ترجمان ِ وطن

غلامی کا طوق اپنے گلے سے نکالنے کے لیے قائداعظم محمد علی جناح نے جس طرح مسلمانوں کو اکٹھا کیا۔ محکوم و مجبور مسلمانوں کو ایک راستہ دکھا کر نشان منزل پہ لا کھڑا کیا، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ ہماری سیاسی بصیرت نے دو قومی نظریے کی بنیاد پر اپنا مطالبہ منوا لیا۔ اس مطالبے کے پرچار کے لیے حمید نظامی نے ‘نوائے وقت’ کا اجراء کیا اور مرحوم حمید نظامی کے نقطہ نظر کو ان کی وفات کے بعد ان کے عزیز بھائی مجید نظامی نے ‘نوائے وقت’ تحریک پاکستان کے لیے وقف کردیا۔ کسی بھی ایسی تحریک کا حصہ بننا جس کے ہزاروں مخالف اور دشمن ہوں اور اس تحریک کو ببانگ دہل حرف بہ حرف سچائی اور عزم کے ساتھ لکھنا اور کسی بھی خوف کے شکار کے بنا اس تحریک کی زینت بنانا یہ حمید نظامی مرحوم اور مجید نظامی مرحوم کا ہی بے مثل حوصلہ ہوسکتا تھا، قابل داد استاد اور جوشیلے تحریک پاکستان کے یہ داعی 26 جولائی 2014ء اور 27 رمضان کو ہم سے بچھڑے لیکن آج بھی روزنامہ ‘نوائے وقت’ کے لفظ لفظ اور ورق ورق سے ان کی جذبہ حب الوطنی اور خودداری کی مہک آتی ہے۔ مجید نظامی ‘نوائے وقت’ کا وہ قیمتی ہیرا ہیں جو صحافت کی اقدار کے تاج پہ جڑَا ہے۔ ملکی سطح ہو یا بین الاقوامی سطح مجید نظامی مرحوم نے سچائی تک رسائی حاصل کی اور ظلم و استبداد کے خلاف آواز اٹھانے میں کوئی دقیقہ فردگزاشت نہیں کیا۔
 ہم سب جانتے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں کس طرح دشمنوں کے مظالم کشمیری مسلمانوں کو لہولہان کررہے ہیں۔ مجید نظامی مرحوم نے واشگاف الفاظ میں ہمیشہ ان کے لیے اپنے اخبار کی صفحات کو رنگین کیا اور آج بھی ‘نوائے وقت’ کے پہلے صفحے پہ روزانہ کشمیریوں پہ ہونے والے انسانیت سوز سلوک کے دنوں کا شمار لکھا جاتا ہے جس طرح یہ اخبار برصغیر کے مسلمانوں کے جذبوں اور ارادوں کی آواز بنا تھا اسی طرح آج بھی یہ ہرمظلوم طبقے بلا تفریق وطن اور دین کی آواز بنا ہوا ہے۔ یہ مجید نظامی اور ان کی ٹیم کی شبانہ محنت کا ثمر ہے۔ مجید نظامی مرحوم نے ہمیشہ آزاد غیر جانبدار، جرأت مندانہ، مستحکم عزم کے ساتھ نہ صرف ملکی مفادات کا تحفظ کیا بلکہ اپنی فکر اور اساس پاکستان کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے حق و سچ کو فروغ دیا، وہ باطل کو مٹھی بھر ریت سمجھا کرتے تھے، شعبہ صحافت کے وہ سپاہی تھے جو بدر و حنین کے مقابلے میں غازی ٹھہرے۔ مجید نظامی کہا کرتے تھے کہ غیرت مند قوم کبھی سودے بازی نہیں کرتی۔ ان کا اٹھنا بیٹھنا، سونا جاگنا، ہرپل ملک پاکستان اور اس کی نظریاتی اساس کے لیے وقف تھا۔ وہ انتہائی تحمل مزاج رکھتے تھے، پیار و محبت سے بات کرتے جہاں وطن اور قائد کی بات آجاتی ان کا لہجہ قدرے بلند ہو جاتا ان کے الفاظ وطن سے سرشاری کا لبادہ اوڑھ لیتے اور جذبات سے لبریز ہو کر وہ کسی کی بھی بے جا اور وطن کے خلاف ایک بھی جملہ برداشت نہ کرتے، انھیں مذاق میں بھی وطن کی ہزیمت قبول نہ تھی۔ ان کی سوچ تھی کہ جو اپنے وطن کا مذاق اڑا سکتا ہے یا اس کے خلاف کوئی بھی نکتہ اٹھا سکتا ہے وہ اپنے ماں باپ کا مذاق اڑانے میں کبھی تاخیر نہیں کرتا۔ وہ نوجوانوں کی آنکھوں میں عزم اور مشن کا چراغ روشن رکھنے کے لیے ہمیشہ کوشاں رہتے۔ نظریہ پاکستان ٹرسٹ ہی ان کی حب الوطنی کی تاریخی اہمیت کا حصہ ہے۔
