ساڈی گل ہو گئی اے: اس باری ٹرمپ کس پہ بھاری 

گلوبل ویلج                
مطلوب احمد وڑائچ
matloobwarraich@yahoo.com
ویسے تو انتخابی مہم کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے کئی پٹاخے چھوڑ کے دنیا کو خبردار کر دیا تھا الیکشن جیتنے کے بعد انہوں نے ایسے دھماکے کیے کہ دنیا ہل کر رہ گئی۔بہت سے کہتے تھے کہ ٹرمپ ان کے گہرے دوست ہیں۔ ٹرمپ سے ہماری یاری ہے دوسرے لفظوں میں باور کرواتے تھے کہ” ٹرمپ نال ساڈی گل ہو گئی اے۔ساری دنیا ایک پاسے ٹرمپ ساڈے پاسے؟“ٹرمپ نے خاص طور پر ان کے ساتھ جو کر دیا وہ دیکھ کر کئی کے ہاسے نکل رہے ہیں۔جو کہتے تھے ساڈی گل ہو گئی اے اب ان کی بات بگڑ چکی ہے۔ان میں سر فہرست انڈیا ہے مودی کو ٹرمپ کے ساتھ ذاتی دوستی کا بہت زعم تھا۔ٹرمپ نے انڈیا کے ساتھ جو کر دیا ہے اور جو آئندہ ہونے جا رہی ہے۔وہ ان کے لیے اب بھیانک خواب بن چکا ہے۔
ویسے تو اور بھی کئی ہیں جو کہتے تھے کہ ہماری ٹرمپ کے ساتھ براہ راست بات ہو چکی ہے اور بلاواسطہ بھی ہو چکی ہے۔وہ بھی اب پریشاں، پریشاں سے نظر آتے ہیں۔جن کو ٹرمپ کے انے سے پہلے ہی خطرہ تھا کہ ٹرمپ ان کے ساتھ کیا کر سکتے ہیں ان کو جو خطرہ تھا وہی ٹرمپ نے ان کے ساتھ کر کے ان کے خدشات کو درست ثابت کر دیا ہے۔اگر سر دست کوئی ٹرمپ کی یلغار اور وار سے محفوظ ہے تو وہ کینیڈا ہے۔ٹرمپ نے کہا تھا کہ کینیڈا کو امریکہ کی 51 ویں ریاست بنائیں گے۔وہ شاید انہوں نے مذاق میں بات کی تھی لیکن کینیڈین انتظامیہ کا تراہ تو نکل گیا تھا۔اب انہیں اعلانات یا دعوو¿ں اور وعدوں کے مطابق صدارت سنبھالتے ہی ٹرمپ نے میکسیکو خلیج کو امریکہ خلیج کا نام دے دیا۔میکسیکو کے ساتھ تمام راستے مکمل طور پر بند کرنے کے اعلان پر بھی انہوں نے عمل شروع کر دیا۔یہ راستے غیر قانونی طور پر امریکہ میں داخل ہونے کے لیے استعمال کیے جاتے تھے۔ٹرمپ نے اپنے پچھلے دور میں طویل سرحد پر دیوار بنانے کا بھی اعلان کیا تھا اس کا زیادہ تر حصہ تعمیر ہو چکا ہے جہاں پہ تعمیر ان کے دور میں ہو چکی تھی جو بائیڈن نے وہیں پر روک دی۔ اب وہیں سے دوبارہ سے اس دیوار کی تعمیر کا اغاز ہو چکا ہے۔میکسیکو اور امریکہ کے درمیان سرحد 3,145 کلومیٹر طویل ہے۔ یہ دنیا کی طویل ترین بین الاقوامی سرحدوں میں سے ایک ہے اور چار امریکی ریاستوں (کیلیفورنیا، ایریزونا، نیو میکسیکو، اور ٹیکساس) اور چھ میکسیکن ریاستوں کے درمیان واقع ہے۔
ٹرمپ نے کہا تھا کہ اس دیوار کی تعمیر کے اخراجات بھی میکسیکو سے لیں گے۔بعد ازاں یہ اخراجات امریکہ نے خود ہی کئے۔ٹرمپ کا نقطہ نظر یہ ہے کہ امریکہ میں اپنے اپنے شعبوں کے سکلڈپرسن، ماہر اور ایکسپرٹس تو آئیں جیسے ڈاکٹر نرسیں سائنس دان انجینیئر ہیں۔لیکن وہاں پہ غیر ہنر مند دیہاڑی دار لوگ جن میں جرائم پیشہ بھی ہوتے ہیں میکسیکو کے راستے امریکہ میں داخل ہو کے امریکہ میں بے روزگاری کا سبب بھی بنتے ہیں۔