ہمسایہ ملک ہندوستان کا نام نہاد سیکولر چہرہ تار تار ہوچکاہے۔ ایک عرصہ سے ہندوستان نے سیکولرازم کا ڈھنڈورا پیٹا اور دنیا کو اپنا سافٹ امیج دکھاکر جہاں اپنی ثقافت اور سیاحت کوترویج دیا وہاں ہندوستان کو دنیا کی سب سے بڑی پرامن جمہوری ریاست بھی قرار دیتارہاہے، لیکن آرایس ایس کی پشست پناہی سے برسراقتدار آنے والی بھارتی جنتا پارٹی کی مودی حکومت کے دور اقتدار میں ہندوستان میں مسلمانوںکو جس طرح نشانہ بنایاگیاہے اور جو اقدامات لئے گئے ہیں ان پر نہ صرف پوری دنیا میں آواز اٹھائی گئی ہے بلکہ ہندوستان کے اندرموجود بعض اعتدال پسند شہری بھی مودی اور آر ایس ایس کی پالیسیوںکو ہدف تنقید بناچکے ہیں۔ آر ایس ایس اور بھارتی جنتا پارٹی کے کارندوں نے جس طرح سے ماضی میں بابری مسجدکوشہیدکیا، موجودہ مودی حکومت نے بابری مسجد کے بارے میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر اثرانداز ہوکر ہندوئوںکے موقف کی تائید میں جو فیصلہ کروایا اس سے ہندوستان کا اصلی چہرہ سامنے آگیاتھااور ہندوستان میں بسنے والے کروڑوںمسلمانوںکو بھی اپنے مستقبل بارے تشویش لاحق ہوگئی تھیں جس کی توثیق مودی حکومت نے کچھ عرصہ پہلے کشمیر اورکشمیری مسلمانوں کے حقوق سے متعلق رائج ایکٹ370اور35اے کو ختم کرتے ہوئے کی۔ علاوہ ازیں ہندوستانی مسلمانوںکی شناخت سے متعلق سوالات اٹھائے گئے اور بھارتی پارلیمنٹ سے سٹیزن(ترمیمی) ایکٹ2019پاس کرواکے ہندوستانی مسلمانوں پر ایک مستقل تلوار لٹکادی۔ علاوہ ازیں ہندوستان میں گھر واپسی کے نام پر ایک ایسی تحریک چل رہی تھی جس کے تحت ہندوستان کے چپے چپے میں بسنے والے مسلمانوںکو تشدد کے زور پر اپنا مذہب چھوڑکرپھر سے ہندومذہب اختیارکرنے کا کہاجارہاتھا۔گھر واپسی تحریک کو کامیاب بنانے کیلئے وشوا ہندوپرشاد(وی ایچ بی) راشٹریہ سوائم سیوک سنگ(آر ایس ایس) اورہندومکال کچی نامی تنظیمیں سرگرم عمل تھیں۔ یہ تنظیمیں مسلمانوں اور عیسائیوںکو زبردستی ہندومذہب اختیارکرنے کیلئے دبائوڈالتی ہیں۔
ہندوستان اس قدر ذہنی پسماندگی کا شکارہے کہ دنیا بھرمیں پھوٹنے والی کروناوباکوبھی مسلمانوںکے ساتھ جوڑا جانے لگاتھا، گویاکرونا ختم کرنا اور مسلمانوںکو ختم کرنا ایک سی بات ہوگئی تھی۔ ہندوستان کے اندر ہندوستانی مسلمانوں اورکشمیر میں بسنے والے مسلمانوں پر مظالم اس قدر بڑھ گئے تھے کہ متعدد مسلم ممالک نے نہ صرف اس کی پرزور مذمت کی تھی بلکہ ہندوستان کی ان نفرت انگیز پالیسیوں پر کڑی تنقید کی جارہی تھی، لیکن ہندوستان دیگر ممالک کی تنقید سے بے نیاز مسلمانوںکے خلاف بھڑکتی ہوئی آگ میں نہ صرف جل رہاتھا بلکہ آئے روز اس آگ میں شدت پیدا کی جارہی تھی جس سے ہندوستان کے اندر بسنے والے مسلمانوںکی زندگیاں اجیرن ہوکررہ گئی تھیں اور اب بھی ہیں۔ مودی حکومت کے اقدامات پر تنقید کرتے ہوئے ہندوستان ہی کی ایک سیاسی شخصیت بھی کہنے پہ مجبور ہوگئی کہ آج جناح کا نظریہ کہ’’ مسلمانوںکیلئے الگ مملکت ہونی چاہیے جیت گیا اور گاندھی کا نیریٹوہارگیاہے‘‘۔
ہندوستان صرف اسلاموفوبیا ہی نہیں بلکہ توسیع پسندانہ عزائم بھی رکھتاہے۔ وہ نہ صرف پاکستان، بنگلہ دیش، نیپال،سری لنکا اور خطے کے بعض چھوٹے چھوٹے ممالک کو بھی اپنے زیرتسلط لانا چاہتاہے بلکہ وہ مہابھارت کے نقشے میں افغانستان کے کچھ علاقوںکو اپنا حصہ قرار دیتاہے یوں ہمارے مغرب میں بسنے والے برادر ملک کی آنکھیں بھی کھل جانا چاہیے اور اس وقت کا انتظارکرنا چاہیے جب ہندوستان کے چہرے پر چڑھا سافٹ ماسک بھی بالکل اسی طرح سے اترجائے گا جس طرح سیکولر کا نام نہاد امیج برباد ہواہے۔ بہرطور ہندوستان کا جنگی جنون دنیا سے پوشیدہ نہیں ہے، لائن آف کنٹرول کے اس پار آئے روز بمباری،نیپال کے ساتھ سرحدی کشیدگی اورلداخ میں چین کے علاقے پر تسلط قائم کرنے کی ناکام خواہش سے اس کے عزائم کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ وطن عزیز پاکستان جنوبی ایشا کا بہرطور وہ ملک ہے جو ہندوستان کے اسلاموفوبیا اور توسیع پسندانہ عزائم Hegermonio Designsکونہ صرف سمجھتاہے بلکہ ڈنکے کی چوٹ پر سے ایساکرنے سے باز رہنے کا بھی کہتاہے۔ یقیناً پاکستان اپنے دفاع سے غافل نہیں ہے اور وہ دشمن کی ہر چال اور حرکت پر نظررکھے ہوئے ہے۔ ضرورت ہے تو صرف اس امر کی کہ ایسے میں عوام یک جان دوقالب بن کر رہیں اور ملک کو درپیش کسی بھی چیلنج اورمشکل کا جرات اور دلیری کے ساتھ سامناکریں۔
جنوبی ایشیا میں آبادی،رقبے اور عسکری قوت میں برتری کے بل بوتے پر بھارت کی طرف سے اپنے چھوٹے ہمسایہ ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی ایک طویل تاریخ ہے جب سے نریندرمودی کی قیادت میں بی جے پی کی حکومت قائم ہوئی ہے، ہمسایہ ممالک کے خلاف بھارت کے جارحانہ عزائم کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ ابھی2014ء کے پارلیمانی انتخابات کی مہم کا آغاز نہیں ہوا تھا کہ نریندر مودی جنہیں ان کی پارٹی نے وزیراعظم کے عہدے کیلئے نامزد کیاتھا نے اعلان کیا کہ وہ وزیراعظم کے عہدہ سنبھالنے کے بعد پاکستان اور چین کو سبق سکھائیںگے۔کشمیر میں لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزیوںمیں اضافہ اور چین کے ساتھ مشترکہ سرحد پر پہلے2017ء میں ڈوکلم اورپھر2020ء میں لداخ میں چین کے خلاف اشتعال انگیز کارروائیاں اسی اعلان کے مطابق کی گئیں۔ مودی حکومت کی تخریب کاری صرف پاکستان اور چین تک محدود نہیں نیپال کے وزیراعظم کی پی شرمااولی نے انکشاف کیاتھا کہ بھارتی حکومت ان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کررہی ہے۔ اس سے قبل2016ء میں سری لنکا کے صدر نے الزام عائدکیاتھاکہ بھارتی خفیہ ایجنسی را انہیں قتل کرنے کی سازش میں ملوث ہے۔ نیپال اور سری لنکا کے خلاف جارحانہ رویے اور انکے اندرونی معاملات میں مداخلت کی واحد وجہ یہ ہے کہ ان دونوںملکوں نے آزادانہ خارجہ پالیسی کے تحت چین کے ساتھ قریبی تعلقات قائم رکھے ہیں۔ بھارت کی مخالفت کے باوجود نیپال نے نہ صرف اپنے ہاں چینی سرمایہ کاری کو دعوت دی ہے بلکہ ون بیلٹ ون روڈجیسے عظیم منصوبے میں شمولیت اختیار کررکھی تھی۔
ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ جب عوام ، حکومت اور افواج ایک مضبوط رشتہ بنالے تو ہمیشہ دشمنوں کی پیٹھ پر کاری ضرب لگتی ہے۔