سورۃ الاعراف میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے۔
ترجمہ: ’’بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کے دل تو ہیں لیکن سمجھتے نہیں ۔آنکھیں ہیں لیکن دیکھتے نہیں ۔ کان ہیں لیکن سنتے نہیں ۔‘‘
ایسے لوگوں کے اعمال سے انسانیت کو فائدے سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ اقتدار میں پہنچ کر ایسے لوگوں کو نہ تو خوف ِخدا رہتا ہے اور نہ عوام کی تکلیفات کا احساس۔ روز ازل سے لیکر دور حاضر تک تمام ڈکٹیٹروں ،آمروں اور ظالم بادشاہوں کی ایک ہی کوشش رہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ طاقت حاصل کی جائے اور اپنے اقتدار کو ہر ممکن طریقے سے دوام بخشا جائے۔ انہیں اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ ان کے ہوس اقتدار سے کتنے لوگ تباہ ہوتے ہیں۔ کتنے لوگ لقمہ اجل بنتے ہیں اور قوم کو کتنی بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ ان کا مطمع نظر صرف اور صرف حصول اقتدار اور پھر دوام اقتدار ہوتا ہے۔ چاہے خون کی ندیاں عبور کرنا پڑیں یا انسانی کھوپڑیوں کے مینار بنانے پڑیں۔ اس کو شش میں ان سے ایسی ایسی غلطیاں سر زد ہوتی ہیں جو بالآخر ان کی اپنی تباہی کا سبب بن جاتی ہیں۔ اکثر آمر لوگ اپنے اقتدار کے نشے میں اپنی حفاظت کے لئے اپنے ارد گرد جو مضبوط حصار بناتے ہیں یا طاقت کے ستون کھڑے کرتے ہیں بلآخر انہی کے نیچے دب کر اپنے منطقی انجام کو پہنچتے ہیں۔ شایدقدرت کا یہی انداز انصاف ہے۔
ہماری اپنی 72 سالہ تاریخ آمروں اور ہوس اقتدار کے پجاریوں سے بھری ہے۔ ان لوگوں نے اپنی حفاظت اور دوام اقتدار کیلئے کئی طرح کے سہارے مضبوط کئے اور بالآخر وہی انکے زوال اور عبرتناک انجام کا سبب بنے۔ پاکستان کے آخری گورنر جنرل اور پہلے صدر جناب ا سکندر مرزا (مرحوم) بہت ہی سازشی ذہن کے انسان تھے۔ فوج میں میجر تھے کہ سفارشوں کے زور پر برٹش انڈیا کی پولٹیکل سروس میں چلے گئے۔ وہاں انہیں اپنے سازشی ذہن کو استعمال کرنے کے وسیع مواقع ملے۔ اسی دوران پاکستان بن گیا اور وہ ماشاء اللہ ترقی کرتے کرتے ڈیفنس سیکرٹری اور پھر صدر پاکستان کے عہدے تک پہنچے۔ اپنی پولٹیکل سروس کے دوران اپنے فوجی رینک بھی پڑھواتے رہے اور میجر سے۔ میجر جنرل بن گئے‘ بطور صدر پاکستان انہوںنے سیاستدانوں کو آپس میں لڑا لڑا کر پاکستان کی سا لمیت داؤ پر لگادی۔ پھر اپنے استحکام کے لئے آرمی کے کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان (مرحوم) سے ساز باز کی۔ ایک حاضر سروس جنرل کو پہلے یونیفارم میں وزیر دفاع پھر وزیر اعظم اور بلآخر مار شل لاء ایڈ منسٹریٹر بنا کر مطمئن ہو گئے کہ اب تو ان کا اقتدار پکا ہو گیا۔ وہ یہ بنیادی بات بھول گئے کہ آمر جس سیڑھی سے اقتدار تک پہنچتا ہے وہاں پہنچ کر سب سے پہلے اسی سیٹرھی کو گراتا ہے۔ لہٰذا مر حوم ایوب خان نے سب سے پہلے انہی کو فارغ کر کے براستہ ایران لندن روانہ کیا اور یوں سازشی صدرا اپنی ہی سازش کا شکار ہو کر اپنے انجام کو پہنچا اور پناہ کے لئے لندن کے ایک ہوٹل میں ملازمت کرنا پڑی۔ مرحوم ایوب خان، ذوالفقار علی بھٹو کو آگے لائے جن پر انہیں بہت اعتماد تھا۔ پھر ایک وقت آیا کہ دونوں کے راستے جدا ہوئے اور بھٹو ان کیلئے سب سے بڑا خطرہ بن گیا۔ مرحوم فیلڈ مارشل نے اپنے کمانڈر انچیف جنرل یحییٰ خان کے زیر سایہ پناہ لینے کی کوشش کی جو محافظ ثابت نہ ہو سکا ۔ بالآخر یہی دو غلطیاں ان کے عبرتناک انجام کا سبب بن گئیں۔ یحییٰ خان نے اپنے سیاسی اقتدار کا سہارا جناب بھٹو صاحب کو بنایا اور پھر اُس کا حشر بھی ہمارے سامنے ہے۔جناب ذوالفقار علی بھٹو ہمارے ملک کے سب سے ذہین اور فعال وزیر اعظم تھے لیکن نجانے کیوں اندرونی طور پر فوج سے وہ بھی خائف رہنے لگے۔ اپنے استحکام اقتدار کیلئے آدھے درجن جرنیلوں کا دھڑن تختہ کر کے جناب ضیاء الحق کو اوپر لے آئے اور ظاہری طور پر بے ضرر نظر آنیوالے اس غیر معروف سے جرنیل کو آرمی چیف بنا دیا جس سے انہوں نے اپنے آپ کو مستقبل کی کسی بھی قسم کی فوجی کاروائی سے محفوظ سمجھ لیا اور پھر یہی غلطی انکے عبر تناک انجام کا سبب بھی۔ محترم بھٹو صاحب کی اس غلطی کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑا بلکہ اب تک بھگت رہی ہے۔
اگلے جمہوری دور میں جناب نواز شریف صاحب استحکام اقتدار کے خطرے سے دوچار ہوئے۔ انہوں نے پہلے مرحوم جنرل آصف نواز کو اپنے تابع کرنے کی کوشش کی جس میں ناکام ہوئے۔ تاہم آصف نوازتو اللہ کو پیارے ہو گئے پھر جنرل جہانگیر کرامت کو اپنی گرفت میں لینے کی کوشش کی جب وہاں نا کام ہوئے تو جنرل جہانگیر کرامت کو استعفے دینا پڑا۔ پھر ایک پنجائی اور ایک پٹھان جنرل کو ریٹائر کر کے جنرل پرویز مشرف کواوپر لے آئے اور پھر ان کے ساتھ جو کچھ ہو اوہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔
جنرل پرویز مشرف نے اپنے ہی مہربان سے جب اقتدار چھینا تو انکے سامنے پاکستان کی خدمت کے وسیع مواقع تھے۔ وہ پاکستان کو ایک ترقی یافتہ ملک بنا کر اپنے آپ کو تاریخ میں ہمیشہ کیلئے محفوظ کر سکتے تھے۔ قائد اعظم ثانی ثابت ہو سکتے تھے۔ شروع شروع میں شاید انہوں نے ایسی کوششیں بھی کیں۔ ایک شاطر اور جہاندیدہ انسان ہونے کے باوجود وہ آہستہ آہستہ طاقت کے نشے میں اس حد تک مدہوش ہوئے کہ اپنے مقاصد ہی سے بے خبر ہو گئے۔ اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کیلئے طرح طرح کے حربے استعمال کئے۔ ہارس ٹریڈنگ کی جعلی پارٹی بنائی۔ جعلی ریفرنڈم کرائے۔ قومی خزانہ بیرونی دوروں پر ضائع کیا۔ قوم پر امریکن جنگ مسلط کی۔ لوگوں کے اربوں کے قرضے معاف کئے جو پاکستان کے غریب عوام کا پیسہ تھا۔ پھر اقتدار کے نشے میں اس حد تک چلے گئے کہ عدلیہ کو بھی پابند سلاسل کر دیا۔ پھر قومی مفاہمتی بل لے آئے جو غریب قوم کے ساتھ سراسر ظلم تھا۔ اپنا اقتدار بچانے کیلئے پوری قوم کو داؤ پر لگا دیا۔ اس مفاہمتی بل کا سب سے زیادہ فائدہ جناب آصف علی زرداری کو ملا۔ پھر اِسی آصف علی زرداری کے ہاتھوں جنہیں وہ اپنا محافظ بنا کر پاکستان لائے تھے اپنے عبرتناک انجام کو پہنچے۔ یہ ہے قدرت کا انداز انصاف۔ وہ اپنے پیشر و حضرات سے بھی سبق نہ سیکھ سکے۔ سابق صدر نے قومی مفادات پر سودے بازی کر کے اپنے مفادات کی حفاظت کی اور قدرت کے انصاف سے نہ بچ سکے ۔بد قسمتی سے اب ایک دفعہ پھر ہماری تاریخ اُسی راستے پر گامزن ہے ۔کاش ہمارے راہنما تاریخ سے سبق سیکھ سکیں۔ یہ لوگ بلآخر کیوں نہیں سمجھتے کہ ملک و قوم کی خدمت ہی مستقل اقتدارکی ضمانت ہے۔