کہاں گیا وہ سکونِ قلب؟

عجیب دور آگیا ہے کہ انسان انسان کو برداشت نہیں کر پارہا۔ سارا سارا دن اور ساری ساری رات محنت کرنے کے باوجود پیٹ بھر کر روٹی نصیب نہیں ہوتی۔ بازار سے سبزی نہیں خریدی جاسکتی۔ فروٹ دیکھ سکتے ہیں خرید کر کھا نہیں سکتے۔ دودھ دہی نایاب ہوتا جارہا ہے۔ دیسی گھی کی تو نو جوان نسل اب واقف ہی نہیں رہی۔ حالانکہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔تاحد نگاہ کھیت ہی کھیت ہیں۔ غلہ اورہرقسم کی سبزیات بکثرت اگائی جاتی ہیں۔ فروٹ کے باغات بھی میلوں تک پھیلے ہیں۔ ہرقسم کے جانوروں کی بھی کمی نہیں لیکن روٹی غریب آدمی کی پہنچ سے باہر ہو چکی ہے۔ پھر ہماری تباہی و بے بسی صرف ایک ہی میدان میں نہیں بلکہ چولہے ٹھنڈے ہیں کہ گیس نہیں۔ بجلی اور گیس کی عدم موجودگی میں سخت سردی اور سخت گرمی نے سکون سے محروم کر دیا ہے۔ بجلی نہیں تو پانی کہاں سے آئیگا۔ زندگی ایک عذاب بن گئی ہے۔ ہر طرف بھیک مانگنے والوں کی فوج نظر آتی ہے۔ ہسپتال مریضوں سے بھرے پڑے ہیں بلکہ مریض ہسپتال کے برآمدوں اور باہر لانوں تک زندگی کی جنگ لڑتے ہوئے مجبور و بے کس پڑے نظر آتے ہیں۔ مسائل کا انبار اسقدر ہے کہ ''سکون'' کا نام ہی عنقا ہو چکا ہے۔ لوگ گزرے ہوئے دور کو یاد کر کے روتے ہیں۔ آج مجھے اپنا پشاور یونیورسٹی کا 64-1963ء کا وہ دور یاد آ رہا ہے جب زندگی عذاب نہ تھی۔
کالج اور یونیورسٹی کا زمانہ تو ویسے ہی انسانی زندگی کا سنہری دور ہوتا ہے۔ بہت سی یادوں کے ساتھ ساتھ جو خصوصی یاد کرنے والی بات تھی وہ اْس دور کا خرچہ تھا۔ ہمارا ہوسٹل کا کل خرچ مبلغ -/19 روپے ماہانہ ہوتا تھا۔ یونیورسٹی فیس بھی بہت معمولی تھی۔ یونیورسٹی کے دنوں میں گھومنے پھرنے کی عادت ایک عام سی بات ہے۔ ہوٹلنگ بھی ہوتی۔ کپڑے۔ کتا بیں اور باقی سارا خرچہ ملا کر چالیس یا پچاس روپے سے زیادہ کبھی نہ تھا۔ اس دور میں اسلامیہ کالج پشاور کے پاس اور صدر کے علاقے نوتھیا میں کریمو کباب والا چیلی کباب کے لئے مشہور تھا۔ ہم تمام ہوسٹل والے طلباء ہفتے میں ایک آدھ بار ضرور وہاں جاتے۔ چار آنے کا بڑا کباب جس میں انڈہ بھی ڈالا جاتا اور دو آنے کا نان بمشکل سے ایک آدی ختم کر سکتا تھا۔ بعض اوقات دولڑکوں کا بھی گزارا ہو جاتا۔ چیلی کباب اور نان ہماری دعوت ہوتی تھی۔ مجھے اپنی تعلیم کیلئے اپنی ذات پر بھروسہ کرنا پڑا۔ اس لئے صرف ایک ٹیوشن رکھی جہاں سے مجھے-/80 روپے ماہانہ ملتے۔ اس رقم سے میرا یونیورسٹی کا دور شاہانہ طور پرگزرا اور جب امتحانات سے فارغ ہوا تو میرے پاس تقریبا -/500 روپے جمع تھے۔ انہی دنوں ہمارے ایک قبائلی ساتھی نے بتایا کہ پشاور صدر میں باٹا کی دوکان پر ایک نیا جوتا آیا ہے جس کی قیمت -/99 روپے-/15  آنے ہے۔ با الفاظ دیگر سو روپے۔ ہم سب نے اْس کا مذاق اڑایا کہ یہ قبائلی خان اپنی دولت کا رعب جھاڑنے کیلئے ہمیں بے وقوف بنا رہا ہے ورنہ سو روپے کا جوتا نا ممکن! ایک لڑکے نے مذا قاً پوچھا۔’’یار یہ انسانی چمڑے کا بنا ہے کہ اتنا مہنگا ہے؟‘‘ بہر حال اس پر شرط لگی۔ ہم سب یہ جو تا دیکھنے گئے اور ہم شرط ہار گئے۔ پہلی دفعہ ہمیں مہنگائی کا احساس ہوا۔ ہماری کلاس میں سب سے بڑا طالبعلم لعل بادشاہ آفریدی تھا جس کے سر کے بال سفید تھے اور تین بچوں کا باپ تھا۔جب ہم باٹا کی دکان پر گئے اْس نے جوتا اٹھا کر خوب غور سے دیکھا۔ دیکھ کر کانوں کو ہاتھ لگایا اور فوری فتویٰ دیا۔ ’’یارا قیامت آنیوالا ہے۔‘‘
