بلوچستان اور پارا چنار کرم میں دہشتگردی 


مختلف ادوار میں بلوچستان کی تاریخ دہشت گردی ، شورش اور انتشار کے لحاظ سے بڑی پیچیدہ ہے ،قیام پاکستان کے دوسرے سال ہی1948ء میں بلوچستان کی ریاست قلات نے پاکستان میں شمولیت کی پہلے تو مخالفت کی تھی ، جس کے بعد ریاست پاکستان سے مذاکرات کے نتیجہ میں ریاست قلات پاکستان میں ضم ہو گئی، لیکن کچھ بلوچ قوم پرستوں نے اسے زبردستی کا الحاق قرار دیا ، جس کی وجہ سے وہاں بد امنی اور شورش نے جنم لیا ، اسکے بعد 1970 ء کی دہائی میں بلوچ لبریشن فرنٹ اور دیگر قوم پرست تنظیموں نے حکومت پاکستان کے خلاف مسلح جدوجہد کا آغاز کیا ، 2000 ء کی دہائی میں علیحدگی کی یہ تحریکیں زور پکڑگئیں، بلوچستان میں متعدد فوجی آپریشن کئے گئے خاص طور پر 2006 ء کے آپریشن کے بعد بلوچ قوم پرستوں نے اپنے حقوق اور وسائل پر اختیار کے لئے جدوجہد تیز کردی ، ان تحریکوں میں مختلف گروہ شامل ہیں جو بلوچستان کی خود مختاری یا آزادی کے لئے سرگرم ہیں ۔
نومبر 2024 ء میںایپکس کمیٹی کے اعلامیہ میں بی ایل اے اور ان کے ذیلی ونگ مجید برگیڈ ، ڈاکٹر اللہ نذر کی بی ایل ایف براس کو نشانہ بنانے کا علان ظاہر کرتا ہے کہ حکومت ان علیحدگی پسندوں کو شورش میں اہم عنصر تصور کرتی ہے ، بلوچستان میں فوجی آپریشن کے فیصلے کے پس پردہ حقائق میں ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں تواتر سے بلوچ لبریشن آرمی نے دہشت گرد حملے کئے ، جس میں سیکورٹی اہلکاروں سمیت چینی باشندوں کو خاص کر نشانہ بنایا گیا تھا ، اس کے باوجود وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے بلوچستان میں ملٹری آپریشن کی مخالفت کی ،بلوچ لبریشن آرمی نے نومبر میں کوئٹہ کے ریلوے اسٹیشن پر خودکش حملہ کر کے اسے اپنی انٹیلی جنس کی بڑی کامیابی قرار دیا تھا ، اس حملے میں سیکورٹی اہلکاروں سمیت 25سے زائد افراد ہلاک اور 50 سے زیادہ زخمی ہوئے تھے ۔
بلوچستان میں سانحہ ’’ دکی ‘‘ اور ایران جانے والے قافلوں پر دہشتگردانہ حملے علاقے اور پاکستان کے اتحاد و استحکام کے لئے تشویشناک ہیں ،اس کے علاوہ چینی باشندوں کی ہلاکت سے چین کی حکومت پریشان ہے اور پاکستان پر اپنا دبائو بڑھا رہی ہے کہ پاکستان میں کام کرنے والے ہزاروں چینی شہریوں کے تحفظ کے لئے چینی سیکورٹی اہلکاروں کو تعینات کرنے کی اجازت دے ، پاکستان چینی شہریوں کی سیکورٹی کے لئے رینجرز،لیویز، پولیس کے علاوہ فوج بھی تعینات کی جاتی ہے، بلوچستان میں شورش ،بد امنی اور دہشت گردی ایک سنگین مسئلہ ہے ، صوبے کی مایوس کن صورتحال سے لگتا ہے کہ ریاست کا قومی بیانیہ علیحدگی پسندوں کی شر پسندانہ کاروائیوں کی وجہ سے کمزور پڑ گیا ہے۔       
اسی طرح پارا چنار ضلع کرم میں گزشتہ تین سالوں سے زمینی تنازعات کی وجہ سے مقامی قبائل کے درمیان لڑائی جھگڑے اور قتل و غارت گری جاری ہے ، کرم میں تری مینگل اور پیواڑ غنڈی خیل قوم کے آپس کے زمینی تنازع پر حالات کشیدہ اس وقت ہوئے جب کہ گیدو کے مقام پر جنگلات اور آراضی کے مسائل نے جنم لیا، اور تری مینگل قبیلے کے افراد جو کہ طاق لگائے بیٹھے تھے انہوں نے پیواڑ قوم کے افراد پر اس وقت فائرنگ کی جب وہ پہاڑوں سے لکڑی لینے کے غرض سے وہاں