24 مارچ بروز سوموار ریپلکن پارٹی کے راہنما جوولسن اور ڈیموکریٹس کے لیڈر جمی پینیٹا نے باہم ملکر امریکی ایوان نمائندگان میں پاکستان ڈیموکریسی ایکٹ کا بل متعارف کروایا ہے جو خارجہ امور اور جوڈیشری کمیٹی کے سپرد کیا گیا ہے مجوزہ قانون میں تجویز کیاگیا ہے کہ اگر پاکستان میں 180 دنوں کے اندر انسانی حقوق کی صورتحال میں بہتری نہیں آتی تو آرمی چیف اور دیگر اعلی حکام پر غیر ملکی سفری پابندیاں عائد کی جاسکتی ہیں۔
گزشتہ سال جون 2024ء میں بھی امریکی ایوان نمائندگان میں اس سے ملتی جلتی قرارداد منظور کی گئی تھی جسے دونوں پارٹیوں ریپلکن اور ڈیموکریٹس نے باہم ملکر سپورٹ کیا تھا جس کے بعد صدر جوبائیڈن نے پاکستان پر دباؤ ڈالا تھا کہ جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنایا جائے اگرچہ جوبائیڈن انتظامیہ نے اس سلسلہ میں کوئی ٹھوس عملی قدم نہیں اٹھایا تھا۔
گزشتہ برس ہونے والے قومی و صوبائی اسمبلی کے انتخابات سے لیکر آج تک مجموعی سیاسی صورتحال پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی ایک نہ ختم ہونے والی داستان ہے۔سابق وزیراعظم عمران خان سمیت متعدد سیاستدان جیلوں میں قید ہیں۔صحافیوں کی زبان بندی کیلئے پیکا کے قانون میں بنیادی انسانی حقوق سے متصادم ترامیم کرکے حرف حق کہنے والے صحافیوں کیلئے بہت ساری مشکلات پیدا کردی گئی ہیں.بلوچستان کے عوام کے جائز مطالبات کو پورا کرنے کی بجائے ان کیخلاف طاقت کا استعمال کیا جارہا ہے۔55 فیصد عوام غربت کی لکیر سے نیچے افلاس کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔گویا سیاسی قیدیوں کی رہائی آزادی صحافت کی بحالی‘ بلوچستان میں امن و سلامتی کا قیام اور پاکستانی عوام کو انکے بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی وہ تمام وجوہات ہیں جو امریکی ایوان نمائندگان میں پاکستان ڈیموکریسی ایکٹ کے متعارف ہونے کا سبب بنی ہیں۔
مجوزہ قانون کے ڈرافٹ کیمطابق امریکی انتظامیہ کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ ایسے تمام پاکستانی آفیشلز کا امریکہ میں داخلہ روک دے جو سیاسی مخالفین کو دبانے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث ہیں۔ تاہم اس قانون میں امریکی صدر کو یہ اختیار بھی دیا گیا ہے کہ اگر انتظامی معاملات میں فوجی مداخلت ختم ہوجاتی ہے اور گرفتار سیاسی قیدی رہا ہوجاتے ہیں تو امریکی صدر یہ پابندیاں ختم کر دیں گے۔
مجوزہ قانون پر عملدرامد کیلئے امریکن گلوبل مگنیسٹکی ہیومن رائٹس اکاؤنٹیبلیٹی ایکٹ 2012ء کا سہارا لیا جائے گا جو روس کے قانون دان اور نامور وکیل سرجء میگنسٹکی کے نام سے منسوب ہے جنہوں نے روسی حکومت کی کرپشن اور بدعنوانی کا پردہ چاک کیا تھا جس کے بعد 2008ء میں انھیں گرفتار کر لیا گیا اور ماسکو کی بٹیارکہ جیل میں تشدد کرکے ہلاک کر دیا گیا۔دسمبر 2012ء میں باراک اوبامہ کے دور اقتدار میں روس کے ان تمام آفیشلز کو سزا دینے کیلئے جو میگنیسٹکی کے قتل میں ملوث تھے میگنیسٹکی ایکٹ کی امریکی ایوان نمائندگان سے منظوری حاصل کی گئی جسکے بعد نہ صرف میگنیسٹکی کے قتل میں ملوث آفیشلز پر سفری پابندیاں عائد کی گئیں بلکہ یورپین کورٹ آف ہیومن رائٹس کی مشترکہ رولنگ میں 7 رکنی ججز نے رولنگ دیتے ہوئے میگنیسٹکی کی والدہ اور بیوی کے حق میں 34 ہزار یورو کی ڈگری جاری کی. سال 2018ء میں امریکہ نے اسی قانون کے تحت سعودی عرب کے17 فوجی آفیشلز پر سفری پابندیاں عائد کی تھیں جو سعودی صحافی جمال خشوگی کے قتل میں ملوث تھے۔امریکہ اسی قانون کا سہارا لیتے ہوئے کینیڈا،وینزویلا اور سوڈان کے آفیشلز اور روس کے تقریبا 30 آفیشلز پر سفری پابندیاں عائد کر چکا ہے جو امریکہ میں داخل ہونے سے قاصر ہیں۔