ہمارے دور سے ذرا پیچھے جائیں تو اس دور میں انگریز فوج کے سپاہی کی تنخواہ -/ 5 روپے ماہانہ تھی اور پھر سات روپے ہوئی۔کشمیر کا مشہور مہاراجہ گلاب سنگھ اپنی نو عمری میں ’’گلا بو‘‘ کے نام سے جانا جاتا تھا اور وہ 2 /2/ 1 روپے ماہانہ پر سکھ فوج میں ملازم ہوا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب ہر چیز سستی ہوتی تھی۔ شاید ضروریات زندگی بھی بہت محدود تھیں۔ بھارت کے مشہور جرنیل پرتاب نارائن نے اپنی سوانح عمریFrom Subedar to Field Marshal میں لکھا ہے کہ 1936ء میں اْسے 50 روپے ماہانہ الاؤنس ملا تو وہ بہت خوش ہوا۔ دفتر سے گھر واپس جاتے ہوئے راستے میں اْس کی گاڑی خراب ہو گئی جسے اْس نے مستری کے پاس چھوڑا اور خود بنگلور کے سب سے مہنگے ہوٹل میں کھانا کھانے چلا گیا۔ وہاں اس نے ’’تھالی لنچ‘‘ کا آرڈر دیا۔ یاد رہے کہ ہندو ’’تھالی کھانا‘‘ ہی پسند کرتے ہیں۔ یہ تھالی لنچ چھ ڈشز پرمشتمل تھا۔ اس میں چاولوں پر ڈالنے کیلئے دیسی گھی کا بھرا ایک پیالہ بھی تھا۔ کھانے کے بعد اس Lavish کھانے کا کل بل صرف چھ پیسے تھا۔
Gates of India by Col. Sir Thomas Holdichمیں ایک 1830ء کا واقعہ کچھ اس طرح درج ہے کہ میسن Masson نامور امریکن سیاح ہندوستان آیا۔ یہ شخص راجستھان سے سندھ میں داخل ہوا اور بعد میں سندھ، پنجاب، بلوچستان، افغانستان اور روسی ترکستان تک گیا۔ اس کا سفر چونکہ پیدل تھا اس لیے اس کے مشاہدات دلچسپ بھی ہیں اور بعض اوقات خاص کر موجودہ دور کے تناظر میں باعث تعجب بھی۔ جب یہ شخص سندھ میں داخل ہوا تو اس نے بھیس بدل کر اپنے آپ کو منگول ظاہر کیا کیونکہ اس وقت علاقے میں منگول تھے اور کسی نے اس پر شک نہ کیا۔ اْس وقت تک سندھ میں بعض مقامات پر عرب بستیاں بھی موجود تھیں اور ان کا طرز رہائش، لباس اور زبان تک مقامی لوگوں سے قدرے مختلف تھی۔ یہ لوگ تا حال مقامی آبادی میں پوری طرح مدغم نہیں ہوئے تھے۔ میسن سندھ میں سیاحت کرتا کرتا ریاست بہاولپور میں داخل ہوا۔ بہاولپورکا زیادہ تر علاقہ اس وقت تک ریگستان تھا جس میں ریت کے ٹیلے،سرکنڈوں کے جھنڈ اور کہیں کہیں نخلستان اور آبادیاں تھیں۔ جس چیز سے وہ سب سے زیادہ متاثر ہوا وہ یہاں پیر اور سید تھے جو بغیر کچھ کیے بہت با اثر تھے اور بعض اوقات لوگ اْن کی پوجا کرنے کی حد تک عزت کرتے تھے۔ یہ سب کچھ میسن جیسے شخص کے لیے باعث حیرانگی تھا۔ ان میں سب سے اہم لوگ سید تھے جنہیں ہر گناہ سے پاک قرار دیا جاتا اور وہ جو مرضی کریں اْن سے پوچھا نہیں جا سکتا تھا۔ یہ واقعی باعث تعجب بات تھی کہ سید گناہ سے پاک کیسے بن گئے؟ اگر آج کے دور میں میسن ہوتا تو وہ مزید حیران ہوتا کہ پچھلی کئی صدیوں سے سیدوں کا سٹیٹس بالکل تبدیل نہیں ہوا بلکہ اب بھی وہ اتنے ہی با اثر اور طاقتور لوگ ہیں۔ اب وہ صرف گناہ سے پاک ہی نہیں بلکہ حکومت کرنا بھی اپنا حق سمجھتے ہیں۔
