نیا سال آیا، نیا سال آیا

پیارے پڑھنے والے ایک بارپھر کیلنڈر پرایک ہندسے کی تبدیلی کا آغاز ہونے کو ہے۔دنیا بھر میںسال ۲۰۲۴  الوداع ہو رہا ہے اور سال ۲۰۲۵کے استقبال کی بھرپورتیاریاں ہو رہی ہیں۔لیکن ملک عزیز میں عام آدمی کولہو کے بیل کی سی زندگی گزار رہا ہے ،انتہائی مشکل سے سانس کی ڈور کو قائم رکھے ہوئے ہے،  معاش کی چکی میں بری طرح پس رہا ہے،  روزمرہ کے مسائل میں اتنا الجھا ہوا ہے کہ اس کو  اس ہندسہ کی تبدیلی سے کوئی لینا دینا نہیں۔کیونکہ
یاں کے سپید و سیہ میںہم کو دخل جو ہے سو اتنا ہے
رات کو رو  رو  صبح کیا اور دن کو جوں توں شام کیا
کچھ بھی ہو نو دولتیے اور نام نہاد اشرافیہ نئے سال کے استقبال کا جشن منانے کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ مغرب کی اندھی تقلید میںبڑے شہروں میںبے لگام طبقہ جشن کے نام پر طوفان بدتمیزی برپا کرے گا،نام نہاد شرفاء  رنگ و نور کی محفلیں سجائیں گے، قانون نافذ کرنے والے ادارے فرائض کی بجا آوری کی ناکام کوششیں جاری رکھیں گے ، مبارکیںلینے اور دینے کا سلسلہ بھی جاری رہے گا اور یوں نئے سال کا آغاز ہو جائے گا۔عام آدمی اس رات بیٹھا ضرور سوچتا ہے کہ
بے سبب دیتے ہیں کیوں لوگ مبار ک بادیں
اے نئے سال بتا ، تجھ میں نیا پن کیا ہے
ہر طرف خلق نے کیوں شور مچا رکھا ہے
کیونکہ عام آدمی کے لیے تو
روشنی دن کی وہی،تاروں بھری راتیں بھی وہی 
آج ہم کو نظر آتی ہے ہر ایک بات وہی 
 آسماں بدلا ہے افسوس ، نہ  بدلی ہے زمیں
ایک ہندسے کا  بدلنا کوئی جدت تو نہیں
او راس معصوم خواہش کا بھی اظہار کرتا ہے کہ اے نئے سال
تو نیا ہے تو دکھا صبح نئی  ،  شامیں نئی
ورنہ ان آنکھوں نے دیکھے ہیں نئے سال کئی
لیکن اسے یہ بھی معلوم ہے کہ ابھی امتحانات باقی ہیں ،خاکم بدہن شاید نئی صبح اور نئی شام کی امید دیوانے کا خواب ہی رہے۔کیونکہ عوام کی فلاح و بہبود کے لیے اقدامات ابھی حکمران طبقہ اور اشرافیہ کی ترجیحات میں شامل نہیں اور نہ ہی مستقبل قریب میں کوئی امید کی جا سکتی ہے۔ غریب آدمی کا دکھ وہ فرد کیسے جان سکتا ہے جس نے زندگی میں کبھی غربت کا کڑوا ذائقہ نہیں چکھا۔ ائیر کنڈیشنڈ کمروں میں میں بیٹھنے والوں کو سردی کی شدت اور گرمی کی حدت کیسے معلوم ہوگی ،لگژری گاڑیوں میں سفر کرنے والوں کو چنگ چی کے سفر کے جھٹکوں کی بھلا کیا خبر،  مہنگے نجی ہسپتالوں میں علاج کروانے والوں کو اگر سرکاری ہسپتالوں میں لمبی قطاروں میں لگ کر مسیحائوں کی تلخ جھڑکیوں کا سامنا کرنا پڑے ،خالی جیب کے ساتھ مہنگی ادویات خریدنا پڑیں اور تشخیص کے لیے کئی ماہ کا انتظار کرنا پڑے تو پھر شائد غریب آدمی کی قسمت بدلنے کے فیصلے ہوجائیں۔لیکن یہ سب بھلا کون اور کیوں کرے گا۔جب غریب کی آہیں اور چیخیں اقتدار کے ایوانوں تک نہیںپہنچیں گی توحکمرانوں کے دائیں بائیں چاپلوس  طبقہ سب اچھا ہے کی آواز دے گے اور حکمران طبقہ یہی سمجھے گاکہ ہر طرف خوشحالی ہی خوشحالی ہے۔ مورخین لکھتے ہیں کہ حکمران بھیس بدل کر عوام میں چلے جاتے تھے تاکہ ان کے مسائل سے آگاہ ہو سکیں ۔برا  ہو نو آبادیاتی نظام کے فرسودہ پروٹوکول کے نظام کا جس نے حکمرانوں کو عوام سے دور کر دیا۔سیاستدانوں سے باادب  درخواست ہے کہ اگر اقتدار کی رسہ کشی سے  فرصت مل جائے تو غریبوں کے بارے میں بھی کچھ سوچیں کیونکہ یہ ہیں تو آپ کا اقتدار قائم ہے۔ میڈیا کی ذمہ داری تھی کہ وہ عوام کی آواز بنتا لیکن ریٹنگ کی گندی دوڑ نے اسے چسکے دار خبروں میں الجھا دیا ہے۔ اب تو عوام کا اللہ ہی حافظ ہے۔حالات کتنے ہی مشکل ہو ں رب کائنات کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے ۔اس لیے بہتر یہ ہے کہ عام آدمی اللہ رب العزت کی بارگاہ میں جھک جائے اور حالات کی بہتری کے لیے    دعا ئوں سے سال نو کا آغاز کرے ۔ اللہ پاک مملکت خدا داد کو اندرونی اور بیرونی دشمنوں کی سازشوں سے محفوظ رکھے۔یہ بھی دعا ضرورکریں کہ
خدا کرے میری ارض پاک پر اترے 
وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو
خدا کرے میرے ایک بھی ہم وطن کے لیے 
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو
شاید کہ شب و روز بدل جائیںاور نئے سال کے اختتام پر ہر کوئی یہ کہے کہ یہ سال بہت اچھا رہا۔

قاضی عبدالرئوف معینی 

ای پیپر دی نیشن