پیکا ترمیمی ایکٹ کے تحت نام نہاد صحافیوں کے خلاف کاروائی 

بے نقاب       اورنگ زیب اعوان 

laghari768@gmail.com

گزشتہ چند دنوں سے ریاست مخالف بیانیہ بنانے والے صحافیوں کے خلاف بھرپور کاروائی کی جا رہی ہے. ان لوگوں کو صحافی کہنا بھی مناسب نہیں. کیونکہ صحافی کو ہر حال میں ضابطہ صحافت کی پاسداری کا پابند رہنا پڑتا ہے زرد صحافت کرنے والے صحافی کسی ضابطہ اخلاق کے تابع نہیں ہوتے. سوشل میڈیا کے خود ساختہ اور نام نہاد صحافی شعبہ صحافت کے رموز اوقاف سے ہی ناآشنا ہیں. ہر کوئی سوشل میڈیا پر بیٹھ کر دل میں جو آتا ہے. بول دیتا ہے. یہ سوچے سمجھے بنا. کہ اس کے اثرات کیا ہوگے. ملکی سلامتی اداروں کی تذلیل سے لیکر کسی بھی شخص کی عزت نفس کو مجروح کرنا یہ اپنا وطیرہ بنا لیتے ہیں. ان کے سننے اور چاہنے والے بھی بغیر تصدیق کے ان کی پوسٹوں اور وڈیوز کو آگے شیئر کرنا شروع کر دیتے ہیں. جس سے معاشرے میں افراتفری پھیلتی ہے. ان نام نہاد صحافیوں کی محب الوطنی کا معیار یہ ہے. کہ یہ دہشت گردوں کی حمایت میں لکھتے ہیں. کہ ملکی ادارے ان پر بڑا ظلم کر رہے ہیں. اس کو آزادی صحافت کا نام ہرگز نہیں دیا جاسکتا. مادر پادر آزادی کسی کے مفاد میں نہیں ہوتی. اس سے معاشرے میں انتشار پھیلتا ہے. ہر شعبہ زندگی کے کچھ ضابطہ اخلاق متعین کیے جاتے ہیں. تاکہ ان حدود و قیود میں رہ کر بہتر کام کیا جاسکے. ورنہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا ظالمانہ نظام رائج رہے گا. دنیا کو مہذب بنانے کے لیے موثر قوانین بنائے گئے ہیں. اور ان کی پاسداری کے لیے سخت سے سخت سزائیں بھی متعین کی گئی ہیں. پیکا ترمیمی آرڈیننس پر شور کرنے والے صحافیوں سے سوال ہے. کہ کیا ملک کے خلاف زہر اگلنا محب الوطنی ہے. کوئی بھی ملک اس بات کی اجازت نہیں دیتا. کہ اس کی سلامتی پر حملہ کیا جائے. ملکی ادارے بھی ملکی سلامتی کے لیے ہمہ وقت مصروف عمل رہتے ہیں. کوئی شخص چوری یا ڈاکہ ڈالے. تو کیا یہ اس کا قانون حق ہے. اسی طرح سے کوئی شخص کسی کو ناحق قتل کر دے. اور ادارے خاموش تماشائی بنے دیکھتے رہے. ہرگز نہیں. ملکی ادارے قانون شکنی پر حرکت میں آتے ہیں. اور مجرم کو قرار واقع سزا دلواتے ہیں. شعبہ صحافت ایک مقدس پیشہ ہے. جو لوگوں کو معلومات، نظریات، خیالات اس طرح پہنچتا ہے. کہ وہ ان کے علم میں اضافہ کا سبب بنے. ناکہ نفرت کے بیج بوئے. صحافی کو اپنا قلم بہت محتاط رہ کر استعمال کرنا چاہیے. کیونکہ قلم کا زخم اور نقصان بندوق کی گولی سے کئی گنا زیادہ ہوتا ہے.
بندوق کی گولی تو محض جسم پر زخم کرتی ہے. جبکہ قلم انسان کے ذہن پر وار کرتا ہے. جو چیز ذہن میں رچ بس جاتی ہے. وہ پھر نکلنا انتہائی مشکل ہوتا ہے. دہشت گرد کاروائیاں کرنے والے عناصر کے ذہن میں یہ بات بیٹھا دی جاتی ہے. کہ ملکی ادارے آپ کے ساتھ سخت زیادتی کر رہے ہیں. وہ ملکی اداروں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں. محب الوطن صحافیوں کو ان نام نہاد اور خود ساختہ صحافیوں کی پشت پناہی نہیں کرنی چاہیے. یہ لوگ معاشرے میں انتشار کا سبب بن رہے ہیں. ستی شہرت حاصل کرنے کے چکر میں ملکی سلامتی کو داؤ پر لگانا ہرگز عقل مندی نہیں. اگر کوئی غلط کرے گا تو پھر ملکی قوانین کے تحت سزا کا مستحق بھی ٹھہرے گا. پھر شور وویلا کیسا. پیکا ترمیمی ارڈینس جعلی صحافیوں کی سرکوبی کے لیے بنایا گیا ہے. جن کے ہاتھوں کسی کی عزت محفوظ نہیں. انہیں قانون کے تابع کرنے کے لیے ان کے خلاف ریاستی اداروں کی طرف سے کیا جانے والا آپریشن بالکل درست ہے. ملک بھر کی صحافی تنظیموں کو اپنی صفوں میں چھپی ہوئی کالی بھیڑوں کو نکال باہر کرنا چاہیے. یہ شعبہ صحافت کے منہ پر بد نما دھبہ ہیں. اپنے چہرے کی دلکشی اور خوبصورتی کے لیے ان بد نما دھبوں کو جڑ سے اکھاڑ پھیکنا ہو گا. کسی نام نہاد اور جعلی صحافی کی گرفتاری کا ہرگز یہ مطلب نہیں. کہ ملکی ادارے شعبہ صحافت کی تذلیل کر رہے ہیں. بلکہ وہ تو شعبہ صحافت میں چھپی ہوئی کالی بھیڑوں کو نکال باہر کر رہے ہیں. جو کام ہمیں بطور صحافی کرنا چاہیے. وہ ملکی ادارے سر انجام دے رہے ہیں. صحافت کے مقدس شعبہ سے چند سو نام نہاد جعلی صحافی باہر نکل جائے گے. تو قیامت نہیں آ جائے گی. بلکہ حق دار اور مستحق لوگوں کو شعبہ صحافت میں خدمات سرانجام دینے کا موقع میسر آئے گا. ہر محب الوطن صحافی کو ملکی اداروں کی طرف سے اس آپریشن کا خیر مقدم کرنا چاہیے. شعبہ صحافت کی تنزلی کا سبب یہی نام نہاد لوگ ہیں. کسی بھی شعبہ زندگی کی بربادی کا سبب اس میں موجود نام نہاد لوگ ہوتے ہیں. جن کی اپنی کوئی عزت نہیں ہوتی . وہ رہنے اس شعبہ زندگی کی بھی نہیں دیتے. اس لیے ان سے جتنی جلدی ہو سکے. چھٹکارا حاصل کر لینا چاہیے.

صحافی ہوگیا مرحوم صحافت مرگء کب کی
قلم اب جرآت اظہار رائے کو ترستا ہے

ای پیپر دی نیشن