 کسی بھی قوم کو مضبوط کرنے کے لیے نوجوانوں کے شعور کو اجاگر کرنا انتہائی ناگزیر ہے۔ یہ کام مجید نظامی مرحوم نے قلم کے ذریعے کیا، تحریک پاکستان کے لیے اور بعد از قیام پاکستان سے لے کر آج تک ‘نوائے وقت’ مجید نظامی مرحوم کے زیر سایہ ترجمانِ وطن کا کام کر رہا ہے، ہر شک و شبہ سے بالا تر مجید نظامی اور ‘نوائے وقت’ کی بنیادی فکر و نظریہ سے گہری وابستگی سے پاک صحافت کا شاخسانہ ہے، جہاں حمید نظامی مرحوم کو بانی ‘نوائے وقت’ کہا جاتا ہے وہاں مجید نظامی کو معمار صحافت بھی کہا جاتا ہے۔ بہت کم ایسی شخصیات ہیں جو سرخیل صحافت ہیں ان میں بے مثل ہمارے مجید نظامی مرحوم کا نام بھی سر فہرست ہے، سنہری حرفوں سے لکھی جانے والی صحافت کی بے مثل تاریخ میں ان کا ستارہ ہمیشہ چمکتا رہے گا۔
ملکی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت وردی پہنے بنا کرنا ایک صحافت کے سپہ سالار کا ہی کام ہے۔ دوسرے اخبارات اور معمار صحافت سے بالا تر مجید نظامی اور ان کی صحافتی خدمات کو اس لیے بھی منفرد مقام حاصل ہے کیونکہ قائداعظم محمد علی جناح کی خواہش اور ہدایات پر تحریک پاکستان کی سربلندی کے لیے حمید نظامی مرحوم نے اس کی بنیاد رکھی۔ میرا خیال تویہ ہے کہ’’ْاس وقت وہ وقت کی ضرورت تھا اور آج وقت کو ‘نوائے وقت’ کی ضرورت ہے‘‘۔
غالب نے شاید یہ شعر مجید نظامی کے قلم کی نوک سے لکھنے والی نظریاتی تحریکوں کے لیے کہا تھا کہ 
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں 
غالب صریرِ خامہ نوائے سروش ہے
پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی ترقی اظہر من الشمس ہے لیکن جس طرح اس ترویج کے ساتھ ساتھ مجید نظامی مرحوم اور اب ان کی بیٹی محترمہ رمیزہ نظامی نظریاتی اور جر?ت مندانہ صحافت کی ذمہ داری نبھانے میں کلیدی کردار ادا کررہی ہیں۔ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ 2011ء  میں محترم مجید نظامی مرحوم سے ان کے دفتر میں ملاقات 
ہوئی اور انھوں نے میرا شوق دیکھتے ہوئے کہا کہ آپ ہمارے لیے کالم لکھیں اور 6 جون 2011ء  کو میری تحریر ‘نوائے وقت’ کی زینت بنی اور آج تک یہ سلسلہ جاری ہے ان کی مدبرانہ شخصیت کا سحر آج بھی مجھے مرعوب کرتا ہے، یہ سچ ہے کہ ہم جیسے لوگوں نے صحافت کرنا اور مشکل ترین حالات میں اصولوں کے ساتھ سمجھوتہ نہ کرنا مرحوم مجید نظامی کی شخصیت اور ان کے زندگی کے سفر سے سیکھا ہے۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن