وہ زمانہ بھی کیا خوب تھا ”جب ہم بھی جن تھے،، جو کام کوئی نہ کر سکے، اسے ہم چیلنج سمجھ کر ایسے کرتے کہ لوگ حیران رہ جاتے، خوشگوار موسم میں اپنے پیارے دوست یاسین ملک مرحوم کے ”میڈیا ہاوس،، میں حسب عادت خوش گییوں میں مصروف تھے کہ این۔ٹی۔ایم پرائیویٹ چینل کے ایک اعلی افسر آ دھمکے، ہم سب کو ہنستا قہقہے لگاتا دیکھ کر بولے،، یار آ ج کل لوگوں کو ہسنے ہسانے کے مواقع کم ہی ملتے ہیں آ پ لوگ تو بہت امیر ہیں، میں نے کہا ،،اچھے اور پرانے دوستوں کی بیٹھک کسی آکسیجن سے کم نہیں، لوگ گھٹ گھٹ کر زندگی ہار جاتے ہیں لیکن ہم اور ہمارے دوست اس معاملے میں کنجوس نہیں ،بولے میرا خیال ہے کہ ایسی محفل ٹی وی سکرین پر سجائی جائے تاکہ گھروں میں بیٹھے لوگوں کے چہرے بھی مسکرانے کا موقع پا لیں، میں نے کہا کہ کیا کوئی مزاحیہ ڈرامہ سیریز‘ سیریل یا سڈ کم؟ بولے نہیں‘ اس سے ہٹ کر کچھ نیا میرے پاس ایک آ ئیڈیا ہے لیکن ہے مشکل۔ میں نے فورا کہا،، اب کوئی چیز مشکل نہیں،، آ پ مرکزی خیال دیں، اسے حقیقی تصویر ہم بنائیں گے، ہمیں تو مشکل کام کرنے میں مزہ بہت آ تا ہے۔ فرمانے لگے،، محفل ہو شعراء کرام کی اور سب کے سب نامور لیکن انہیں بٹھایا جائے سامعین میں اور سٹیج پر ممتاز فنکار ان کے بہروپ میں ان شعراءکی کسی مشہور غزل، نظم کی پیروڈی سنائیں اور ان سے داد حاصل کریں، محترم تاجدار عالم نے آ ئیڈیا دیا اور ہم نے دو روز کی مہلت مانگ کر رخصت حاصل کر لی کیونکہ وہاں سورج غروب ہوتے ہی،، گلاسوں کا مشاعرہ،، شروع ہو جاتا تھا، یہ محفل ہمیں اور ہم اس محفل کے شرکاء پر گراں گزرتے تھے ہم پر الزام تھا کہ ہم صوفی ہیں بلکہ تماشبین بھی قرار دیا جاتا تھا ،یہ 1993ءکا زمانہ تھا اب تو ان میں سے بہت سے دنیا چھوڑ گئے
مجھے آ ئیڈیا بے حد پسند آ یا شاید دوسرا ہی روز ہوگا کہ میرا پی ٹی وی لاہور سینٹر جانا ہوا، معروف شاعر مسرور انور مجھے لابی میں مل گئے ان کا سوال تھا آ ج کل کیا کر رہے ہو؟ میں نے کہا نوکری‘ قہقہہ لگا کر بولے وہ تو مجھے علم ہے لیکن تم تو ایک وقت میں کئی محاذ سنبھالنے کے عادی ہو ،کوئی نئی پروڈکشن کر رہے ہو کہ نہیں ؟میں فورا بولا تاجدار عالم نے ایک آ ئیڈیا دیا ہے اس کا سوچ رہا ہوں ، آ ئیڈیا میں نے بتا دیا۔ مسکرا کر بولے ،،مجھے بھی کہا تھا لیکن مشکل کام ہے، میں نہیں کر سکا تم بھی نہیں کر پاو گے، میں نے انہی کے انداز میں مسکراتے ہوئے جواب دیا،، حضور اب تک مزاحیہ مشاعروں کی بہترین سیریز کر چکا ہوں ،،ہمت مرداں مدد خدا ،،اسے چیلنج سمجھ کر کروں گا اور یہ ایک یادگار خوبصورت محفل سجےگی بولے،، اللہ کرے، کام آ سان نہیں ہے ،،
میں نے پہلے نامور شعراءکی ایک فہرست بنائی، پھر سروے کیا کہ ان میں سے کون کون مجھے مل سکتا ہے، شہزاد احمد ،امجد اسلام امجد، مظفر وارثی، عطاءالحق قاسمی ،بسمل صابری، حسن رضوی ،جعفر شیرازی ،اصغر ندیم سید کے نام شارٹ لسٹ کیے پھر ان کے مشہور کلام کی انہی لوگوں سے پیروڈی لکھوائی، کچھ نے لکھی کچھ نے نہیں لکھی لیکن پی۔ سی۔ہوٹل لاہور میں یہ محفل میں نے سجا لی جس میں صاحب ذوق خواتین و حضرات کے ساتھ تمام شعراءکو مدعو کیا، ان معروف لوگوں کا تعاون بھی ناقابل فراموش ہے، اداکار جاوید رضوی نے شہزاد احمد ،عاصم بخاری نےا مجد اسلام امجد، منور سعید نے عطاءالحق قاسمی رفعت تجلی نے بسمل صابری، البیلا نے مظفر وارثی اور راقم نے اصغر ندیم سید کا بہروپ دھارا جبکہ میزبانی کے فرائض اداکار جمیل فخری نے انجام دیے تھے۔ اس محفل کی اکثر پیروڈی قائم نقوی کو لکھنا پڑی کیونکہ کچھ نے اپنے کلام کی پیروڈی کرنے سے معذرت کر لی تھی لیکن ان تمام شخصیات نے شریک ہو کر اپنے اپنے روپ میں اداکاروں کو دیکھا اور ان کی پیروڈی کو بھرپور داد دے کر محفل کو یادگار بنا دیا۔ یہ پروگرام این۔ ٹی۔ ایم کی تیسری سالگرہ پر خصوصی طور پر پیش کیا گیا۔ بسمل صابری کی مشہور غزل۔۔
