ملک محفوظ ہو جائے گا اور مشکلات سے نکل جائے گا۔ (وقت نیوز کے پروگرام ”ان سائیٹ“ میں سلیم بخاری کو یہ انٹرویو آج رات 10بجے نشر ہو گا) منڈی بہاءالدین + لاہور ( نامہ نگار +نوائے وقت رپورٹ+ خصوصی رپورٹر) مسلم لیگ (ن) کے صدر نوازشریف نے کہا ہے کہ 11مئی ملک کی تقدیر کو بدلنے کا دن ہے، کاغذ کی پرچی پر نہیں پاکستان کے مقدر پر مہر لگانا ہو گی، منڈی بہاءالدین میں جلسہ سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ یہاں کے عوام نے ہمیشہ (ن) لیگ کا ساتھ دیا، اللہ تعالیٰ نے موقع دیا تو نوجوانوں سے بڑا کام لینا ہے، نوجوان نوازشریف کی طاقت اور دوست ہیں، عوام مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کو ووٹ دیکر کامیاب کرائیں، نوجوانوں کا مستقبل روشن ہو گا، نوجوان ہماری فورس ہیں، ہم نے پہلے بھی پاکستان کو بدلہ اب بھی بدلیں گے، مفادپرست حکمرانوں نے ملک اور عوام کا بُرا حال کر دیا ہے، 11مئی کو عوام ایسے حکمرانوں کو ٹھوکر مار دیں گے، پہلے دن سے پاکستان کی تعمیر کا کام شروع کریں گے، ملک میں بدامنی، لوڈشیڈنگ، بیروزگاری، مہنگائی کا نوجوانوں کے ساتھ ملکر خاتمہ کریں گے۔ لاہور میں پارٹی کارکنوں سے خطاب میں نوازشریف نے کہا ہے کہ پاکستان کو اندھیروں سے نکالنا مسلم لیگ (ن) کے منشور کا ترجیح نکتہ ہے۔ یہ محض انتخابی وعدہ نہیں بلکہ ہم نے توانائی کا بحران کو ختم کرنے کیلئے ٹھوس منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔ نوازشریف نے کہا کہ ہم پیپلز پارٹی کی طرح تہی دست نہیں کہ جس کے وزیر وں کو لوٹ مار سے ہی فرصت نہیں تھی۔ مسلم لیگ (ن) کے پاس اقتصادی ماہرین بھی ہیں، معاشی منصوبہ ساز بھی۔ پانی و بجلی کی وزارت چلانے کے اہل لوگ بھی ہیں اور پاکستان کو تین سال کے عرصے میں اندھیروں سے نکال کر شاہراہ ترقی پر گامزن کرنے والے شہ دماغ بھی، ہم شہری اور دیہی صارفین کو لوڈشیڈنگ کئے بغیر ہی مناسب نرخوں پر گیس اور بجلی فراہم کرنے کی منصوبہ بندی کرچکے ہیں، ہم خاص لوگوں کو نہیں عام آدمی کو فائدہ پہنچانے پر یقین رکھتے ہیں۔ ہم اقتدار میں آئے تو ہوا، شمسی توانائی، بائیو ماس سے بجلی پیدا کرنے اور پن بجلی کے چھوٹے منصوبوں چھوٹے صارفین کے لئے نیٹ میٹرنگ کا سلسلہ شروع کیا جائیگا، تقسیم کار کمپنیوں کو کارپوریشنیں بنا کر ان کی نجکاری کی جائیگی۔ پیداواری لاگت کم کرنے کیلئے بجلی گھروں کو گیس کی باقاعدہ فراہمی یقینی بنائی جائیگی۔ فرنس آئل پر چلنے والے بجلی گھروں کو کوئلے پر چلایا جائے گا، سی این جی اور ایل پی جی پر غریب صارفین کو رعایت دی جائیگی، نئے بجلی گھروں کیلئے وفاق اور صوبے میں تعاون کو فروغ دینگے، گذشتہ پانچ سالوں میں پیپلز پارٹی نے پنجاب میں بجلی کے منصوبوں کی تعمیر میں جس طرح رکاوٹیں ڈالیں آئندہ کوئی وفاقی حکومت کسی صوبے کے ساتھ ایسی زیادتی نہ کر سکے۔

ای پیپر-دی نیشن