ٹی ٹاک
طلعت عباس خان ایڈووکیٹ
takhan_column@hotmail.com
190 ملین نیب کیس میں عمران خان اور بشری بی بی کو سزا دینے والے نیب کے جج ناصر جاوید رانا کی غیر معمولی کہانی کی بازگشت جاری ہے۔ 190 ملین کیس اتنا مشہور نہیں ہوا جتنا کہ جج صاحب کا اپنا کیس مشہور ہے۔اس کے کیس کی کہانی کو سامنے لانے والے عمران خان کے اپنے ہی وکیل صاحب ہیں۔کیا ہی اچھا ہوتا مذکورہ جج کے ماضی کا پردہ کیس کے فیصلہ سنانے سے قبل اٹھاتے تو شور مچانے کا انہیں فائدہ ہوتا۔ سزا کے بعد اب از جج کے خلاف محاز کھولنے کا کیا مقصد ہے ؟ یہ وکیل صاحب جیل میں قیدی کو بتایا کرتے تھے کہ یہ جج ''اپنا'' ہے چچا نے اس کی نوکری بچالی ہے جو کہ چیف جسٹس تھے۔پھر یہ بھی بتایا کہ بڑے بھائی کی محنتوں کا نتیجہ ہے کہ اسے نیب کا جج بنایا۔ اگر اس کا خیال نہ رکھتے تو اج سے بیس سال قبل سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ناظم حسین صدیقی نے سو موٹو ایکشن لینے کے بعد اس جج کے خلاف کہہ دیا تھا کہ یہ اس منصبِ کے قابل نہیں سوموٹو کے دوران اس جج پر الزام ثابت ہوا کہ جج نے ملزم کو عدالت میں بغیر پیش کئے کے پولیس ریمانڈ دیا تھا۔ یہ باتیں سپریم کورٹ کے سو موٹو ایکشن میں ثابت ہوا کہ اس جج سمیت اس کے عملے نے بھی جج صاحب کا ساتھ دیتے ہوئے جھوٹے بیان حلفی دیے تھے۔اس موقع پر جج رانا کو بچانے کیلئے چند وکلا نے بھی جھوٹے بیان حلفی دیئے تھے۔جس میں ثابت ہوا تھا کہ جج نے جھوٹ بولا تھا کہ ملزم عدالت میں پیش ہوا تھا اس کے اسٹاف اور چند وکلا نے غلط بیانی کی تھی اور جھوٹے بیان حلفی عدالت میں جمع کرائے تھے۔ اس کیس میں چند وکلا جو اس کیس میں پیش ہوئے تھے ان وکلا میں راقم بھی شامل ہے جنھوں نے اس جج کے خلاف سپریم کورٹ کی کاروائی میں حصہ لیا تھا۔ اب یہ کیس pld 2005 sc 86 میں چھپ چکا ہے۔ جسے پڑھا جا سکتا ہے سوال یہ ہے کہ سپریم کورٹ میں ثابت ہو جانے کے بعد یہ جج نوکری کیسے کرتے رہا اور سول جج سے ڈسٹرک جج کے عہدے تک یہ کیسے پہنچا۔بیس سال بعد یہ جج ایک بار پھر خبروں کی زینت بنا جب ایک سو نوے ملین القادر ٹرسٹ کا فیصلہ نیب کے اسی جج ناصر جاوید رانا نے سترہ جنوری دوہزار پچیس کو سناتے ہوئے عمران خان کو چودہ سال قید اور بشرہ بی بی کو سات سال قید اور جرمانے کی سزائیں سنائی۔ سزا سننے کے بعد عمران خان کے وکیل نے جیل کے باہر آکر کہا یہ وہ جج ہے جسے چیف جسٹس نے دوہزار چار میں اس جج کو غلط بیانی کرنے پر اسے نوکری سے فارغ کرنے کو کہا تھا۔ مگر یہ جج فارغ نہیں ہوا بلکہ یہ نیب کا جج بن کر عمران خان اور بشرہ بی بی کو سزا سنا چکا ہے تمام وکلا میں سب سے زیادہ اس جج کو جاننے والے یہی وکیل تھے۔ کہا جاتا ہے جب اس کے بھائی کو گرفتار کیا گیا تو برداشت نہ کر سکا اور باہر آکر پارٹی چھوڑنے کا اعلان کر دیا۔لیکن کچھ عرصے بعد اس نے دوبارہ رہائی کے بعد پی ٹی آئی میں شامل ہونے کی کوشش کی تو عمران خان نے اسے پارٹی میں واپس لینے سے انکار کر دیا۔جس پر چھوٹے بھائی نے عمران خان کے قریب آیا۔ مگر عمران خان کے ساتھی وکلا نے خان سے کہہ کر اسے بھی دور کر دیا تھا کہ یہ اب میڈیا پر بھی بات نہیں کرے گا۔ اس دوران کہا جاتا ہے اس نے عمران خان سے ملاقات کرنے میں کامیاب رہا اور اس موقع پر بتایا کہ یہ جج ہمارا بندہ ہے میرے ججا چیف جسٹس نے اسے سزا سے بچایا تھا۔ پھر ہم نے ہی نیب میں اسے لگوایا۔ کہا جاتا ہے یہ سن کر عمران خان اس کے باتوں پر یقین کر لیا اور یہ عمران خان کے قریب ہو گیا۔ جب جج رانا نے کیس کا فیصلہ عمران خان کے خلاف سنایا تو سب سے پہلے یہی وکیل سامنے آئے اور پریس کانفرنس میں سوال اٹھایا کہ رانا وہ جج ہے جسے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے کہا تھا کہ یہ اس قابل نہیں کہ اسے جج لگایا جائے۔کیا ہی اچھا ہوتا اس جج پر کمیشن بنانے کا کہتے۔ یہاں کیوں خاموش ہیں۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ فوری ایک کمیشن بنایا جائے جو پتہ چلاﺅکہ یہ جج نیب کا کیسا بنا۔ اس جج کی وجہ سے عدلیہ کی بد نامی ہوئی ہے۔ایسے وکلا کے کردار کے مطلق پارٹی کے سینیٹر حامد خان اپنی کتاب میں پہلے ہی ان کے خلاف لکھ چکے ہیں۔ ان کی خاموشی بتاتی ہے کہ جو کچھ لکھا گیا ہے وہ سچ پر مبنی ہے۔ کہا جاتا ہے ادھر نکلے ادھر ڈوبے کی خوبیوں کے یہ وکلا مالک ہیں۔ اپنے چچاکے زمانے میں بھی غلط کاموں کی وجہ سے مشہور تھے۔ اب کوشش تھی کہ کم از کم ایک بھائی اس پارٹی میں رہے۔ یاد رکھیں ہوشیاریاں زیادہ دیر نہیں چلتیں۔ اب فیصل چودھری کو اس کے بعد عمران خان خود ہی خود سے اور جماعت سے دور کر دیں گے۔ اب ذرا بیس سال قبل اس جج نے کیا گل کھلایا تھا اس کی کہانی کچھ یوں ہے۔ راولپنڈی کے سینئر وکیل حبیب وہاب الخیری ایڈووکیٹ کو ایک مقدمے میں پولیس نے تھانے میں بند کر رکھا تھا۔ وکلا کو جب پتہ چلا تو چیف جسٹس کے سامنے پیش ہوئے اور بتایا کہ اسے کسی مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیئے بغیر تھانے میں بند کر رکھا ہے جس پر چیف جسٹس نے سو موٹو ایکشن لیکر اس جج کو بلا لیا جس پر جج نے جھوٹ پر مبنی نہ صرف اپنا بیان حلفی دیا بلکہ اپنے اسٹاف سے بھی ایسا ہی بیان حلفی دلوانے چند وکلا نے بھی ایسا ہی جھوٹا بیان حلفی دیا۔ اس دوران پولیس کے اے ایس آئی سامنے آیا کہ مجھ سے زبردستی بیان دلایا گیا تھا جبکہ یہ سب جھوٹ ہے۔ بغیر پیش کئے کے پولیس ریمانڈ دیا گیا تھا۔یعنی سنتا جا شرماتا جا۔ اب پنجاب کی چیف جسٹس صاحبہ اس کیس کو ری اوپن کر کے دودھ کا دودھ پانی کا پانی کریں جنھوں نے اس کو یہاں تک پہنچانے میں مدد کی ان کے خلاف ایکشن لیں جبکہ چیف جسٹس نے کہا تھا کہ اس کیس کو ہائی کورٹ کے حوالے کرتے ہیں یہ جج نوکری کیلیے مس فٹ ہے۔کسی انکوائری کرنے کا نہیں کہا تھا بلکہ اس کے خلاف ایکشن لینے کو کہا تھا۔لیکن سب کچھ اس ججمنٹ کے خلاف ہوا۔ کسی نے اس ججمنٹ پر عمل نہیں کیا۔ اب ایک سو ملین کیس کو چلنے دیا جائے۔ ابھی یہ کیس پہلے ہائی کورٹ پھر سپریم کورٹ تک جا? گا۔فی الحال جج رانا کے کیس پر ایکشن لیا جا? کہ اس ججمنٹ پر عمل کیوں نہیں ہوا تھا۔