انڈے، برائلر مرغی، چینی کوکنگ آئل پھر سے مہنگے

پاکستان مسلم لیگ ن نے اپنے اتحادیوں سے مل کر جس طرح پہلا برس گزار ہے اس کا اندازہ وہ خود ہی کر سکتے ہیں اس کے باوجود حکومت عوام کو ریلیف دینے کے لئے نئے منصوبے سامنے لارہی ہے جس سے یقینی طور پر آنے والے وقت میں شہریوں کو ضرور فائدہ ہوگا۔ چاہے وفاق کی حکومت ہو یا پنجاب کی حکومت ہو وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر اعلیٰ مریم نواز اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ عوامی مفاد کے منصوبوں سے ہی کامیابی اور مقبولیت حاصل کی جاسکتی ہے۔پنجاب میں مریم نواز نے گزشتہ ایک برس میں بے شمار کام کئے ہیں اور جس طرح وہ دن رات کام کر رہی ہیں وہ ماضی کے تمام وزرائے اعلیٰ کا ریکارڈ توڑ دیں گی۔ ان کے کاموں کی جتنی تعریف کی جائے وہ کم ہے۔ مریم نواز کے تمام پراجیکٹ کامیابی سے ہم کنار ہورہے ہیں اب وفاق اور پنجاب کیلئے ایک امتحان اور ہے وہ رمضان المبارک میں مہنگائی کے طوفان کو کنٹرول کرنا اورذخیرہ اندوزوںکے خلاف ایکشن لے کر مصنوعی مہنگائی کرنے والوں کا محاسبہ کرنا ہے۔پنجاب میں جس طرح تجاوزات کا خاتمہ آہستہ آہستہ ہو رہا ہے مگر اس کے باوجود تجاوزات مکمل ختم نہیں ہوئیں مگر کم ضرور ہوئی ہیں ابھی بھی مافیا چوری چھپے ان کو مدد فراہم کررہا ہے اسی طرح مہنگائی کرنے والے اور کروانے والے عناصر بھی یہاں موجود ہیں ۔اگر ہم ادارہ شماریات کو دیکھیں توان کی کہانی میں مہنگائی کا گراف تیزی سے اونچا ہی جارہا ہے ان کے مطابق گزشتہ  ایک ہفتے میں ایک درجن انڈوں کی قیمت میں 20 روپے اضافہ ہوا ہے۔ ایک کلو زندہ برائلر مرغی کی قیمت اس وقت 462 روپے ہے جبکہ جنوری میں 1 کلو زندہ برائلر مرغی کی قیمت 420 روپے تھی اور گزشتہ برس دسمبر میں زندہ برائلر مرغی کی قیمت 320 روپے تک ریکارڈ کی گئی تھی۔ جنوری میں کوکنگ آئل اور گھی کی قیمت قریباً 550 روپے کلو تھی، جو فروری کے آغاز میں بڑھ کر 600 روپے ، ڈالڈا گھی کی قیمت میں بھی 60 روپے فی کلو تک کا اضافہ ہوا تھا، لیکن ماہ رمضان سے قبل گھی اور آئل کے 12 لیٹر والے کارٹن پر 100 روپے کا اضافہ ہوا ہے، اسی طرح ڈالڈا گھی کے ایک پیکٹ پر 20 روپے کا اضافہ ہوا ہے۔جنوری کے مہینے میں چینی کی قیمت میں سب سے زیادہ 30 روپے فی کلو کا اضافہ ہوا ہے، جس کے بعد فی کلو چینی کی قیمت 130 روپے سے بڑھ کر اب 163 روپے ہوگئی ہے۔ گزشتہ برس دسمبر میں بھی مختلف دالوں کی قیمتوں میں بھی 80 سے 100 روپے فی کلو تک کا اضافہ ہوا تھا تاہم ماہ جنوری میں قیمتوں میں 20 روپے فی کلو تک کی کمی کے بعد اب رواں ماہ کے دوران دالوں کی قیمتیں برقرار ہیں۔ مارکیٹ ریٹس کے مطابق بیسن فی کلو بیسن 340 روپے تک فروخت ہو رہا ہے۔جنوری میں آٹے کے 20 کلو والے تھیلے کی قیمت 1750 روپے تھی، جو فروری کے آغاز میں معمولی کمی کے بعد 1700 روپے ہوگئی تھی لیکن اب ایک مرتبہ پھر 20 کلو آٹے کی قیمت میں 30 روپے کا اضافہ ہوا ہے جس کے بعد 20 کلو آٹے کے تھیلے کی قیمت 1730 روپے ہوگئی ہے۔فروری کے آغاز میں چاول کی فی کلو قیمت 280 روپے سے بڑھ کر 370 روپے ہوگئی تھی، اس وقت چاول کی قیمت میں گزشتہ ایک ماہ کے دوران 90 روپے تک کا اضافہ ہوچکا ہے۔آلو کی قیمت جنوری میں 65 روپے فی کلو تھی، جو فروری کے آغاز  میں کم ہو کر 55 روپے فی کلو ہوئی مگر اب  65  روپے فی کلو ہیں۔جنوری میں پیاز کی قیمت 115 روپے فی کلو تھی جو ماہ فروری کے آغاز میں 85 روپے پر ہے۔  ٹماٹر 80 روپے فی کلو ہیں۔جنوری میں فی درجن کیلے کی قیمت 140 روپے تھی۔ جو رواں ماہ کے آغاز میں 170 روپے ہوئی اور اس وقت منڈی ریٹ کے مطابق فی درجن کیلے کی قیمت 220 سے 243 روپے ہوچکی ہے۔ماہ فروری کے آغاز میں فی کلو سیب کی قیمت 290 روپے تھی، جس میں واضح کمی کے بعد اور اس وقت سیب کی فی کلو قیمت 145 سے 155 روپے ہوچکی ہے۔
انار کی قیمت 385 روپے فی کلو  سے بڑھ کر 400 روپے ہوگئی ہے جبکہ کینو کی قیمت رواں برس کے آغاز میں 260 سے 280 روپے فی درجن تھی، لیکن اس وقت کینو کا منڈی ریٹ 370 سے 385 روپے فی درجن تک پہنچ چکا ہے۔یہ کہانی تو رمضان المبارک کی آمد سے تین یا چار روز قبل کی ہے لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا جائے گا مہنگائی کا گراف اوپر جاتا رہے گا ۔ہر برس ایسا ہی ہوتا ہے مگر اس پر قابو پانے کیلئے حکومت کے پاس میکنزم تو موجود ہے ۔ حکومت کو اپنے  اختیارات اور ریاستی مشینری کو بروئے کار لا کراس کے ذریعے ایسے عناصر پر قابو پانا ہو گا جو عوام کی جیبوں کی صفائی کرتے ہیں۔ پنجاب میں مہنگائی کو کنٹرول کرنا مریم نواز کے لیے بھی چیلنج سے کم نہیں ہیں انہیں اس کیلئے اقدامات کرنا ہوں گے۔کیونکہ اطلاعات ایسی ہیں کہ ذخیرہ اندوزوں نے پوری تیاری کرلی ہے کہ وہ ایسی آئٹمز کی مصنوعی قلت پیدا کریں گے جس کی مانگ رمضان المبارک میں بڑھ جاتی ہے۔ لہذا پنجاب کے اندر ایسے عناصر کو لگام ڈالنے کی ضرورت ہے اس کے لیے پنجاب کی انتظامیہ کو مسلسل حرکت میں رکھنا ہوگا اسسٹنٹ کمشنر سے ڈپٹی کمشنرز تک اور کمشنرز سیکرٹریز کو فیلڈ میں رہنا ہوگا۔ وزیر اعلیٰ کو مارکیٹ میں سپلائی اور ڈیمانڈ کو برقرار رکھنے کیلئے صوبے کے ایم این ایز اور ایم پی ایز کو بھی ہدایات دینا ہوگی۔

ای پیپر دی نیشن