اب ہر گوشت برآمد کنندہ ملک کو ہر مویشی کی شناخت (Identification) اور گوشت کے سلسلہ رسد میں اس کے سراغ (Traceability) کا نظام نافذ کرنا پڑے گا بصورت دیگر وہ بہترین قیمت پر بڑے آرڈر دینے والے ممالک مثلاً چین، جاپان، جنوبی کوریا، سوئٹزرلینڈ، تھائی لینڈ، ویتنام، سنگا پور، ہانگ کانگ اور یورپین یونین وغیرہ میں گوشت برآمد نہیں کر سکیں گے۔
شناخت و سراغ کے نظام کے نفاذ کیلئے ہم یوروگوائے کو رہنما تصور کر سکتے ہیں جہاں یہ نظام 2007 میں پارلیمنٹ میں قانون سازی کر کے حکومت کی قوت کے ساتھ نافذ کیا گیا اور آج یوروگوائے کا ہر گائے بچھڑا شناخت و سراغ کے نظام میں رجسٹرڈ ہے اور یوروگوائے 40 ملکوں کو بڑا سرخ گوشت برآمد کر رہا ہے اور بہت تیزی سے بین القوامی منڈیوں میں اضافہ کرتا جا رہا ہے۔
تجویز ہے کہ پاکستان میں بھی پارلیمنٹ میں قانون سازی کرتے ہوئے ہر مویشی کی شناخت (Identification) و سراغ (Traceability) کا نظام نافذ کر دیا جائے۔ اس نظام کے کلی اور حقیقی نفاذ کی بنا پر ہی پاکستانی بڑے سرخ گوشت (بیف) کو بین القوامی سطح پر حلال، صحت مند اور محفوظ ہونے کی قبولیت ملے سکتی اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ اور اکثر ممالک کی گوشت کی تجارت کے پروٹوکول کی یہ پہلی اور بنیادی شرط ہے۔
اس بنیادی ضرورت کیلئے پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ نے کچھ سالوں سے بین القوامی ادارہ FAO کے اشتراک میں ایک نظام بنام پاکستان انیمل ائڈینٹیٹی اینڈ ٹریس ایبیلیٹی سسٹم (PAITS) نفاذ کے تمام لازموں کے ساتھ بنا رکھا ہے لیکن بات تجرباتی نفاذ سے بات آگے نہیں بڑھ سکی۔ اور رضا کارانہ طور پر اس کا کلی اور حقیقی نفاذ نا ممکن ہے۔ اور اگر جزوی طور پر اس کا نفاذ ہو بھی گیا تو بین القوامی سطح پر اس کی قبولیت نہیں ہو پائے گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس نظام کو پارلیمنٹ میں قانون سازی اور حکومت کی قوت نافذہ کے ساتھ پورے ملک کی سطح پر نافذ کیا جائے۔ مزید براں بین القوامی اداروں دی انٹرنیشنل کمیٹی فار انیمل ریکارڈنگ ICAR اور گلوبل فوڈ ٹریس ایبیلیٹی سنٹر سے بھی اس کی توثیق کروا لی جائے۔ گوشت کے سلسلہ رسد کے اس اساسی نظام کے نفاذ کے بغیر پاکستان کی بڑے سرخ گوشت کی برآمد میں کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں ہو سکے گا۔ کسی ملک میں گوشت مویشیوں کی متعدی بیماروں کا موجود ہونا یا پھوٹ پڑنا اس ملک کی گوشت برآمد کو بہت بری طرح متاثر کرتا ہے اور اکثر ممالک ایسے ملک سے گوشت درآمد کرنے پر پابندی لگا دیتے ہیں۔ گوشت مویشیوں کی سب سے معروف متعدی بیماری منہ کھر (Foot-and -Mouth Disease) جس کے بارے ہم سب جانتے ہیں۔ اکثر ممالک نے منہ کھر بیماری کے خطرات والے ممالک سے بڑا سرخ گوشت برآمد کرنے پر پابندی لگا رکھی ہے۔ اور پاکستان کا شمار بھی منہ کھر بیماری کے خطرات والے ممالک میں ہوتا ہے چنانچہ ہر وقت دھڑکا لگا رہتا ہے کہ جن دو چار ملکوں میں ہم گوشت برآمد کر رہے ہیں وہ نہ کہیں پاکستان پر پابندی لگا دیں۔ منہ کھر و دیگر متعدی بیماریوں سے پاک ملک ڈیکلئیر ہونے تک پاکستان کی بڑے سرخ گوشت کی برآمد محدود ہی رہے گی۔ تجویز ہے کہ ہنگامی بنیادوں پر ملک کو منہ کھر بیماری سے پاک کرنے کیلئے ویکسینیشن کے قومی پروگرام پبلک پرائیوٹ شراکت میں شروع کئے جائیں۔
