جنرل ضیاء الحق مرحوم اور جنرل پرویز مشرف مرحوم ہماری تاریخ کے وہ جنرلز تھے جن کے کارناموں پر قوم کو بہت سے اعتراضات ہیں۔یہ اعتراضات صحیح ہیں یا غلط اس کا فیصلہ تو تاریخ کرے گی لیکن ان کی کچھ خوبیاں میری نظر میں ایسی بھی ہیں جن کے لئے قوم کو ان کا شکر گزار ہونا چاہئے۔ دونوں بڑے دلیر اور مضبوط اعصاب کے مالک تھے۔ جہاں قوم کے مفادات کی بات آئی دونوں ڈٹ گئے۔ ان دونوں نے نیوکلیئر پروگرام کی اپنے بچوں کی طرح حفاظت کی ۔ کچھ بڑی طاقتوں کی طرف سے شدید مخالفت کے با وجود انہوں نے نیوکلیئر پروگرام پایہ تکمیل تک پہنچایا۔سب سے بڑا مخالف امریکہ تھا۔وہ نہیں چاہتا تھا کہ پاکستان ایٹمی طاقت بنے اور یہ مخالفت آج تک جاری ہے لیکن ضیاء الحق نے بہت ہوشیاری سے امریکہ کو اپنے پروگرام سے دور رکھا جبکہ یہاں کام زور شور سے جاری رہا اور بالآ خر اس مخالفت کے باوجود مقصد حاصل کر لیا گیا اور پاکستان اللہ کے فضل سے دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت بن گیا۔
امریکہ کے علاوہ بھارت اور اسرائیل بھی بہت بڑے دشمن تھے۔ ان دونوں ممالک نے کئی دفعہ کہوٹہ پر عراقی اوزیراک کی طرح بم باری کرنے کا پروگرام بنایا۔ دونوں ممالک نے ریہرسل بھی کی ۔ اسرائیلی F-16اور F-15بھارتی ائیر بیسز پر آبھی گئے۔ بھارت نے اپنی طرف سے بم باری کے لئے خصوصی طور پر جیگوار طیارے تیار کئے۔ Combat Collegeمیں کئی دن ریہرسل کی گئی لیکن ضیاء الحق نے اُن کے وہ پسینے نکلوائے کہ دونوں کو آخری لمحے اپنا پروگرام ملتوی کرنا پڑا۔
جب پرویز مشرف اقتدار میں آیا تو بھارتی اسمبلی پر دہشت گردی کا حملہ ہوا ۔ بھارت نے فوری طور پر الزام پاکستان پر لگا دیا۔ جواب میں پاکستان پر حملہ کر کے پاکستان کو سبق سکھانے کا فیصلہ کیا گیا۔ ’’آپریشن پاراکرام‘‘ کے نام پر بھارت اپنی فوج پنجاب اور آزاد کشمیر بارڈر پر لے آیا۔ جواباً مشرف بھی بے خوف و خطر اپنے سٹرائیک ڈویژنز بارڈر پر لے گیا۔ اپنے نیوکلیئر ہتھیار بھی تیار رکھنے کا حکم دے دیا۔ نیوکلیئر ہتھیاروں کی تیاری امریکی سیٹلائٹ نے نوٹ کی تو امریکہ نے ہندوستان کوبڑی تباہی کی وارننگ دی تو ہندوستان کی ہمت جواب دے گئی۔وہ اپنی فوج واپس لے گیا۔
مشرف نے کارگل آپریشن اس لئے ترتیب دیا کہ وہ بھارت کی سیاہ چین کے ساتھ سپلائی لائن کاٹنا چاہتا تھا۔اس دوران ایک حیران کن واقعہ یہ ہوا کہ مشرف کئی میل بھارت کے اندر گیا اپنے ٹروپس کو بھارت میں شاباش دی ۔ رات اُن کے ساتھ رہا لیکن بھارتیوں کو پتہ بھی نہ چلا۔ وہ اب پچھتاتے ہیں کہ مشرف کو کیوں نہ پکڑ سکے۔ کارگل آپریشن صحیح تھا یا غلط اس کا فیصلہ بھی تاریخ دان ہی کریں گے لیکن تھا بہت دلیرانہ ایکشن۔ ہمارے پانچ ہزار مجاہدین کے مقابلے میں بھارت اپنے تیس ہزار سولجرز لایا۔ تین ماہ ٹکریں ماریں۔یہ اُن کا اپنا علاقہ تھا لیکن پھر بھی اپنی پوسٹیں واپس نہ لے سکا۔ پاکستان نے بھارت کے تین جہاز گرائے ۔ تین سو آدمی مارے گئے اور تقریباً پندرہ سو کے قریب زخمی ہوئے۔ اگر امریکہ پریشر نہ ڈالتا تو شاید اس آپریشن کا نتیجہ کچھ اور ہوتا۔
جنرل مشرف کا سب سے بڑا کارنامہ ڈاکٹر اے کیو خان اور اپنے ایٹمی پروگرام کی حفاظت تھی۔ ہوا یہ تھا کہ ضیاء الحق مرحوم تو امریکیوں کو مختلف بہانوں سے ٹالتا رہا اور اپنا پروگرام مکمل کیا۔نیوکلیئر پروگرام کے لئے ہمیں بہت سی قربانیاں دینی پڑیں۔ اس پروجیکٹ کا پہلا شکار جناب بھٹو صاحب ہوئے جنہوں نے یہ پروگرام شروع کیا تھا۔ دوسرا شکار ضیاء الحق بمعہ آدھا درجن جنرلز۔تیسرا شکار ڈاکٹراے کیو خان صاحب تھے جنہیں راستے سے ہٹانے کے لئے اُن پر ٹیکنالوجی چوری کا الزام لگا کر یورپ میں مقدمہ دائر کیا گیالیکن اللہ تعالیٰ کو پاکستان کی بہتری منظور تھی لہٰذا ڈاکٹر صاحب وہاں سے با عزت بری ہو گئے اور یوں اس پراجیکٹ پر کام جاری رہا۔
