رمضان کی برکات غریب روز دار‘ مالی فائدہ تاجر اور بددعائیں حکومت کے حصے میں -
رمضان المبارک کا پرنور مہینہ اپنی برکتیں اور نعمتیں سمیٹ کر ہم سے رخصت ہو رہا ہے۔ ایک روز بعد شوال کا چاند نظر آئیگا اور عید کی پرمسرت ساعتیں سامنے ہونگی۔ سچ کہیں تو رمضان المبارک کی تمام برکتیں‘ ثمرات ان لوگوں کے حصہ میں آئی جنہوں نے ایمانداری سے اللہ کی رضا کی خاطر تنگی اور ترشی کے باوجود مہنگائی اور مشکلات کے باوجود روزے رکھے اور رضائے الٰہی حاصل کی۔ یہ وہ روحانی دولت ہے جو سب کو نصیب نہیں ہوتی‘ ملاوٹ‘ ذخیرہ اندوزی اور گرانی کرنے والے بے شک اس ماہ میں خوب ناجائز لقمہ حرام کھاتے ہیں اور منافع جمع کرتے ہیں مگر انکے روزے‘ نمازیں‘ عبادات خدا کے ہاں قبولیت نہیں پاتیں۔ سو انکے حصہ میں دنیاوی دولت آتی ہے۔ اب رہی بات حکومت کی تو سچی بات یہ ہے کہ اس ماہ مبارک میں حکومت کے حصہ میں بدنامی اور بددعائیں ہی آئی ہیں۔ بقول شاعر‘
تو اپنے در سے مجھے خالی ہاتھ مت لوٹا
میرے نصیب میں جی بھر کے رسوائی لکھ دے
فائدے تاجروں نے لوٹے اور گالیاں انتظامیہ کے حصے میں آئیں۔ کیا مجال ہے جو پورے ملک میں ایک شہر یا گائوں سے کوئی خدا کو حاضر ناظر جان کر گواہی دے کہ اسکے علاقے میں حکومتی اعلانات کے مطابق ہر چیز سرکاری ریٹ پر دستیاب تھی۔ ایسا صرف خبروں کی حد تک تھا۔ باقی ہر بازار‘ ہر دکان میں ریٹ حاجی‘ نمازی دکانداروں کی مرضی کے مطابق تھے اور انہیں کوئی روکنے والا نہیں تھا۔ اسکے باوجود کہ حکومت نے رمضان پیکیج کے تحت غریبوں کی بھرپور مالی امداد کی غریبوں کوپروگرام کے تحت بھرپوررقوم فرام کرکے اپنی سی کوشش بھی کی۔ جولائق تحسین ہے مگر میچ منافع خور جیت گئے-
٭…٭…٭
ملک بھر میں عید ایک ہی روز منائے جانے کا بھرپور امکان۔
اللہ کی مہربانی سے لگتا ہے اس بار ہلال عید پر کوئی تنازعہ نہیں ہوگا کیونکہ ماہرین فلکیات کے مطابق جس طرح رمضان کا چاند نہایت واضح روشن پورے ملک میں دکھائی دیا‘ اسی طرح شوال کا چاند بھی خیروخوبی کے ساتھ روشن اور واضح ہوگا۔ ایسی متفقہ چاند رات کیلئے تو
رخ روشن سے مشورہ کرکے
بخش دو اک حسین رات مجھے