   بہاولپور میں گھوم پھر کر یہ شخص فاضل پور نامی ایک گاؤں میں پہنچا۔ یہاں اس کی ملاقات رحمت خان نامی ایک چھوٹے سے زمیندار سے ہوئی۔ رحمت خان بڑا خوش باش اور کھلے دل کا مہمان نواز قسم کا شخص تھا۔ عادات کے لحاظ سے بڑا صاف ستھرا اور مخلص قسم کا انسان۔ لہذا میسن کو اْس نے اپنا مہمان بنایا اور خوب خدمت کی۔ میسن کوروزانہ دھلے دھلائے کپڑے ملتے، اچھا کھانا ملتا،سونے کے لیے آرام دہ بستر،موسم قابل برداشت، ارد گرد ہریالی تو میسن کو یہ جگہ بڑی پسند آئی۔ وہ ویسے بھی پیدل چل چل کر تنگ آچکا تھا۔ غیر مناسب اور غیر متوازن خوراک، دریا کا پانی، ظالم موسم کی وجہ سے بے حال تھا۔ یہاں اْسے آرام ملا اور اچھی میزبانی بھی تو وہ یہاں ایک ماہ رکا رہا۔ اس دوران وہ جسمانی طور پر کافی حد تک سنبھل گیا تو اْس نے لاہور جانے کا فیصلہ کیا۔ روانگی سے پہلے رحمت خان نے اپنے مہمان کی شاندار ضیافت کی اور کھانے کے بعد رات کو ناچ والی لڑکیاں بلائیں۔ ماحول ایک بڑی تقریب میں بدل گیا۔ اس ساری تقریب پر ایک روپیہ خرچ ہوا۔
روانگی سے پہلے رحمت خان نے اپنے مہمان کی مدد کرنا چاہی لیکن اْس کے پاس نقدی نہ تھی۔ اْس نے ایک ہندو بنیئے سے دو روپے اْدھار لیے اور صبح بوقت روانگی اپنے مہمان کو پیش کیے۔ میسن فاضل پور سے چل کر ایک ہفتے میں ملتان پہنچا۔ یہاں سے وہ دریائے راوی کے ساتھ ساتھ لاہور روانہ ہوا۔ فاضل پور سے لاہور تک تقریباً360 میل کا راستہ اس نے ساڑھے تین ماہ میں طے کیا۔اس کے پاس ان دوروپوں کیعلاوہ کوئی نقدی نہ تھی۔ راستے میں کھانے پینے، رہائش اور باقی اخراجات کو نکال کر جب وہ لاہور پہنچا تو اْس کے پاس 8 آنے یعنی آدھا روپیہ تا حال باقی تھا۔
  آج کل کے دور میں یہ سب کچھ کسی معجزے سے کم نظر نہیں آتا کیونکہ مہنگائی نے لوگوں کی سوچ ہی مفلوج کر دی ہے۔ آج وہ زمانہ ہے کہ 2 روپے فقیر بھی بھیک کے طور پر قبول نہیں کرتا لیکن اْس دور میں 2 روپے ایک خطیر رقم تھی۔ اس بات کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ بہت بعد 1876ء میں انگریزوں نے کوئٹہ میں چھاؤنی کے لیے زمین خریدی تو اول درجے کی زمین 100 روپیہ فی ایکڑ، درجہ دوم 75 روپے فی ایکڑ اور درجہ سوم 50 روپے فی ایکڑ ملی۔
   تاریخ کو مختلف ادوار میں تقسیم کر کے اسے مختلف نام دیئے گئے ہیں مثلاً پتھر کا زمانہ، دھات کا زمانہ وغیرہ تو موجودہ دور کو’’سہولتوں اور مہنگائی کا زمانہ‘‘ کہا جاسکتا ہے۔ موجودہ دور کے انسان کو جو سہولتیں آج حاصل ہیں انکا ماضی میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا لیکن ان سہولتوں کے پردے میں مہنگائی، پریشانیاں اور ٹینشن بھی ہمارے ہی دور کا خاصہ ہے جس کا اس دور میں ادراک نہ تھا۔ اس دور میں پیسہ واقعی نہ تھالیکن زندگی بہت پر سکون تھی۔آج ہم تما م تر سہولتوں، عیاشیوں اور بے پناہ دولت کے باوجود اس سکون قلب سے محروم ہیں جو ہمارے آباؤ اجدادکومیسرتھا۔

ای پیپر دی نیشن