11اور13 مئی 1989ء کو بھارت نے ’’پوکھران‘‘ میں پانچ نیوکلیئر دھماکے کئے تو پاکستانی قوم جوش میں آگئی ۔ ہر طرف سے آوازیں آنے لگیں کہ بھارت کو ایٹمی دھماکوں کے ذریعے جواب دیا جائے۔ جناب نواز شریف صاحب وزیر اعظم تھے۔ امریکہ یہ سارے حالات مانیٹر کر رہا تھا تو امریکیوں نے نواز شریف کو جوابی دھماکوں سے روکنے کے لئے مختلف قسم کے لالچ دینے شروع کئے لیکن قوم ان باتوں سے مطمئن نہ تھی۔ فوج سمیت پوری قوم جوابی دھماکوں کے لئے متحد تھی۔ سب سے اہم کردار جناب مجید نظامی صاحب( مرحوم) نے ادا کیا ۔ انہوں نے نواز شریف کو وارننگ دی کہ ’’اگر آپ دھماکے نہیں کریں گے تو قوم آپ کا دھماکہ کر دے گی‘‘ مجید نظامی صاحب کی یہ دھمکی کام دکھا گئی اور بالآخر28مئی 1989ء کو ’’یومِ تکبیر‘‘ کے نام پر دھماکے کر دئیے گئے۔ قوم کی خوشی اُس دن دید نی تھی۔
نواز شریف کو امریکیوںکا حکم نہ ماننے کی سزا کے طور پرنااہل کرا دیا گیا اور آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے مارشل لاء لگا کر اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ اب امریکیوں کو پکا یقین تھا کہ وہ پرویز مشرف سے باتیں منوا لیں گے۔ انہیں امداد اور ہتھیار دئیے۔ انہیں ’’فرنٹ لائن اتحادی ‘‘قراد دیا۔ مزید انہیں امریکی بات نہ ماننے پر پاکستان کو پتھر کے زمانے میں پہنچا دینے کی دھمکی دی گئی۔ ظاہری طور پر تو مشرف نے اس دھمکی کا جواب نہیں دیالیکن انہیں اندازہ ہو گیاکہ امریکہ کو نہ ماننے کا کیا نتیجہ ہو سکتا ہے۔ اب امریکہ نے منصوبہ بنایا کہ پاکستان سے ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور اس کی ٹیم کو امریکہ لا کر سزادی جائے۔ لہٰذا انہوں نے ڈاکٹر صاحب پر 48کروڑ روپے لے کر کچھ ممالک کو نیوکلیئر ٹیکنالوجی فروخت کرنے کا الزام لگایا۔
2001ء میں انہوں نے جہاز بھیجا کہ جیسا بھی ہو ڈاکٹر صاحب کو پکڑ کر لے آئیں۔ مشرف کو کہا گیا کہ ڈاکٹر صاحب کو پکڑ کرفوری ہمارے حوالے کریں۔اس موقع پر مشرف کی دلیری اور ذہانت کام آئی ۔ مشرف ڈاکٹر صاحب کے پاس گیا اور اُسے سارے حالات سے مطلع کیا ۔ ڈاکٹر صاحب سے گزارش کی کہ اگر آپ پاکستان کے لئے تھوڑی قربانی دیں تو ہم آپ کو ناتو امریکہ کے حوالے کریں گے اور نہ ہی اپنا نیوکلیئر پروگرام تباہ ہونے دیں گے۔ ڈاکٹر صاحب پاکستان کے لئے سب کچھ مان گئے۔ لہٰذا انہیں ٹی وی پر لا کر نیوکلیئر ٹیکنالوجی پھیلانے کا الزام قبول کرایا اور ڈاکٹر صاحب نے قوم سے معافی بھی مانگی۔ اب مشرف نے اپنی چال چلی اور امریکی جہاز کو یہ کہہ کر خالی واپس بھیج دیا کہ’’ ڈاکٹر صاحب پاکستان کا مجرم ہے یہ ہماری سیکورٹی کا مسئلہ ہے ۔ اس نے ہمارے ملک کو نقصان پہنچایا ہے لہٰذاپہلے ہم خود اس کی انکوائری کریں گے اوراُسے سزادیں گے۔‘‘ ڈاکٹر صاحب کو فوری طور پر عہدے سے ہٹا دیا گیا لیکن دوسرے دن اُن کی غلطی معاف کر کے انہیں ایڈوائزر مقرر کر دیا گیا۔
اب مشرف کو پتہ چلا کہ امریکہ ڈاکٹر صاحب کو مروانا چاہتا ہے تو مشرف نے ڈا کٹر صاحب کو گھر میں نظر بندکر دیااور انکے گھر پر کمانڈوز تعینات کر دئیے۔ تو مشرف نے یوں ڈاکٹر صاحب اور نیوکلیئر پروگرام دونوں بچا لئے۔ لوگ اب بھی سمجھتے ہیں کہ مشرف نے ڈاکٹر صاحب کے ساتھ زیادتی کی لیکن اصل کہانی کچھ اور تھی۔ پاکستان زندہ باد!