عالمی سیاست میں اسرائیل فلسطین جنگ اور امریکہ چین کی ٹیرف وار کے بعد سب سے اہم ایشو اس وقت پاک بھارت کشیدگی کا زیر بحث ہے۔مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں سیاحوں کی ہلاکت کے بعد بھارت انتہائی جارحانہ موڈ میں دکھائی دے رہا ہے جسکی بنیادی وجہ بھارتی میڈیا کا پیدا کردہ جنگی جنون ہے۔بھارت کے سیکرٹری خارجہ وکرم مصری نے پریس کانفرنس کے ذریعہ جن پانچ نکاتی اقدامات کا اعلان کیا ہے پاک بھارت تعلقات کی تاریخ اسے پیش کرنے سے قاصر ہے۔پاکستانیوں کے سارک کے تحت ویزے بند کر دیئے گئے ہیںجبکہ پہلے سے جاری شدہ ویزے کینسل کر دیئے گئے ہیں۔واہگہ بارڈر اور اٹاری چیک پوسٹ بھی بند کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔بھارت میں موجود پاکستانیوں کو 48 گھنٹے میں ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا ہے۔پاکستانی ہائی کمیشن میں تمام دفاعی، فوجی، بحری،اور فضائی مشیروں کو ناپسندیدہ قرار دے دیا گیا ہے۔ان تمام اقدامات کیساتھ بھارت نے یکطرفہ طور پر سندھ طاس معاہدے کو بھی معطل کر دیاہے۔
ہمارے لیے یہ سوال اتنا اہم نہیں کہ بھارت نے پہلگام واقعہ کے بعد کیا اقدامات اٹھائے ہیں بلکہ اہم سوال یہ ہے کہ بھارت کیا کر سکتا ہے؟ بھارت کیا کرنے جارہا ہے؟ کیا بھارت پاکستان پر جنگ مسلط کر سکتا ہے ؟کیا پہلگام واقعہ فالس فلیگ اپریشن ہے۔؟ اگر ہے تو کیوں ہے؟ فالس فلیگ اپریشن کی وجوہات کو زیر بحث لایا جائے تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ اس وقت امریکی نائب صدر جے۔ڈی۔وینس بھارت کے دورے پر ہے۔بھارت چاہتا ہے کہ پاکستان پر الزام عائد کر کے اسے امریکہ سے دور کیا جائے اور امریکی پریشر کو پاکستان پر بڑھایا جائے۔۔فالس فلیگ اپریشن کی دوسری اہم وجہ کینیڈا،یوکیاور امریکہ میں دہشت گردی کے واقعات کے نتیجہ میں سکھ راہنماؤں کی ہلاکت ہے جسکا براہ راست الزام بھارت پر ہے کہ وہ دہشت گردی کو برامد کرتا ہیچنانچہ بھارت نے اپنے اوپر عائد کردہ الزام کو دھونیاور دہشت گردی کا رخ پاکستان کی طرف موڑنے کیلئے ازخود یہ اپریشن کیا ہے۔فالس فلیگ اپریشن کی تیسری اہم وجہ بہار میں ہونیوالے انتخابات ہیں۔جس میں ہندو ووٹ کی کلیدی حیثیت ہے۔مودی کی یہ شدید خواہش ہے کہ مسلمانوں سے نفرت کی وجہ سے ہندو صرف بی۔جے۔پی کیلئے ووٹ کاسٹ کریں۔
سندھ طاس معاہدے کی معطلی بھی اہم سوال ہے ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ اس معاہدے کو کسی واقعہ کیساتھ جوڑ کر معطل کر دیا گیا ہو۔ اگرچہ یہ معاہدہ کسی بھی فریق کو اجازت نہیں دیتا کہ یکطرفہ طور پر اسے معطل یا ختم کر دیا جائے۔معاہدہ کے کل 12 آرٹیکلز ہیں۔آرٹیکل 12 کی کلاز 4 کیمطابق دونوں ممالک کی حکومتیں باہمی رضامندی سے معاہدہ کی ازسرنو توثیق کر سکتی ہیں تاہم معاہدہ کو کسی صورت معطل نہیں کیا جاسکتا۔ معاہدہ کی یکطرفہ معطلی سے کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں ؟ کیا بھارت جہلم ،چناب اور سندھ کا پانی روک سکتا ہیے؟ سائینسی انداز میں تجزیہ کیا جائے تو جواب نفی میں ملتا ہے۔ دریاے سندھ کے اوپر کوئی بجلی گھر نہیں اور نہ ہی کوئی ایسی جھیل ہے کہ بھارت سندھ کے پانی کو فوری طور پر روک سکے۔تاہم چناب اور جہلم کی صورتحال ذرا مختلف ہے۔ یہاں بھارت نے 6 بجلی گھر قائم کر رکھے ہیں۔ان بجلی گھروں کے پانی جمع کرنے کی صلاحیت کو سامنے رکھا جائے تو آپ اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ بھارت صرف محدود مقدار میں ہی پانی کو روک سکتا ہے۔