ملک کو آزادی1947 میں ملی مگرہم آج تک اپنے معاملات کو دنیا سے ہمْ آہنگ کرنے میں کامیاب نہیںہو سکے اب حالت یہ ہو گئی ہے کہ گرین پاسپورٹ دنیا میں دہشت کئی علامت ہے قصور کس کا نظام کا یا نظام کو چلانے والوں کا عوام کا یا عوام کے نما ئندوں کااس کا فیصلہ اور راے خود قائمْ کر سکتا ہے آج صرف ایک پروڈکٹ کا ذکر کروں گاکہ اگرہم ایماندار قوم ہوں تو کم از کم دو ارب سے پانچ ارب ڈالر سالانہ کماے جا سکتے ہیں جب کہ ہم ہر سال ان کے لیے اپنے آپ کو آئی ایم ایف کے ہاں غلامی قبول کرتے ہیں اور ملک کے عوام پرہزاروں ارب کے نئے ٹیکس لگاتے ہیں یہ تفصیل مکمل پراجیکٹ کی ہے چاہیں تو آج سے اپنا آحتساب کر کے بہتری کا آغاز کر ددیں ورنہ تو سب چل رہا ہے اور اسی حالت میں رہے گا ؟؟
پاکستان ایک زرعی ملک اور ہمارے لائیو سٹاک اثاثہ جات کو نہ صرف سالانہ ملکی گوشت کی مانگ کو پورا کرنا ہے بلکہ کم از کم سالانہ 300 کروڑ امریکی ڈالر کا گوشت برآمد بھی کرنا چاہئے جو فی الحال محض سالانہ 45 کروڑ امریکی ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ اور اس میں 35 کروڑ امریکی ڈالر حصہ بڑے سرخ گوشت (بیف) کا ہے۔
اس کے باوجود کہ ہم لائیو سٹاک کی افزائش و فربہ گاہی میں گئے گزرے وقتوں کے متروک شدہ نظریات و طریقہ ہائے کار پر بضد ہیں ہمارے لائیو سٹاک اثاثہ جات ملکی سالانہ مجموعی پیداوار میں % 14 فیصد کے لگ بھگ حصہ ڈالتے ہیں اور زرعی سالانہ مجموعی پیداوار میں سالانہ % 60 فیصد کے لگ بھگ حصہ ڈالتے ہیں۔
درج ذیل چند اساسی اقدامات ہمارے بڑے سرخ گوشت کی سالانہ برآمد کو بہت جلد کم از کم 200 کروڑ امریکی ڈالر کر سکتے ہیں۔
1۔ ہر مویشی کی شناخت ( Identification ) اور سلسلہ رسد میں اس کے سراغ کے نظام (Traceability) کو قانون سازی کے ذریعے لازم کر دیا جائے۔ ان کے حقیقی نفاذ کے بغیر ہم بڑے سرخ گوشت کی بہترین قیمت دینے والے ملکوں اور ان کی مارکیٹوں مثلاً یورپین یونین ممالک، جنوبی کوریا، جاپان، تھائی لینڈ، ویتنام، سنگاپور، ہانگ کانگ وغیرہ کیلئے قطعی قابل قبول نہیں ہو سکیں گے۔ اس کیلئے حکومت پاکستان کیلئے بین القوامی ادارہ FAO کی مدد سے پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ نے پاکستان انیمل آئیڈنٹیفیکشن اینڈ ٹریس ایبیلیٹی سسٹم (PAITS) نفاذ کے تمام کا لازموں کے ساتھ تیار کر رکھا ہے۔ پورے پاکستان کی بنیاد پر کلی اور حقیقی نفاذ کیلئے پارلیمنٹ سے قانون سازی ایک لازمی تقاضہ ہے۔ یوروگوائے نے 2007 میں اس نظام کو پارلیمنٹ میں قانون سازی کرتے ہوئے ملکی سطح اس کا نفاذ کر دیا تھا۔ اور آج بڑے سرخ گوشت کی برآمد میں بہت تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ اس سلسلہ میں ہم اس کو رہنما تصور کر سکتے ہیں۔