کیونکہ دوسرے ممالک سے آنے والی سستی لیبر کو امریکی اور امریکہ میں موجود غیر ملکی کمپنیاں ملازم رکھ لیتی ہیں۔میکسیکو اور امریکہ دونوں ممالک کے مابین سمگلنگ درد سر رہی ہے۔میکسیکو سے امریکہ میں کئی دہائیوں سے مختلف اشیائ کی اسمگلنگ ہوتی رہی ہے۔ ان میں سب سے نمایاں یہ شامل ہیں :کوکین، ہیروئن، میتھیمفیٹامین (methamphetamine)، اور چرس (marijuana) جیسے منشیات بڑی مقدار میں میکسیکو سے امریکہ اسمگل کی جاتی رہی ہیں۔ میکسیکو کے ڈرگ کارٹیلز، جیسے سینالوا کارٹیل، اس اسمگلنگ کے بڑے نیٹ ورکس چلاتے ہیں۔
غیر قانونی تارکین وطن کو امریکہ پہنچانے کے لیے انسانی اسمگلنگ ایک بڑا مسئلہ رہی ہے۔ اسمگلر (جسے "کویوٹی" کہا جاتا ہے) لوگوں کو غیر قانونی طور پر سرحد پار کرانے میں مدد دیتے ہیں۔میکسیکو میں غیر قانونی ہتھیاروں کی بڑی طلب ہے، اور امریکہ سے ہتھیار اسمگل کرکے میکسیکن کارٹیلز کو فراہم کیے جاتے ہیں۔ تاہم، یہ اسمگلنگ دونوں سمتوں میں ہوتی ہے۔جعلی دستاویزات، کرنسی، اور برانڈڈ مصنوعات (مثلاً کپڑے اور الیکٹرانکس) بھی اسمگل کی جاتی ہیں۔جانوروں کی کھال، قیمتی جنگلی حیات، اور بعض اوقات معدنیات بھی اسمگل کی جاتی ہیں۔یہ اسمگلنگ دونوں ممالک کے درمیان قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے ایک بڑا چیلنج بنی ہوئی تھیں ان پر اپ بڑی حد تک قابو پا لیا گیا ہے۔
ٹرمپ نے پانامہ نہر کا کنٹرول حاصل کرنے کا اعلان کیا تھا اس اعلان پر وہ بدستور قائم ہے۔اس نہر کی تعمیر پر چھ ہزار سے زیادہ امریکی ہلاک ہوئے تھے یہ نہر فرانس نے شروع کی تھی وہ کوئی 30 ہزار لوگوں کے مرنے کے بعد اس نہر کو بیچ میں چھوڑ کے چلا گیا تھا جسے امریکہ نے مکمل کیا۔اس نہر کا کنٹرول امریکہ کے پاس تھا۔1977ئ میں صدر جمی کارٹر کے دور میں پنامہ نہر مکمل طور پر خیر سگالی کے جذبے کے تحت پانامہ کے حوالے کرنے کا معاہدہ ہوا۔1999ءمیں یہ نہر پانامہ کے حوالے کر دی گئی۔اس کا سب سے زیادہ استعمال کرنے والے ملکوں میں امریکہ کے بعد پہلے نمبر پر چین اور دوسرے نمبر پر جاپان ہیں جو جنوبی امریکہ کی ریاست پانامہ کو مجموعی طور پر امریکہ سمیت پانچ ارب ڈالر سالانہ ادا کر رہے ہیں۔ چائنہ کی طرف سے پنامہ کو بڑے پیمانے پر امداد دی گئی ہے۔چائنہ دیگر ممالک کی نسبت اسی امداد کے باعث نہر سے زیادہ استفادہ کر رہا ہے جو ٹرمپ کے لیے قابل قبول نہیں تھا۔انہوں نے باقاعدہ اس کا ذکر کیا ہے کہ نہر تو ہم نے پنامہ کے حوالے کی تھی انہوں نے چین کے قبضے میں دے دی۔گو کہ پانامہ کی طرف سے مزاحمت کا اعلان کیا گیا ہے جس کا عملی طور پر امکان کم ہی نظر آتا ہے۔ٹرمپ کے ایسے اقدامات پر عالمی رد عمل آنے کا امکان ہے لیکن ٹرمپ کو نہ ماضی میں کوئی پرواہ تھی نہ اب ہے اور نہ ہی مستقبل میں اس کی کوئی پرواہ ہوگی۔
