اسلام ہمیں اتحاد، اتفاق، اور ایثار کا درس دیتا ہے۔ یہ دین محبت، رواداری اور بھائی چارے کی تلقین کرتا ہے۔ عید الفطر اسی اتحاد اور خوشی کا پیغام ہے، جو تمام اختلافات کو بھلا کر ایک دوسرے کے قریب آنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ مگر بدقسمتی سے پاکستانی سیاست میں عدم برداشت، ذاتی عناد اور قومی مسائل پر بھی تقسیم در تقسیم کا رجحان پایا جاتا ہے۔ سیاسی اختلافات کو دشمنی میں بدل دیا گیا ہے، اور اس کا نقصان براہِ راست عوام کو ہو رہا ہے۔
پاکستان کی سیاست: انتشار اور عدم برداشت۔پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں شدید سیاسی نفاق، اداروں کے درمیان کشمکش، اور قومی یکجہتی کے فقدان کے کئی مظاہر نظر آتے ہیں۔ سیاسی رہنما ایک دوسرے کے خلاف انتہائی سخت زبان استعمال کرتے ہیں اور ذاتیات پر حملے عام بات بن چکے ہیں۔ اس رویے کے باعث نہ صرف جمہوری اقدار مجروح ہو رہی ہیں بلکہ عوام میں بھی بداعتمادی اور بے یقینی بڑھ رہی ہے۔
سیاسی انتقام اور اختلافات کی شدت۔پاکستان میں سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے ساتھ مخالفت کو دشمنی کی حد تک لے جاتی ہیں۔ کسی بھی حکومت کے آتے ہی مخالفین کے خلاف کیسز، گرفتاریوں، اور انتقامی کارروائیوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ یہ عمل جمہوریت کے لیے زہر قاتل ہے۔
قومی مفاد پر ذاتی اور پارٹی مفاد کو فوقیت۔ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ سیاسی رہنما قومی مفاد پر ذاتی اور جماعتی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ ملکی ترقی اور عوامی فلاح کے لیے متفقہ حکمت عملی اپنائی جائے، ہر جماعت اپنی سیاست چمکانے میں مصروف رہتی ہے۔
مکالمے کا فقدان اور افہام و تفہیم کی کمی۔مہذب معاشروں میں سیاستدان اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ کر مسائل حل کرتے ہیں۔ مگر پاکستان میں مکالمے کی روایت ختم ہو چکی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات کم ہی دیکھنے کو ملتے ہیں، جس سے سیاسی تناؤ میں اضافہ ہوتا ہے۔
سوشل میڈیا پر نفرت انگیزی اور سیاسی شدت پسندی۔سوشل میڈیا کا غلط استعمال سیاسی تقسیم کو مزید گہرا کر رہا ہے۔ ہر سیاسی جماعت کے حامی اپنے مخالفین کے خلاف زہر افشانی کرتے ہیں، جس سے سیاسی درجہ حرارت مزید بڑھتا ہے۔
عید الفطر: محبت، اتحاد اور ایثار کا پیغام۔عید الفطر مسلمانوں کے لیے ایک عظیم خوشی کا موقع ہے۔ رمضان المبارک کی عبادات اور روزوں کے بعد اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو عید کی صورت میں انعام سے نوازتا ہے۔ یہ دن ہمیں اخوت، بھائی چارے اور ایثار کا درس دیتا ہے۔
-1 عید، اللہ کی نعمتوں پر شکر کا دن۔عید الفطر دراصل شکرانے کا دن ہے۔ قرآن میں ارشاد ہے:
’’تاکہ تم روزوں کی مدت پوری کرو اور اللہ کی دی ہوئی ہدایت پر اس کی بڑائی بیان کرو اور اس کا شکر ادا کرو۔‘‘ (البقرہ: 185)
یہ دن ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ اللہ کی نعمتوں پر قناعت اور شکرگزاری اختیار کریں، اور ضرورت مندوں کی مدد کریں۔
-2صدقہ فطر: غربا کی مدد کا ذریعہ۔عید سے پہلے صدقہ فطر ادا کرنا فرض قرار دیا گیا ہے تاکہ غریب اور نادار لوگ بھی عید کی خوشیوں میں شریک ہو سکیں۔ حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے:
’’نبی کریمﷺ نے صدقہ فطر اس لیے مقرر کیا تاکہ روزے لغو اور فحش باتوں سے پاک ہو جائیں اور مسکینوں کے لیے خوراک کا بندوبست ہو جائے۔‘‘ (ابو داؤد)
