ایک اعلیٰ فلسطینی عہدیدار نے بین الاقوامی عدالت انصاف کے سامنے پیر کے روز یہ مؤقف رکھا ہے کہ اسرائیل کا غزہ کو زیر محاصرہ رکھنا اور مسلسل ناکہ بندی کیے رکھنا نہ صرف غیر انسانی ہے بلکہ اسرائیل فلسطینیوں کے خلاف جنگی ہتھیار کے طور پر ناکہ بندی کو استعمال کر رہا ہے۔فلسطینی عہدیدار نے بین الاقوامی عدالت انصاف میں یہ بیان ایک ہفتے کے لیے شروع ہونے والی عدالتی سماعت کے دوران دیا ہے۔بین الاقوامی عدالت انصاف میں یہ پہلا موقع ہے کہ تقریباً 2 ماہ سے جاری غزہ کی ناکہ بندی زیر سماعت آرہی ہے۔ جس کی وجہ سے اقوام متحدہ کے مختلف ادارے، بین الاقوامی سطح پر کام کرنے والی امدادی تنظیمیں اور انسانی حقوق کے لیے متحرک گروپ خبردار کر رہے ہیں کہ تقریباً 2 ماہ کو چھونے والی اسرئیلی ناکہ بندی غزہ میں بھوک و موت لانے کا باعث بن رہی ہے۔پیر کے روز شروع ہونے والی اس سماعت کے دوران اسرائیل نے کارروائی میں ایک فریق کے طور پر حصہ نہیں لیا۔ تاہم فلسطینی عہدیدار کے اس مؤقف پر فوری طور پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل اس عدالتی کارروائی کو اپنے خلاف ایک منظم ناانصافی، ظلم اور غیرقانونی اقدام سمجھتا ہے۔غزہ کی اسرائیلی ناکہ بندی کے خلاف بین الاقوامی عدالت انصاف درجنوں اقوام اور بین الاقوامی تنظیموں کو سننے کا ارادہ رکھتی ہے۔ تاکہ اس پر اپنی سفارش کے انداز کا حکم جاری کر سکے اور اسرائیل کو فلسطینیوں کے حوالے سے اس کی ذمہ داریاں یاد دلا سکے۔یاد رہے اسرائیلی فوج نے دو مارچ سے غزہ کی ایسی مکمل ناکہ بندی کر رکھی ہے جس کی ماضی میں اسرائیل کی فوج نے بھی مثال قائم نہیں کی۔اس دوران خوراک کا ایک ایک ذرہ اور پانی کی ایک ایک بوندھ غزہ جانے سے روک دی گئی ہے۔ نیز ادویات اور ایندھن کو بھی غزہ جانے سے اسرائیلی فوج نے مکمل روک رکھا ہے۔عدالتی سماعت کا آغاز ہونے پر فلسطین کے اعلیٰ عہدیدار عمار حجازی نے کہا 'غزہ میں اقوام متحدہ کے زیر انتظام کام کرنے والی تمام بیکریوں کو بھی اسرائیلی فوج نے طاقت سے روک دیا ہے کہ وہ اپنے کام کو بند کریں۔ تاکہ اہل غزہ کو بیکریوں کے ذریعے سے بھی خوراک فراہمی کا سلسلہ روکا جا سکے۔فلسطینی نمائندے کا عدالت انصاف کے سامنے کہنا تھا کہ صاف پانی کی فراہمی کا غزہ میں یہ حال ہے کہ ہر 10 فلسطینیوں میں سے نو کی صاف پانی تک رسائی کی کوئی صورت نہیں ہے۔فلسطینی نمائندے نے اس تناظر میں کہا غزہ میں کام کرنے والی امدادی تنظیموں کے اپنے ذخیرے بھی ختم ہو چکے ہیں۔ جیسا کہ 'ورلڈ پروگرام برائے خوراک' نے پچھلے دنوں اعلان کیا ہے۔نمائندے کے مطابق بھوک سر پر ہے لیکن اسرائیل دوسرے ملکوں اور بین الاقوامی برادری سے آنے والی امداد و خوراک کو فلسطینیوں تک پہنچنے میں رکاوٹ بنے کھڑا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ وہ اسے ایک جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ادھر بیت المقدس میں اسرائیلی وزیر خارجہ جدعون ساعر نے کہا 'بین الاقوامی عدالت انصاف میں اس کیس کا زیر سماعت آنا اسرائیل کے خلاف ایک منظم ناانصافی ، ظلم اور غیرقانونی اقدام ہے۔'اسرائیلی وزیر خارجہ نے کہا 'عدالتی کٹہرے میں اسرائیل کو نہیں لانا چاہیے بلکہ اقوام متحدہ اور اس کے ادارے 'انروا' کو عدالتی کٹہرے میں لانا چاہیے'۔یاد رہے اسرائیل نے اقوام متحدہ کے ادارے 'انروا' پر غزہ اور مغربی کنارے میں کام کرنے پر پابندی لگا رکھی ہے۔ اسی طرح کئی اور امدادی تنظیموں کے کارکنوں کو اسرائیلی فوج بمباری سے ہلاک کر چکی ہے۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے دسمبر 2024 میں ایک قرارداد منظور کی تھی جس کے تحت بین الاقوامی عدالت انصاف سے انتہائی ہنگامی و ترجیحی بنیادوں پر مشاورتی رائے طلب کی گئی تھی۔ یہ قرارداد ناروے کی طرف سے پیش کی گئی تھی جسے بھاری اکثریت سے منظور کیا گیا۔اقوام متحدہ نے بین الاقوامی عدالت انصاف سے کہا ہے کہ بین الاقوامی امدادی تنظیموں اور ثالث ممالک کے ذریعے اسرائیل کو اس امر کا پابند کیا جائے کہ فلسطینیوں تک اشیائے خوردونوش کی بلا روک ٹوک فراہمی کو یقینی بنائے۔اقوام متحدہ نے اسرائیلی ناکہ بندی سے پیدا شدہ صورتحال کو انتہائی بری صورتحال قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ یہ ایک انسانی المیہ ہے۔ جس کا فلسطینیوں کو جنگ کے دوران مسلسل سامنا ہے۔یاد رہے اسرائیل کی غزہ جنگ کے دوران اب تک 52243 فلسطینیوں کو اسرائیلی فوج نے قتل کیا ہے۔ ان میں 18 مارچ کے بعد سے اب تک قتل کیے گئے فلسطینیوں کی تعداد 2111 ہے۔ قتل کی گئی مجموعی تعداد میں فلسطینی خواتین اور بچوں کی تعداد دو تہائی کے قریب ہے۔تاہم اسرائیل کی حکومت اور فوج فلسطینیوں کے خلاف اس جنگ کو روکنے کی طرف مائل نہیں بلکہ شدید تر کیے جانے کا منصوبہ رکھتی ہے۔ اس میں اسے امریکہ کی سرپرستی اور تعاون بھی پوری طرح حاصل ہے۔