تارکین وطن کے حوالے سے ٹرمپ کا ہمیشہ سے ہی سخت موقف رہا ہے۔وہ وہاں پہ موجود غیر قانونی لوگوں کو نکال رہے ہیں کئی معاملات میں قانونی طور پر امریکہ میں جانے والے لوگوں پر قدغن لگا رہے ہیں۔ٹرمپ کی یہ پالیسی افغانستان سے غداروں پر موت کا سایہ بن چکی ہے۔امریکہ نے افغانستان سے انخل  کیاتو امریکہ برطانیہ اور نیٹو ممالک کے لیے کام کرنے والے بہت سے افغانستان میں موجود مقامی لوگوں نے جن میں بڑے بڑے عہدوں پر رہنے والے بھی شامل تھے انہوں نے خود کو غیر محفوظ محسوس کیا تو وہاں سے نکلنے کی کوشش کی امریکہ اور برطانیہ نے انہیں اپنے ہاں پناہ دینے کی پیشکش کی تھی۔ کئی ان ممالک میں پہنچ چکے ہیں ہزاروں اب بھی امریکہ جانےکا پاکستان میں بیٹھ کر انتظار کر رہے ہیں۔ٹرمپ کے احکامات کے مطابق اب وہ امریکہ نہیں جا سکتے پاکستان ان کو زیادہ عرصہ اپنے ہاں رکھنے کے لیے تیار نہیں ہے۔افغانستان واپس جاتے ہیں تو طالبان حکومت ان پر موت بن کے گرے گی۔اب یہ گھر کے ہیں نہ گھاٹ کے۔وطن کی مٹی سے پیار کرنے والے وقتی طور پر مصائب کا شکار تو ہو سکتے ہیں مگر وطن کی مٹی انہیں ذلت و رسوائی کی مٹی میں مٹی نہیں ہونے دیتی۔
امریکہ میں اب تک تو یہ ہوتا تھا کہ جو بچہ بھی امریکہ میں پیدا ہوا اس کے پیدا ہوتے ہی امریکی شہریت مل جایا کرتی تھی۔اس کے والدین کب امریکہ گئے کیسے گئے یہ کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوتی تھی۔اب ان قوانین کو سخت کر دیا گیا ہے۔صرف اسی بچے کو شہریت ملے گی جس کے ماں باپ میں سے ایک کی امریکی شہریت ہوگی۔امریکہ میں پاکستانیوں کی تعداد سات اٹھ لاکھ ہے جبکہ بھارتی امریکہ میں 80 لاکھ کی تعداد میں موجود ہیں۔یہاں پہ بڑی بڑی عالمی شہرت کی حامل کمپنیوں کے سی ای او اور مالکان کا تعلق بھارت سے ہے۔پاکستان سے سالانہ زچگی کے لیے امریکہ جانے والے افراد کی تعداد 500 سے 600 تک ہے جب کہ بھارت سے سالانہ 12 لاکھ سے زیادہ لوگ اس مقصد کے لیے امریکہ جاتے ہیں۔جی ہاں 12 لاکھ سے زیادہ۔نئے قوانین کے تحت اب بھارت سے اتنی تعداد میں لوگ امریکہ نہیں جاسکیں گے بھارت کو یہ ٹرمپ کے آنے سے بہت ہی بڑا ڈینٹ پڑا ہے۔
مودی سرکار ٹرمپ کے آنے سے بڑی پر امید تھی مگر ٹرمپ کے اس وار کی تاب نہیں لا پا رہی۔بھارت امریکہ میں اجارہ داری سمجھتا تھا۔ اس میں شاید حق بجانب بھی تھا۔ایک تو جیسا کہ بتایا کہ وہاں پر عالمی شہرت کی کمپنیوں پر بھارت کے لوگوں کاکنٹرول ہے۔دوسرے وہاں پر ٹرمپ کے مقابلے پر بھارتی نڑاد کملہ ہیرس تھیں۔ٹرمپ کے ہارنے کی صورت میں بھارتیوں کو زیادہ خوشی ہوتی۔ کملہ ہیرس کے ہارنے پر بھی بھارت مایوس تو نہیں ہوا کیونکہ اج کے امریکی نائب صدر جے ڈی وینس کی اہلیہ اوشا کا تعلق انڈیا سے ہے۔مگر ٹرمپ کے مقابلے میں وہ پالیسی سازی میں امریکہ کی مدد نہیں کر سکتیں۔اور بھی بہت سے ممالک ہیں جو کہتے تھے کہ امریکہ سے ساڈی گل ہو گئی اے۔مگر اپ جس طرح سے ٹرمپ فعال ہوئے ہیں لگتا ہے کہ ان سب کی گل رہ گئی اے۔

ای پیپر دی نیشن