2 ۔ملک میں منہ کھر بیماری کا ہونا بڑے سرخ گوشت کی برآمد میں دوسری بڑی رکاوٹ ہے۔ اکثر ممالک نے منہ کھر بیماری کے خطرات والے ممالک سے بڑے سرخ گوشت کی درآمد پر پابندی لگا رکھی ہے اور پاکستان کا شمار منہ کھر بیماری موجود ملکوں کی لسٹ میں ہوتا ہے۔ پاکستان کو اپنے آپ کو جلد از جلد منہ کھر بیماری سے پاک ملکوں کی لسٹ میں آنا ہے۔ اس کا حل ویکسینیشن اور بائیوسیکورٹی میں ہے۔ اس سلسلہ میں بہاولپور ڈویژن کے اضلاع میں بین القوامی اداروں کی مدد سے ویکسینیشن کے دو مراحل مکمل کر لئے گئے ہیں۔ تیسرے مرحلے کی تکمیل پر بہاولپور ڈویژن کو ورلڈ ارگنایزیشن فار انیمل ہیلتھ (WOAH) و دیگر بین القوامی اداروں سے منہ کھر بیماری سے پاک علاقہ قرار دلوایا جا سکے گا۔ اس سلسلہ میں بھی ہم یوروگوائے کو رہنما تصور کر سکتے ہیں۔ اس نے بھی ویکسینیشن اور بائیوسیکورٹی کے ذریعے اپنے آپ کو منہ کھر بیماری سے پاک منوایا ہے۔
3 ۔بہاولپور ڈویژن بشمول چولستان بڑے سرخ گوشت کے سلسلہ رسد کے حوالہ سے سب سے موضوع علاقہ بنتا ہے۔ بڑے سرخ گوشت کی افزائش و ترقی کے % 80 فیصد وسائل اس علاقہ میں پہلے سے موجود ہیں۔ چنانچہ پارلیمنٹ میں قانون سازی کے ذریعے بہاولپور ڈویژن کو بیف ڈویژن قرار دے دیا جائے تاکہ بڑے سرخ گوشت کی برآمد کیلئے سرمایہ کاری اسی علاقہ میں مرتکز ہو سکے فربہ گائیں، فیڈ فیکٹریاں اور مذبحہ خانے بن سکیں۔
۔4 بڑے سرخ گوشت کے بین القوامی سلسلہ رسد کو قائم رکھنے کیلئے ہمیں اپنے مویشیوں کی کل تعداد کا کم از کم % 4 فیصد فربہ گاہوں میں لانا ہوگا۔ جس کیلئے کم از کم 1000 مویشیوں کی گنجائش رکھنے والی 4000 بین القوامی معیار کی فربہ گاہیں درکار ہونگی۔ 1000 مویشیوں کی گنجائش کی فربہ گاہوں کو انڈسٹری قرار دینا ہو گا تاکہ انڈسٹری کو حاصل تمام فوائد سے وہ مستفید ہو سکیں۔سال 2024 میں بین القوامی گوشت کی مارکیٹ کی مالیت 1,43,000 کروڑ امریکی ڈالر رہی اور ہمارے بہت قریب میں خلیج تعاون کونسل کے 6 عرب ممالک کی گوشت مارکیٹ کی سالانہ مالیت 16000 کروڑ امریکی ڈالر ہے۔
پاکستان سال 2024 میں 300 کروڑ ڈالر کے امکانات ہونے کے باوجو محض 45 کروڑ امریکی ڈالر کا گوشت ہی برآمد کر پایا جس میں غالب حصہ 35 کروڑ امریکی ڈالر بڑے سرخ گوشت (بیف) کا رہا جبکہ صرف بڑے سرخ گوشت (بیف) کے حوالہ سے ہمارے کم از کم امکانات سالانہ 200 کروڑ امریکی ڈالر کے ہیں
اس وقت بشمول دیگر برازیل، آسٹریلیا، انڈیا اور نیوزی لینڈ کا شمار دنیا کے بڑے سرخ گوشت (بیف) کے بڑے برآمد کنندگان میں ہوتا ہے۔ جبکہ یوروگوائے اور نکارا گوئی بڑی رفتار کے ساتھ بین القوامی منڈیوں میں اپنا حصہ بڑھا رہے ہیں۔ برازیل 126 ممالک، ہندوستان 79 ممالک اور یوروگوائے 40 ممالک کی منڈیوں کو بڑا سرخ گوشت (بیف) برآمد کرتے ہیں جبکہ پاکستان کے محض صرف 13 ممالک کے ساتھ گوشت کی تجارت کرنے کے پروٹوکول ہیں اور ان میں سے بھی ہماری گوشت کی زیادہ برآمد صرف تین ممالک متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور کویت میں ہے جبکہ بشمول دیگر چین، ملائیشیا، اردن، اور مصر میں ہماری گوشت کی برآمدات نا قابل ذکر ہیں۔