وہ عکس بن کے میری چشم تر میں رہتا ہے
عجیب شخص ہے پانی کے گھر میں رہتا ہے
اداکارہ وکمپیر شیریں حسن نے بسمل صابری کے روپ میں ترنم میں سما باندھ دیا۔۔
کسی کے پاوں کا جوتا نظر میں رہتا ہے
یہ دل کا درد ہے لیکن جگر میں رہتا ہے
اداکار عاصم بخاری نے امجد اسلام امجد کے بہروپ میں پیروڈی سنائی اداکار پرویز رضا نے حسن رضوی کا روپ دھارا اور البیلا نے مظفر وارثی کی پیروڈی ترنم میں پیش کی۔۔۔
روشنی لے کے وہ یوں چھپتا چھپاتا نکلا
چور کی طرح ہر اک جسم سے سایہ نکلا
حاضرین نےخوب دادی، مظفر وارثی صاحب خوب محظوظ ہوئے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اداکار البیلا کی باری آ ئی تو مظفر وارثی کا مخصوص ترنم بھول گئے۔ وہ پریشان اسٹیج پر بیٹھے تھے میں نے اندازہ لگا کر دریافت کیا کہ حاجی صاحب کیا پریشانی ہے؟ اشاروں اشاروں میں مجھے پیغام دے دیا ،میں نے جمیل فخری کو چٹ دی کہ البیلا کو نہ بلائیں کسی اور کو پہلے موقع دے دیں دوسری چٹ جناب مظفر وارثی کو بھیجی کہ آپ ذرا محفل سے باہر آ جائیں اور الیبلا صاحب کو اپنا مخصوص ترنم سنا دیں اور پھر حاجی البیلا نے کمال مہارت سے محفل لوٹ لی ،فرمائش کی گئی کہ ایک اور کلام سنا دیں اداکار البیلا نے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ مجھے ایک ہی غزل کے پیسے ملے ہیں، دوسری نہیں سناوں گا۔ تمام کلام ایک سے بڑھ کر ایک تھا لیکن اس یادگار محفل کی خوبصورت ناقابل فراموش بات تمام شعراءکرام کی شرکت تھی۔ شہزاد احمد نے اپنی عینک جاوید رضوی کو بہروپ میں حقیقت بھرنے کے لیے پیش کی ،جبکہ باقی کمی میک اپ ڈائریکٹر رانا ظہیر نے پوری کر دی۔ ان کے دیے ہوئے گیٹ اپ بھی بڑے حیران کن اور خوبصورت تھے جس کی وجہ سے تمام شعراءنے اپنے اپنے بہروپ کے روپ بھرنے والے اداکاروں کے ساتھ تصاویر بھی بنوائیں۔ اس خصوصی محفل کے لیے محترمہ بسمل صابری اور جعفر شیرازی اوکاڑہ سے تشریف لائے تھے۔ این۔ ٹی۔ ایم نے سالگرہ پر اسے ٹیلی کاسٹ کیا تو دھوم مچ گئی۔ مسرور انور نے خاص طور پر اسے دیکھا اور مجھے ملنے پر گلے لگا کر مبارکباد دی، آ ج برسوں بعد ایک دوست نے 1993ءکا ایک اخباری تراشا،، واٹس ایپ،، پر مجھے بھیج کر ماضی کی خوبصورت یادیں تازہ کر دیں ،بہت بھرپور پروگرام تھا حاضرین کی فرمائش پر بسمل صابری نے اپنا وہی حقیقی کلام ترنم میں سنایا، مزہ دوبالا ہو گیا۔ اداکاروں نے ان بڑے شعراءکرام سے گپ شپ کی۔ آ ج برسوں بعد بھی یادوں کی خوشبو نے مجھے اپنی کامیابی پر خوش کر دیا۔ اب تو وہ لوگ ہیں اور نہ ہی اس قدر خلوص اور پیار، ادبی محفل ماضی کے حوالے سے انتہائی کم، نہ سننے والے اور نہ ہی سنانے والے باذوق۔ عجیب زمانہ ہے‘ مفادات اور دھن دولت کی دوڑ جو کچھ نہیں، وہی سب کچھ اور جو حقیقت میں عزت و احترام کے قابل ہیں وہ اپنی عزت اور شہرت کو چھپائے اپنی اپنی چار دیواری میں چھپ کر بیٹھے ہوئے ہیں اس لیے کہ زمانہ بدل گیا ہے، ان کی جنہیں ضرورت ہے وہ مطلبی اور موقع پرست ہیں اور انہیں جن کی خواہش ہے وہ اب ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے، ہم اور ہمارے ہم عصر بے حد خوش قسمت ہیں کہ ہمارے زمانے میں ادب و ثقافت کی ایسی قد آ ور شخصیات تھیں، آ ج کےلوگ یکثر مختلف ہیں، ہم نے دنیائے ادب کی بھاری بھر کم شخصیات کو نہ صرف دیکھا سنا بلکہ ان کے ساتھ وقت بھی گزارا، اکثریت اس جہان فانی سے کوچ کر گئی، جو باقی ہیں، اللہ انہیں صحت و سلامتی دے۔ بات تو درست ہے،، نواں نو دن پرانا 100 دن ،،۔