کہنے کو جی چاہتا ہے ورنہ عام طور پر رات دس بجے تک جان سولی پر لٹکی رہتی ہے کہ چاند نظر آیا یا نہیں۔ کئی بزرگ تو اعلان تک مسجد میں بیٹھے رہتے ہیں کہ نظر آیا تو گھر جائیں گے ورنہ تراویح پڑھیں گے۔ اسکے علاوہ چاند رات کی گہماگہمی‘ چوڑیوں‘ مہندی والی دکانوں پر رش‘ میک اپ کے سامان والی دکانیں اور حمام و بیوٹی پارلر بھی کھچا کھچ بھرے ہوتے ہیں۔ اب تو عورتوں کے علاوہ مرد حضرات پر بھی بننے سنورنے کا ایسا بھوت سوار ہو گیا ہے کہ خود عورتیں بھی شرما جاتی ہیں کہ یااللہ یہ کونسی مخلوق ہے۔ سب سے زیادہ خوشی بچے مناتے ہیں‘ لڑکے ہوں یا لڑکیاں‘ سب رات کو اپنے لباس‘ جوتے‘ مہندی کا سامان سرہانے رکھ کر صبح تک عید کے سپنوں میں گم سم کچھ جاگتے ہیں‘ کچھ سوئے ہوتے ہیں۔ ایک مشترکہ خواب یہ سب بچے اور بڑے ضرور دیکھتے ہیں‘ یہ وہ خواب ہے جو ہم اور ہمارے بڑے بلکہ انکے بڑے بھی دیکھتے آئے ہیں۔ جی ہاں! صبح اٹھ کر نئے نئے کرارے نوٹوں کی شکل میں ملنے والی عیدی کے خوبصورت سپنے جو آج تک اور آئندہ بھی جب تک دنیا باقی رہے گی‘ اور عید کا تہوار منایا جاتا رہے گا۔ خدا عالم اسلام پر اپنی نعمتیں جاری رکھے اور مسلمانوں کی تمام پریشانیاں اور دکھ دور کرے۔ اس موقع پر ہمیں غریبوں اور غزہ کے مظلوم فلسطینی بچوں کو یاد رکھنا چاہیے جو عید کے دن بھی دکھ درد اور تکلیف کا سامنا کررہے ہیں۔
٭…٭…٭
عدالت نے آوارہ کتوں کو مارنے کی مہم روک دی۔
ایسے ہی موقع کیلئے سنگ پابند اور سگ آزاد کی مثال دی جاتی ہے۔ خدا جانے ہمارے ہاں کیوں آوارہ کتوں سے اچانک یہ محبت ایسے لوگوں کے دلوں میں بیدار ہو جاتی ہے جو اپنے گھر کے باہر سائے میں بھی کسی کتے کو بیٹھا دیکھ لیں تو پتھر مار کر اسے بھاگنے پر مجبور کرتے ہیں۔ اب جب خدا خدا کرکے موسم گرما سے پہلے میونسپل کمیٹی والوں نے آوار کتے تلف کرنے کی مہم شروع کر دی ہے تاکہ گرمی میں پاگل کتوں کے کاٹنے کے واقعات کی روک تھام ہو‘ کیونکہ گرمی میں کتے پاگل ہو جاتے ہیں‘ کتے پالنے کے شوقین انگریز جب برصغیر میں حکومت کیا کرتے تھے‘ انکے دور سے یہ کتے مار مہم چل رہی ہے‘ اس طرح انکی آبادی بھی قابو میں رہتی ہے۔ برٹش دور میں سڑکوں پر یوں آوارہ کتوں کے لشکر گشت نہیں کرتے تھے۔ شہروں اور چھائونیوں میں تو کتوں کا داخلہ ممنوع ہوتا تھا۔ اب نجانے کیوں ادھر کتا مار مہم شروع ہوتی ہے تو نت نئے انداز میں اسکے خلاف عدالت میں درخواستیں آنے لگتی ہیں۔ آفرین ہے عدالتوں پر بھی کہ وہ اہم مسائل چھوڑ کر ایسی درخواستوں کی سماعت کرکے مہم بند کراتی ہیں۔ کتوں کو زہر دیکر مار جائے تو وہ بھی مصیبت کہ ایسا کرنا ظلم ہے۔ گولی ماریں وہ بھی ظلم تو کیا ہی اچھا ہو ان آوارہ کتوں کو چین‘ ویتنام‘ فلپائن‘ کمبوڈیا‘ سنگاپور‘ برما اور تھائی لینڈ میں فروخت کرکے بھاری زرمبادلہ کمایا جائے۔ ان ممالک میں بڑے ذوق و شوق سے ان کا گوشت کھایاجاتا ہے ورنہ ہمارے مسلم ملک میں کئی حاجی شنواری مولوی تکہ‘ افغانی پلاؤاور کباب والے انہی کا گوشت جو حرام ہے‘ مسلمانوں کو بے وقوف بنا کر کھلا دیتے ہیں اور ثواب کماتے ہیں۔ ان کو اب اس ثواب سے محروم کرنا ہوگا ورنہ میونسپل کمیٹی والوں کے ساتھ عوام کو بھی اجازت ہونی چاہیے کہ وہ پالتو کتوں کے علاوہ آوارہ کتوں کو ختم کریں۔ اب عدالت فیصلہ کرے کہ اسے انسانوں کی زندگی عزیز ہے یا کتوں کی۔ یاد رکھیں کتے کے کاٹے کا فوری شافی علاج ہنوز ہر جگہ دستیاب نہیں۔ اسکی موت بڑی اذیت ناک ہوتی ہے۔ خدا سب کو محفوظ رکھے‘ آوارہ کتوں کی محبت کے اسیر لوگوں کو کوئی پاگل کتا پڑ جائے۔
٭…٭…٭
عالمی تحفظ آب و گلیشیئر دنیا بھر میں منایا گیا۔
ہمارے لئے شرم سے پانی پانی ہونے یا شرم سے چلو بھر پانی میں ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ ایک ایسا ملک جو آبی وسائل سے محروم نہیں‘ جہاں دنیا کا سب سے بڑا اور بہترین نہری نظام موجود ہے‘ سات آٹھ سے زیادہ دریا بہتے یں‘ موسم بھی چار ہیں‘ برسات بھی ہوتی ہے‘ سیلاب آتا ہے‘ پہاڑوں پر سردیوں میں جم کر برفباری ہوتی ہے‘ دنیا کے سو بڑے بڑے گلیشیئر ہمارے پاس ہیں‘ مگر کفران نعمت کی وجہ سے قدر نہ کرنے کی وجہ سے دریائوں اور نہروں میں بہنے والے اور سیلاب کے پانی کی بڑی مقدار سٹوریج نہ ہونے کی وجہ سے سمندر میں بہہ کر ضائع ہوجاتی ہے۔ ڈیم ہم سے بنتے نہیں‘ ذرا خشک سالی رنگ جمائے تو دھڑا دھڑ ٹیوب ویلوں سے پانی نکال کر ہم زیرزمین پانی کی سطح خطرناک حد تک گرا چکے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی تباہ کاری دیکھنا ہے تو منگلا میں پانی کم ہونے کے بعد وہاں نمودار ہونے والے پرانے علاقے‘ محلے جا کر دیکھ لیں جو دلدل میں خشک ہوتے میدانوں میں ہمیں درس عبرت دے رہے ہیں کہ سنبھل جائو‘ تربیلا میں بھی پانی کی سطح گر رہی ہے‘ ستلج‘ بیاس اور راوی کا پانی بھارت پی چکا ہے‘ اب تو جہلم اور دریائے سندھ پر بد نظریں گاڑے ہوئے ہے۔ اب بھی اگر ماحولیاتی عوامل کو سنجیدگی سے نہ لیا گیا تو سندھ اور پنجاب کا ایک وسیع رقبہ چولستان اور تھر کی طرح بنجر ہو جائیگا جہاں دانت کریدنے کیلئے ایک تنکا بھی دستیاب نہ ہوگا۔ ہمیں نہریں ہوں یا تالاب‘ یاڈیم بہرصورت جلد از جلد بنانے ہونگے۔ گلیشیئر موسم کی حدت بڑھنے کی وجہ سے تیزی سے گھٹ رہے ہیں‘ پگھل رہے ہیں‘ یہ وقت سیاست کرکے نمبر بنانے کا نہیں‘ ملک و قوم کے مستقبل کیلئے پانی کا تحفظ یقینی بنانے کا ہے۔
٭…٭…٭