دین اسلام نے دو قسم کے حقوق بیان کئے ہیں۔ ایک ’’حقوق اللہ‘‘ جس کا تعلق براہِ راست اﷲ تبارک و تعالیٰ سے ہے۔ جن میں توحید، نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج شامل ہیں۔ جبکہ دوسرا ’’حقوق العباد‘‘ ہے۔ جس کا تعلق براہِ راست خلق خدا سے ہے۔ عباد جمع ہے عبد کی، جس سے مراد ہے انسان یا بندہ۔ اس طرح حقوق العباد کا مطلب ہے بندوں کیلئے حقوق۔ حقوق العباد میں دنیا کے ہر مذہب، ہر ذات و نسل، ہر درجے اور ہر حیثیت کے انسانوں کے حقوق شامل ہیں۔ اگر ہم عزیزوں کے حقوق ادا کریں تو اِس کے ساتھ غیروں کے حقوق بھی ادا کریں۔ غلام اگر مالک کی خدمت کرے تو مالک بھی غلام کا پورا پورا خیال رکھے۔ والدین اگر اولاد کیلئے اپنی زندگی کی ہر آسائش ترک کردیں تو اولاد بھی اِن کی خدمت اور عزت میں کمی نہ کرے۔ بیوی اگر شوہر کی خدمت گزاری کرے تو شوہر کو بھی چاہئے کہ وہ بیوی کے آرام و سکون کیلئے کوئی کسر نہ چھوڑے۔ یہی دین اسلام کی پوری انسانیت کیلئے تعلیم ہے۔حقوق العباد میں والدین، اولاد، بیوی، رشتہ دار، یتیم، مساکین، مسافر، مستحقین، ہمسایہ، سائل، قیدی و ملازمین وغیرہ شامل ہیں۔ حقوق العباد ادا کرنا مومنوں اور جنتیوں کی صفت ہے۔ قیامت کے روز نہ صرف حقوق اللہ کا حساب ہوگا بلکہ بندے کے حقوق کا بھی حساب ہوگا۔ اللہ کا مجرم ہونا اس قدر خطرناک نہیں جس قدر بندوں کے حقوق غصب کرنے کا خطرہ عظیم ہے۔افسوس کی بات ہے کہ ہم حقوق اﷲ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کو بھی نظر انداز کررہے ہیں۔ والدین، بہن بھائی، ہمسائیوں اور اپنے ماتحت کام کرنے والے لوگوں کی حق تلفی کرتے رہتے ہیں۔ والدین سے بدسلوکی، بہن بھائیوں کی مشکلات سے روگردانی، ہمسائیوں کو اذیت دینا اور اپنے ماتحت ملازمین کے ساتھ ناروا سلوک اور ان کے ساتھ ہمدردی سے پیش نہ آنا حقوق العباد کی صریحاً خلاف ورزی اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔یہاں یہ بات غورطلب ہے کہ حقوق العباد میں صرف مسلمان کا مسلمان پر نہیں ہے، بلکہ یہ غیر مسلموں پر بھی اتنا ہی لاگو ہوتا ہے جتناکہ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر۔ اگر ہم اﷲ کی مخلوق کے ساتھ حق تلفی کرتے ہیں تو جب تک وہ معاف نہیں کرے گا اﷲ تبارک و تعالیٰ بھی معاف نہیں فرمائیں گے۔ بہت سے لوگ اس بات کو دلیل بنا کر یہ عذر پیش کرتے ہیں کہ اللہ سبحانہٗ وتعالی بڑا رحیم و کریم ہے وہ معاف کر دے گا بیشک وہ بڑا مہربان اور رحم کرنے والا ہے لیکن حقوق العباد جب تک بندہ (جس کی حق تلفی کی گئی ہو، چاہے وہ مسلمان ہو یا یا کافر) نہیں چاہے گا تب تک معاف نہیں ہوں گے۔اﷲ تعالیٰ قرآن مجید فرقان حمید کی سورہ النجم کی آیت نمبر 38 تا 41 میں فرماتا ہے کہ: ’’(اُس دن) کوئی بوجھ اُٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اُٹھائے گا اور انسان کو وہی ملے گا جس کے لیے اِس نے محنت کی ہوگی۔ اور اس کی یہ محنت بہت جلد دیکھی جائے گی۔ پھر اِسے پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔‘‘ یعنی اﷲ رب العزت اس بنیاد پر کسی کو بغیر سزا کے نہیں بخشے گا، جب تک کہ اس کے اعمال کی جانچ نہ کرلی جائے۔ خاص کر کے جب ان اعمال کا تعلق حقوق العباد سے ہو۔ ہم نام نہاد مسلمانوں کا حال بھی یہود و نصاریٰ سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔ یہودی ہمارے جیسے ہی غلط تصورات کا شکار تھے۔ انہیں یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ اوّل تو انہیں عذاب نہیں دیں گے اور اگر اپنے عدل کی لاج رکھنے اور مخلوقِ خدا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے اگر آگ میں ڈالا گیا تو چند دن بعد انہیں باہر نکال لیا جائیگا۔ جواب میں اللہ تعالیٰ نے اپنا دو ٹوک فیصلہ سنادیا۔ فرمایا:’’اور وہ کہتے ہیں کہ اِن کو دوزخ کی آگ نہیں چھوئے گی مگر صرف گنتی کے چند دن۔ پوچھو! کیا تم نے اللہ کے پاس اس کے لیے کوئی عہد کرالیا ہے کہ اللہ اپنے عہد کی خلاف ورزی نہیں کرے گا یا تم اللہ پر ایک ایسی تہمت باندھ رہے ہو جس کے بارے میں تمہیں کچھ علم نہیں۔ کیوں نہیں، جس نے کوئی بدی کمائی اور اُس کے گناہ نے اُسے اپنے گھیرے میں لے لیا وہی لوگ دوزخ والے ہیں وہ اُس میں ہمیشہ رہیں گے۔ (سورۂ البقرہ: 80-81)اور ہم بھی یہی سمجھتے ہیں کہ اگر ہم نے شرک نہیں کیا تو کیا ہوا، باقی گناہ تو معاف ہوسکتے ہیں اگر ہمیں عذاب ہوا بھی تو چند دنوں پر مشتمل ہوگا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ روزِ قیامت اللہ کے حضور کسی کے بارے میں کسی قسم کی سفارش کی کوئی گنجائش نہیں، سوائے اُس کے کہ رحمن اس بات کی اجازت دے۔ خدا کے اَذن کے بعد دوسری چیز یہ ہے کہ بات کہنے والا بھی وہ بات کہے جو خلافِ عدل نہ ہو۔ تیسرے یہ کہ ہر کسی کے حق میں سفارش نہیں ہوسکتی بلکہ جس کے حق میں اجازت ہوگی صرف اُسی کے بارے میں بات ہوگی اور یہ کوئی نہیں جانتا کہ کس کے حق میں اﷲ سفارش قبول کرے گا اور کس کے حق میں سفارش قبول کرنے سے انکار ہوجائے گا۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ’’اس دن شفاعت نفع نہ دے گی۔ سوائے خدائے رحمان جس کو اجازت دے اور جس کے لیے کوئی بات کہنے کو پسند کرے۔ (سورۂ طہٰ۔ 109)یعنی شفاعت کی اجازت دینے یا نہ دینے کا سارا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ وہ کسی کے حق میں اجازت نہ دے تو کس کی مجال ہوگی کہ وہ کچھ کہہ سکے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاہے: شہید کے تمام گناہ معاف کردئیے جاتے ہیں، مگر کسی شخص کاقرضہ نہیں۔ (مسلم، 1886)۔ یعنی اگر کسی شخص کا کوئی قرض کسی کے ذمہ ہے تو جب تک ادا نہیں کردیا جائے، وہ ذمہ میں باقی رہے گا خواہ کتنا بھی بڑا نیک عمل کرلیا جائے۔ مشہور محدث حضرت ابوذکریا یحییٰ بن شرف النوی المعروف امام نوویؒ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ ’’قرض سے مراد، تمام حقوق العباد ہیں یعنی اللہ کے راستے میں شہید ہونے سے حقوق اللہ تو سب معاف ہوجاتے ہیں، لیکن حقوق العباد معاف نہیں ہوتے۔‘‘ (شرحِ مسلم)معلوم ہوا کہ ہمیں حقوق العباد کی ادائیگی میں کوئی کوتاہی نہیں کرنی چاہئے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایک جگہ صحابہ کرامؓ سے مخاطب ہوتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟ صحابہؓ نے عرض کیا: ہمارے نزدیک مفلس وہ شخص ہے جس کے پاس کوئی پیسہ اور دنیا کا سامان نہ ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: میری اُمت کا مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے دن بہت سی نماز، روزہ، زکوٰۃ (اور دوسری مقبول عبادتیں) لے کر آئے گا مگر حال یہ ہوگا کہ اِس نے کسی کو گالی دی ہوگی، کسی پر تہمت لگائی ہوگی، کسی کا مال کھایا ہوگا، کسی کا خون بہایا ہوگا یا کسی کو مارا پیٹا ہوگا تو اس کی نیکیوں میں سے، ایک حق والے کو (اُس کے حق کے بقدر) نیکیاں دی جائیں گی، ایسے ہی دوسرے حق والے کو اِس کی نیکیوں میں سے (اُس کے حق کے بقدر) نیکیاں دی جائیں گی۔ پھر اگر دوسروں کے حقوق چکائے جانے سے پہلے اِس کی ساری نیکیاں ختم ہوجائیں گی تو (اِن حقوق کے بقدر) حقداروں اور مظلوموں کے گناہ (جو انہوں نے دنیا میں کئے ہوں گے) اُن سے لے کر اِس شخص پر ڈال دئیے جائیں گے، اور پھر اُس شخص کو دوزخ میں پھینک دیا جائے گا۔ (مسلم۔ باب تحریم الظلم)۔یہ ہے اِس اُمت مسلمہ کا مفلس کہ بہت ساری نیکیوں کے باوجود، حقوق العباد میں کوتاہی کرنے کی وجہ سے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے حقوق کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی نہایت ضروری ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اﷲ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اپنے حقوق تو معاف کرنے پر قادر ہے مگر حقوق العباد کو اُس وقت تک معاف نہیں فرمائیں گے جب تک وہ مظلوم معاف نہ کردے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم حقوق اﷲ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی بھی ادائیگی کو اپنا نصب العین بنائیں۔ کسی انسان کو گالی نہ دیں، تہمت نہ لگائیں، بہتان نہ باندھیں۔ اُس کا حق غصب نہ کریں۔ مخلوق خدا کی مال و جان، عزت و آبرو کی حفاظت کریں۔ اﷲ تعالیٰ نے ہمیں جو کچھ عطاء کیا ہے دولت، شہرت، عزت، علم اُس کو اﷲ کی مخلوق میں بانٹیں اور اُن میں تقسیم کریں۔ اپنے والدین کی خدمت کریں، بہن بھائیوں، ہمسایوں کی مشکلات میں اُن کا سہارا بنیں۔ مستحقین اور سفید پوش لوگوں کی ضرورتوں کا خیال رکھیں۔ بیوائوں، یتیموں، مساکین اور مستحقین کی مالی امداد کریں۔ اُن کا حق نہ کھائیں۔ اپنے ماتحت بندوں کے ساتھ ہمدردی کے ساتھ پیش آئیں، اُن کے حقوق کی ادائیگی کو نصب العین بنائیں، اُن کے مال کو غصب نہ کریں۔ اُن کی ضرورتوں اور آرام کو پیش نظر رکھیں۔ جب ہم حقوق العباد کی مکمل ادائیگی کریں گے تو ہی ہماری عبادتیں، نمازیں، دینداری اﷲ تبارک و تعالیٰ قبول فرمائیں گے ورنہ روزِ محشر ہمارے منہ پر مار دی جائیں گی۔ یہاں یہ امر بھی قابل غور طلب ہے کہ آج کل ایک طبقہ ایسا ہے جو صرف حقوق اللہ کی ادائیگی کرنے میں نظر آتا ہے اور وہ بھی نامکمل۔ یہ کہتے ہیں کہ نماز، روزہ وغیرہ عبادات کر لو کافی ہے اور کچھ ضرورت نہیں۔ اور دوسرا طبقہ ایسا ہے جو صرف حقوق العباد کی طرف توجہ کیے ہوئے ہے وہ بھی چند ایک برائے نام۔ یہ کہتے ہیں کہ بندوں کے حقوق ضروری ہیں، اللہ تو ایک سجدہ سے راضی ہو جاتا ہے، بندوں کو راضی کرنا چاہیے۔ چاہے کوئی بھی طریقہ اختیار کرنا پڑے۔یہ دونوں دینِ اسلام کے اصل راستے سے دور ہیں۔ شریعت ہمیں جہاں حقوق اللہ کی ادائیگی کا حکم دیتی ہے اور اَدا کرنے کا طریقہ بتاتی ہے، وہیں حقوق العباد کی طرف بھی توجہ دلاتی ہے اور اُس کی تفصیل بھی بتائی ہے۔ دونوں ضروری ہیں۔ ایک کو چھوڑ دینا یا دونوں چھوڑ دینا گمراہی کے منہ میں جانے کے مترادف ہے۔یہ فہم و سمجھ کہ اِس وقت دین کا مجھ سے کیا تقاضہ ہے؟ اُس وقت آتی ہے جب ہم علمائے کرام اور اولیائے عظام کی صحبت اختیار کی جائے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم علمائے کرام اور اولیائے عظام کی صحبت میں رہ کر حقوق اﷲ اور حقوق العباد کی ادائیگی کو صحیح طرح سے سمجھیں اور اس کو پورا کرنے کی حتیٰ الامکان کوشش کریں۔