گئے تھے ، فائرنگ کے نتیجہ میں پیواڑ کے 11 افراد ہلاک ہوئے تھے ، اکتوبر 2023 ء میں ایک طالب علم کو پارا چنار سے تری مینگل جاتے ہوئے نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا جس کا بدلہ 8 اساتذہ کو دوران ڈیوٹی تری مینگل اسکول میں مقامی لوگوں نے کمروں میں بند کر کے بے دردی سے قتل کر کے لیا تھا ، کرم پارا چنار میں جب بھی ایسے واقعات ہوتے ہیں تو جرگے بیٹھتے ہیں اور وقتی طور پر معاملات پر امن رہتے ہیں ، حالیہ شورش کا سد باب فریقین کے مایوس کن رویے کی وجہ سے طول پکڑ گیا ہے ، مقامی انتظامیہ اور قانون نافظ کرنے والے ادارے امن معاہدے کی کوششوں میں کامیاب ہوئے لیکن حالات کشیدہ ہیں، ضلع کرم کے صدر مقام پارا چنار سمیت اپر اور لوئر کرم کے 100 سے زائد دیہات کرفیو کے نفاذکی وجہ سے پچھلے ساڑھے تین ماہ سے محصور ہیں ، افغانستان سے جڑی کرم کی طویل سرحد علاقے میں بد امنی کی ایک بڑی وجہ ہے ، جون 2023 ء میں پاک افغان سرحد پر کشیدگی بڑھی اور پیواڑ دیہات پر افغانستان کی جانب سے پہلے چھوٹے ہتھیاروں سے حملے کئے گئے اس کے بعد پیواڑ کے مختلف دیہاتوں پر لانگ رینج  میزائلوں سے حملہ ہوا ، ضلع کرم پر روسی ساخت کے اٹھارہ فٹ لمبائی کے میزائل بھی داغے گئے۔
 پارا چنار کے حالات و واقعات بلوچستان کے حالات سے بلکل مختلف ہیں، یہاں قبائل آپس کے تنازعات میں الجھے ہوئے ہیں اور محب وطن ہیں ، جب کہ بلوچستان میں اکثریت محب وطن اور امن کی داعی ہے لیکن علیحدگی پسند وطن دشمن چند بلوچ ملک دشمن قوتوں کے آلہ کار بن کر بلوچستان کے امن کو تباہ کر رہے ہیں ۔
پارا چنار میں افغانستان اور ٹی ٹی پی کی شرپسندانہ کاروائیوں کو افغانستان سے سفارتی سطح پر حل کرنے کی اشد ضرورت ہے ، جب کہ بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کو قومی دھارے میں لانے کے لئے مذاکرات اور مفاہمت کا عمل بہت اہم ہے ، صوبے اورملک میں امن و استحکام کے پیش نظر حکومت کو اس سلسلے میں قدم بڑھانا ہوگا، سر دست سب سے پہلے اعتماد سازی کے لئے اقدامات اٹھائے جائیں ،جس سے علیحدگی پسندوں کا اعتماد بحال ہو ، جس میں لاپتہ افراد کا مسئلہ فوری حل طلب ہے ،دوسرا حکومت کو علیحدگی پسند گروپوں کے ساتھ با مقصد مذاکرات میں تمام فریقوں کے تحفظات کو سنا جائے اور ان کے حل کے لئے سنجیدہ کوششیں کی جائیں ، تیسرا اقتصادی اور سماجی ترقی کے لئے بلوچستان  اور جنوبی وزیرستان کے علاقوں میں ترقیاتی منصوبے شروع کئے جائیں ، جس سے مقامی لوگوں کا احساس محرومی ختم ہو ، چوتھا بلوچ عوام کو قومی سیاست میں شامل کرنے کے لئے سنجیدہ ا قدامات اصل بنیاد ہیں ، تاکہ انہیں سیاسی عمل میں بھر پور نمائندگی حاصل ہو اور وہ قومی سطح پر اپنے مسائل کے حل کے لئے آواز اٹھا سکیں ، پانچواں ثقافتی احترام ، بلوچ ثقافت اور شناخت کا حترام کیا جائے جس سے علیحدگی پسندوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے میں مدد مل سکے ۔
یہ اقدامات مل کر ایک ایسا ماحول پیدا کر سکتے ہیں ، جس کی وجہ سے علیحدگی پسند گروہ قومی دھارے میں شامل ہونے پر آمادہ ہو سکیں ، دہشت گردی کے عروج میں فیصلوں میں تاخیر ملکی سا  لمیت کے لئے خطرے کا باعث ہے ۔    


   

ای پیپر دی نیشن