مثال کے طور پر بگلہار بجلی گھر کی جھیل میں تین لاکھ 21 ہزار ایکڑ فٹ پانی کی گنجائش ہے۔سلال بجلی گھر میں 60 ہزار ایکڑ فٹ تک پانی کو روکا جا سکتا ہے جبکہ کشن گنگا بجلی گھر میں پانی روکنے کی صلاحیت 14 ہزار900 ایکڑ فٹ ہے۔ دریائے چناب کے سالانہ بہاؤ کو سامنے رکھا جائے تو ایک رپورٹ کیمطابق یہ دریا ایک کروڑ ساٹھ لاکھ ایکڑ فٹ کے اندر بہتاہے جس سے آپ اندازہ لگا سکتیے ہیں کہ فی الحال اس دریا کے پانی کو نہیں روکا جاسکتا۔سادہ زبان میں بھارت کے پاس پانی کو فوری روکنے کا کوئی انفراسٹریکچر موجود نہیں ہے۔ اور پانی روکنے کیلئے انفراسٹریکچر کو بنانے کیلئے کم ازکم دس سال کا عرصہ درکار ہے۔ سندھ طاس معاہدہ کی معطلی سے بھارت زیادہ سے زیادہ یہ کر سکتاہے کہ کسی ممکنہ سیلاب کی صورت میں پیشگی اطلاع نہ کرے کیونکہ 1989ء میں بے نظیر حکومت اور راجیو گاندھی کی حکومت کے درمیان یہ معاہدہ طے پایا تھا کہ سیلاب کی پیشگی اطلاع کی جائیگی۔۔گویا آئیندہ دو ماہ بعد شروع ہونے والے مون سون سیزن میں اگر ان دریاؤں میں پانی کے بہاؤ میں خلاف معمول اضافہ ہوتا ہے تو بھارت ایسی اطلاع کو محفی رکھ سکتا ہے۔
کیا بھارت پاکستان پر جنگ مسلط کر سکتا ہے؟۔اس سوال کا جواب بھی نفی میں ہے۔ پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں۔ایٹمی طاقت ہونے کی بنیاد پر بیلینس آف پاور کا اصول موجود ہے۔جہاں بیلینس آف پاور ہو وہاں جنگ کے امکان معدوم ہوجاتے ہیں۔دونوں میں سے کوئی ملک بھی مکمل جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا کیونکہ جنگ کا مطلب مکمل تباہی کے سوا کچھ نہیں۔جنگ کی صورت میں جنوبی ایشیا کا پورا خطہ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔دوسری طرف بھارت میں اس وقت وسیع پیمانے پر غیر ملکی سرمایہ کاری موجود ہے اور بھارت کبھی یہ غلطی نہیں کرسکتا کہ غیر ملکی سرمایہ کاری متاثر ہو۔’’ ابھی نندن واقعہ‘‘کے بعد بھارت فضائی حملے کا رسک بھی نہیں لے سکتا تاکہ بھارت کو دوبارہ کسی سبکی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ان حالات میں بھارت کی کوشش ہوگی کہ وہ لائن آف کنٹرول پر سرجیکل سٹرائیک کرکے میڈیا میں یہ دعویٰ کرے کہ ہم پاکستان کے اندر گھس آئے ہیں۔
بھارتی خفیہ ایجنسی را ہمارے دو صوبوں بلوچستان اور کے۔پی میں کوئی دہشت گردی کی کارروائی بھی کر سکتی ہے تاکہ ملک مزید خلفشار کا شکار ہو۔ ان دونوں صوبوں میں ہونیوالے دہشت گردی کے واقعات سے عوام پہلے ہی اجیرن ہیں۔جس بنا پر بھارت ان صوبوں میں کوئی خطرناک کھیل کھیل سکتاہے۔آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے علاقوں کے قریب بھی بھارتی موبلائزیشن کسی ایڈوینچر کو جنم دے سکتی ہے ۔
مندرجہ بالا حالات کے تناظر میں قومی سلامتی کے ضامن اداروں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ہر حوالہ سے چوکنا رہیں۔ وطن عزیز کو اس وقت سب سے زیادہ ضرورت سیاسی و معاشی استحکام کی ہے تاکہ پریشان حال عوام سکھ کا سانس لے سکیں۔تار یخ کا سبق یہی ہے کہ کسی بھی ملک کی فوج اکیلے جنگ نہیں لڑتی بلکہ قوم کیساتھ ملکر ہی لڑتی ہے۔جب قوم اپنی مسلح افواج کے شانہ بشانہ ہو تو بڑے سے بڑا دشمن بھی کمزور دکھائی دیتا ہے تاہم اگر قوم تضادات اور خلفشار کا شکار ہو تو بڑی سے بڑی فوج بھی ملک کا دفاع نہیں کر سکتی!