اگر صرف بڑے سرخ گوشت (بیف) کے حوالہ سے پاکستان کے لائیوسٹاک کے اثاثہ جات کا جائزہ لیں تو ہم 6 کروڑ کے لگ بھگ گائے بچھڑوں کا لائیوسٹاک اثاثہ رکھتے ہیں۔ 5 کروڑ کے لگ بھگ بھینس کٹے اس کے علاوہ ہیں۔ 80 لاکھ خاندان مال مویشی پالتے ہیں اور ان سے رزق کشید کرتے ہیں۔ اس کے باوجود کہ ہم لائیو سٹاک کی افزائش و فربہ گاہی میں گئے گذرے وقتوں کے متروک شدہ نظریات و طریقہ ہائے کار پر بضد ہیں ہمارے لائیو سٹاک کے اثاثہ جات ملکی سالانہ مجموعی پیداوار میں %14 فیصد کے لگ بھگ حصہ ڈالتے ہیں اور سالانہ زرعی مجموعی پیداوار کا %60 فیصد کے قریب حصہ ہوتے ہیں۔
پاکستان کو بڑے سرخ گوشت (بیف) کے کم از کم سالانہ 200 کروڑ امریکی ڈالر کے امکانات کے حصول میں 4 بڑے چیلنج درپیش ہیں۔
1 ۔پہلا بڑا چیلنج ترقی یافتہ ممالک کے بڑے سرخ گوشت (بیف) کے معیارات سے ہم آہنگ ہونا ہے۔
2 ۔دوسرا بڑا چیلینج معیار کو قائم رکھتے ہوئے گاہکوں کی مانگ کے مطابق گوشت کے سلسلہ رسد کو مستقل بنیادوں پر قائم رکھنا ہے۔
3 ۔تیسرا بڑا چیلنج بین القوامی منڈیوں میں اپنے مسابقتی حریفوں مثلاً برازیل ، یوروگوائے، انڈیا اور نکارا گوئے کے مقابلہ میں معیار کو بلند کرتے ہوئے پراڈکشن لاگت کو مسابقتی رکھنا ہے
4 ۔خام گوشت کی بجائے ویلیو ایڈڈ برینڈڈ پراڈکٹس کی برینڈنگ و مارکیٹنگ کرنا۔
درج ذیل اساسی اقدامات ہمارے بڑے سرخ گوشت (بیف) کی سالانہ برآمد کو بہت جلد کم از کم 200 کروڑ امریکی ڈالر کر سکتے ہیں۔
1۔ اس وقت پاکستان میں گوشت کے کاروبار سے متعلق لیگل فریم ورک کوئی 22 کے قریب Acts اور Ordinances پر مشتمل ہے۔ سب سے پرانا ایکٹ 1871 سے ہے۔ مزید برآں مرکزی حکومت کی وزارت کامرس اور وزارت نیشنل فوڈ سیکورٹی و ریسرچ اور صوبائی وزارت لائیو سٹاک اور ان تمام سے منسلک ڈیپارٹمنٹ، ٹیکنیکل ونگ و ادارے براہ راست گوشت پراڈکشن و برآمد کے معاملات کو دیکھتے ہیں۔
تجویز ہے کہ اگر خصوصی سہولت کاری کونسل برائے سرمایہ کاری کے زیر انتظام بڑے سرخ گوشت (بیف) کے افزائش نسل سے گوشت بننے تک کے تمام مراحل سے متعلق لیگل فریم ورک کو دنیا کے بڑے گوشت برآمد کرنے والے ممالک مثلاً چین، کوریا، جاپان، تھائی لینڈ، ویت نام ، یورپین یونین، سنگا پور، ہانگ کانگ وغیرہ سے پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد ہم آہنگ کر دیا جائے تاکہ ان کے تحت قائم ہونے والی ریگولیٹری اتھارٹیز، کوالٹی معیارات، طریقہ ہائے کار انسپیکش اور کڑی نگرانی کا نظام بین القوامی سطح پر قابل قبول ہو سکے اور جدید دور کے تقاضوں کو پورا کیا جا سکے اور دنیا کیلئے ہمارے مویشی، فربہ گاہیں، مذبحہ خانے، گوشت اور پیکنگ قابل قبول ہو سکے ۔
2۔ آج کی دنیا بالعموم فوڈ اور بالخصوص گوشت کے حوالہ سے اس کے حلال، صحت مند اور محفوظ ہونے کے رائج الوقت معیارات پر کوئی چھوٹ دینے یا کم تر درجہ پر سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں۔ اس کا حل ہر مویشی کی شناخت اور اس کی گوشت کے سلسلہ رسد میں سراغ رکھنے کے نظام میں ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں اس کا نفاذ ہو چکا اور اب ترقی پذیر ممالک بھی اس نظام کا نفاذ کر رہے ہیں۔ (جاری)