پاکستان ڈیموکریسی ایکٹ کے پس پردہ امریکہ کیا کھیل کھیلنا چاہتا ہے۔اسے بھی نظر انداذ نہیں کیا جاسکتا؟ مجوزہ قانون کا خطرناک پہلو یہ بھی ہے کہ اس ایکٹ کے ذریعے امریکہ پاکستان کی قومی سلامتی کے اداروں پر حملہ آور ہوکر انکو کمزور کرنا چاہتا ہے تاکہ پاکستانی اعلی حکام کو چین کی بجائے امریکی مفادات کیلئے پالیسی شفٹ پر مجبور کیا جائے۔ دوسرے الفاظ میں پینٹاگون کی ڈکٹیشن کو من وعن تسلیم کرانا مقصود ہے.قومی سلامتی کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو مجوزہ قانون ریاست پاکستان کی خود مختاری میںمداخلت ہے۔اقوام متحدہ کیانسانی حقوق کے چارٹر کے آرٹیکل 2 کی کلاز 4 کی خلاف ورزی ہے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ کوئی بھی ریاست کسی بھی خود مختار ملک کے سیاسی و فوجی معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتی۔ویانا کنونشن کی بھی خلاف ورزی ہے جس میں اس بات کا اعادہ کیا گیا ہے کہ سفارتی اصول و ضوابط کیمطابق کسی بھی ریاست کے اندرونی معاملات میں بیرونی مداخلت نہیں کی جاسکتی.مجوزہ قانون امریکی آئین کے آرٹیکل 8 کی بھی خلاف ورزی ہے کیونکہ امریکی آئین یہ اجازت نہیں دیتاکہ آپ دوسرے ممالک کے فوجی اور سیاسی معاملات میں دخل اندازی کریں۔یہ بل امریکی آئین کی پانچویں آئینی ترمیم کی بھی خلاف ورزی ہے جو یہ گارنٹی کرتی ہے کہ آپ کسی کو سزا نہیں دے سکتے جب تک گرینڈ جیوری اس باریے ٹرائل کرکے کسی کو قصوروار ڈکلئیر نہ کر دے!
پاکستان ڈیموکریسی ایکٹ ہماری سیاست اور قومی سلامتی کو کس حد تک متاثر کر سکتا ہے اس کو ایک ساتھ دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم انسانی حقوق کی پاسداری کرتے ہوئے سیاسی مخالفین کو دبانے کی بجائے ڈائیلاگ کا راستہ اختیار کرتے ہیں تو سیاست میں مثبت تبدیلی آسکتی ہے جس کے ذریعے عوام کے مسائل کو بھی حل کیا جا سکتا ہے۔ دوسری طرف مجوزہ قانون پاکستان کے اندرونی معاملات میں نہ صرف مداخلت کی کوشش ہے بلکہ ہماری خود مختاری کیلئے خطرہ بھی ہے .بلوچستان کے ایشو پر امریکہ اور بھارت ملکر جو گریٹ گیم تیار کر رہے ہیں یہ اس منصوبے کا اہم حصہ دکھائی دیتا ہے جس بارے ہمیں فکر مند ہونے کی ضرورت ہے۔ دوسرے الفاظ میں امریکہ جمہوریت بحالی کے نام پر ہماری مسلح افواج اور سیاسی اداروں کو اپنے کنٹرول میں کرکے بھارت کے تابع کرنا چاہتا ہے.گویا مجوزہ قانون جمہوریت بحالی کی بجائے پاکستان کا مکمل کنٹرول حاصل کرنے کا اعلان ہے۔بحیثیت پاکستانی ہمیں ایسے قانون کو مسترد کرنا چاہئے جو ہماری قومی سلامتی پر براہ راست حملہ ہو۔عالمی برادری اور ان تمام اقوام پر بھی یہ فرض عائد ہوتاہے کہ وہ ایسے مجوزہ قانون کو مسترد کریں جو خود مختاری اور سفارتی اصولوں کے منافی ہو۔بطور پاکستانی شہری ہم پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ ہم وطن عزیز کی سالمیت اور حق خود ارادیت کے تحفظ کی خاطر ایسی مداخلت کیخلاف کھڑے ہو جائیں۔
٭…٭…٭