اس سلسلہ میں لائیو سٹاک اینڈ ڈیری ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ پنجاب نے بین القوامی ادراہ FAO کے اشتراک میں سال 17- 2016 سے بہاولپور ڈویژن کو منہ کھر فری زون بنانے کیلئے منہ کھر بیماری کی ویکسینیشن کا پروگرام شروع کر رکھا جس کی دوسری سٹیج مکمل کر لی گئی ہے۔ اگر پنجاب حکومت فنڈز فراہم کر دے تو باقی ماندہ پروگرام مکمل کر کے بہاولپور ڈویژن کو ورلڈ آرگنائزیشن فار انیمل ہیلتھ (WOAH) و دیگر متعلقہ بین القوامی اداروں سے منہ کھر فری زون ڈیکلئیر کروایا جا سکتا ہے جو ساری دنیا کیلئے قابل قبول ہو گا۔ مزید براں ہر قسم کی متعدی بیماریوں کو جڑ سے اکھاڑ پھیکنے اور پھوٹنے سے روکنے کیلئے بایو سیکورٹی کا نظام سب سے موثر ہے۔ مزید برآں مویشیوں کی فارم سے فارم، فارم سے منڈی یا فارم سے مذبحہ کو قوائد ضوابط کے تحت لانا ہو گا جس کیلئے اکثر ممالک نے اپنے ہاں پاسپورٹ کا نظام رائج کر رکھا ہے۔ متعدی بیماروں کی روک تھام میں بنیادی کردار انیمل ہسبینڈری کمشنر / چیف ویٹرینری افیسر آفس کا ہے۔ پاکستان میں اس آفس کے کردار کو بہت موثر اور جوابدہ کرنا ہو گا۔
پاکستان میں منہ کھر کی بیماری کو ختم کرنے کیلئے ہم پھر یوروگوائے کے پروگرام کو رہنما تصور کرتے ہوئے بہت جلد بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ یوروگوائے نے اپنے شناخت و سراغ پروگرام کی مدد سے ملک بھر میں منہ کھر کی ویکسینیشنز کے پروگرام کو ممکن بنایا۔ پاکستان میں بھی متعدی بیماروں کا خاتمہ بایو سیکورٹی، مویشیوں کی شناخت و سراغ اور ان کی نقل و حرکت کے نظام کو نافذ کے بغیر ممکن نہیں ہو پائے گا۔ چنانچہ ان کے نفاذ اور نگرانی کیلئے ضروری قانون سازی اور متعلقہ عملہ کی تربیت کا سائنٹیفک بنیادوں پر فوری اہتمام کیا جانا چاہئے بصورت دیگر ہماری بڑے سرخ گوشت کی برآمدات سرخ خطرے کے نشان پر ہی رہیں گی۔
ہر کاروبار کیلئے اس کی لوکیشن، علاقہ اور محل وقوع بہت اہم ہوا کرتا ہے اور اکثر کاروباروں کے ناکام ہونے کی ایک بڑی وجہ ان کیلئے غلط لوکیشن، علاقہ اور محل وقوع کا انتخاب ہے۔ مزید برآں حکومتیں کسی صنعت یا انڈسٹری کو فروغ دینے اور اس کیلئے ضروری سہولتیں فراہم کرنے کیلئے موزوں ترین علاقہ میں انڈسٹریل سٹی، صنعتی زون یا انڈسٹریل پارک قائم کرتی ہے۔ بلکل اسی طرح بڑے سرخ گوشت کی پیداوار کے لئے دنیا بیف ڈویژن قائم کرتی ہے۔ پاکستان میں بڑے سرخ گوشت کی پیداوار کے حوالہ سے بہاولپور ڈویژن بشمول چولستان سب سے موزوں ترین لوکیشن، علاقہ اور محل وقوع ہے۔ ساہیوال اور چولستانی نسل کے دیسی گائے بچھڑے جو گوشت کیلئے موزوں ترین ہیں اسی علاقہ میں پائے جاتے ہیں۔ اکثر دیہاتی خاندان گائے بچھڑے رکھتے اور پالتے ہیں۔ چارہ جات اور چراہ گاہوں کیلئے زمیں اور ماحول موزوں ترین ہیں۔ مزید براں منہ کھر فری زون کیلئے حکومت ویکسینیشن کی دوسری سٹیج مکمل کر چکی ہے۔
تجویز ہے کہ قانونی و انتظامی طور پر بہاولپور ڈویژن کو بیف ڈویژن ڈیکلئیر کر دیا جائے۔ متعلقہ وزارتیں اور ان سے منسلک ادارے پبلک پرائیویٹ شراکت میں انفراسٹکچر اور سہولتیں فراہم کریں تاکہ بڑے سرخ گوشت کے سلسلہ رسد سے متعلق تمام کاروبار مثلاً بریڈنگ، کاو،کالف آپریشن، بیک گراونڈگ چرآہ گاہیں، فربہ گاہیں، میٹ پیکنگ ہاوسز، فیڈ ملیں اور ان سے متعلق خدمات فراہم کرنے والے تمام کاروبار اسی ڈویژن میں قائم ہو سکیں۔ (جاری)