یہ ہمیں دوسروں کی مدد اور ایثار کا سبق دیتا ہے، جو کہ پاکستانی معاشرے میں سب سے زیادہ مطلوب ہے۔
-3عید: اختلافات کو ختم کرنے اور بھائی چارے کو فروغ دینے کا موقع۔عید الفطر صرف خوشی منانے کا دن نہیں بلکہ یہ ایک دوسرے کے لیے درگزر کرنے، رنجشیں مٹانے اور تعلقات بحال کرنے کا موقع بھی ہے۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا:
’’مسلمان کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ قطع تعلق کرے۔‘‘ (بخاری و مسلم)
یہ حدیث ہمیں سکھاتی ہے کہ اختلافات کو ختم کر کے ایک دوسرے کو معاف کرنا چاہیے، بالکل اسی طرح جیسے ایک خاندان عید کے موقع پر تمام ناراضیاں بھلا کر اکٹھا ہو جاتا ہے۔
کیا پاکستانی سیاستدان عید کے پیغام کو سمجھیں گے؟عید الفطر کا حقیقی پیغام یہی ہے کہ نفرتوں کو ختم کر کے محبت کو فروغ دیا جائے۔ پاکستان کے سیاستدان اگر واقعی ملک و قوم کی بھلائی چاہتے ہیں تو انہیں ذاتی اور جماعتی مفادات سے بالاتر ہو کر قومی یکجہتی اور مفاہمت کو فروغ دینا ہوگا۔
-1 سیاسی مکالمے کی روایت کو زندہ کرنا ہوگا۔اگر پاکستان نے ترقی کرنی ہے تو سیاسی رہنماؤں کو مذاکرات اور بات چیت کی راہ اپنانا ہوگی۔ پارلیمنٹ کو دوبارہ ایک موثر پلیٹ فارم بنایا جائے جہاں قومی مسائل پر مثبت بحث ہو۔-2 سیاسی انتقام کی پالیسی ترک کرنا ہوگی۔مخالفین کے خلاف انتقامی کارروائیوں سے گریز کرنا ہوگا، ورنہ ملک کبھی بھی استحکام کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکے گا۔ حکومت اور اپوزیشن کو مل کر ملکی ترقی کے لیے کام کرنا ہوگا۔-3 سوشل میڈیا پر اخلاقیات کو فروغ دینا ہوگا۔سیاسی جماعتوں کو اپنے کارکنان کو سوشل میڈیا پر مہذب رویہ اپنانے کی تلقین کرنی چاہیے۔ نفرت اور تقسیم کی سیاست کی بجائے مثبت مکالمے کو فروغ دینا ہوگا۔-4 قومی مسائل پر اتفاق رائے پیدا کرنا ہوگا۔معاشی بحران، مہنگائی، بے روزگاری اور دیگر چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو ایک متفقہ پالیسی اپنانا ہوگی۔ سیاسی مفادات سے بالاتر ہو کر ملک کے مفاد میں فیصلے کرنا ہوں گے۔
پاکستان میں اس وقت سب سے زیادہ ضرورت قومی یکجہتی اور اتحاد کی ہے۔ اسلام اور عید الفطر ہمیں یہی درس دیتے ہیں کہ تمام اختلافات بھلا کر بھائی چارے اور محبت کو فروغ دیا جائے۔ اگر ہمارے سیاستدان واقعی ملک و قوم کا بھلا چاہتے ہیں تو انہیں عید کے اس پیغام کو اپنانا ہوگا اور اپنی سیاست میں برداشت، رواداری اور مکالمے کو فروغ دینا ہوگا۔ اسی میں پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کا راز مضمر ہے۔
عوام دہشت گردی کے چنگل میں بُری طرح پھنسے ہوئے ہیں۔رمضان المبارک میں ایک تو منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں نے عوام کا جینا دو بھر کیے رکھا، اوپر سے دہشت گردی کا عفریت بھی پھنکار تا رہا۔جعفر ایکسپریس کی ہائی جیک کا واقعہ انتہائی المناک اور خوفناک تھا۔جو سیاستدان اس واقعے کے بعد بھی متحد نہیں ہو سکے ان کے بارے میں کوئی کیا رائے قائم کر سکتا ہے۔اپوزیشن کو ہر صورت قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کرنا چاہیے تھی۔ان کا اعتراض بھی رد نہیں کیا جا سکتا کہ اسے حکومت کی طرف سے دیوار کے ساتھ لگانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔فریقین کو ہوش کے ناخن لینے چاہیے۔کم از کم دہشت گردی کے خلاف یک نکاتی ایجنڈے پرتو سیاست دانوں کو متحد ہو جانا چاہیے۔حکومتی اکابرین اور اپوزیشن کے بزار جمہر اناؤ ں کے خول سے نکلیں۔ملکی مفاد کو مد نظر رکھ کے اپنی سیاست کے خدوخال طے کریں۔قومی اتحاد یکجہتی یگانگت ہی عید کا پیغام ہے۔