معاشی صورتحال پر عوام میں آگاہی ضروری ہے 

امیر محمد خان 
پاکستان  کے کرنٹ اکائونٹ کے سر پلس میں تاریخ میں پہلی بار ایک ارب ڈالر سے زائد کا اضافہ ہوگیا ہے۔ ترسیلات زر میں اضافے سے مارچ کا کرنٹ اکائونٹ سرپلس ایک ارب 19 کروڑ ڈالر تک پہنچ گیا۔کرنٹ اکائونٹ کھاتہ مالی سال کے 9 ماہ میں 1ارب 85 کروڑ ڈالر سرپلس رہا۔مارچ 2024ء میں کرنٹ اکائونٹ 36کروڑ 30 لاکھ ڈالر سے سرپلس تھا۔بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی ریکارڈ ماہانہ ورکرز ترسیلات سے مارچ کا کرنٹ اکائونٹ سرپلس ریکارڈ 1ارب 19 کروڑ ڈالر پر پہنچاہے۔ دنیا بھر میں مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی گئی ترسیلات زر کا حجم پہلی بار 4 ارب ڈالر کی حد عبور کرگیا، مارچ میں کرنٹ اکائونٹ سرپلس رہنے کی وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان نے مارچ میں دنیا سے 2 فیصد کم 4 ارب 94 کروڑ ڈالر کا سامان خریدا اور دنیا کو 6 فیصد زائد 2 ارب 76 کروڑ ڈالر کا سامان بیچ کر ماہانہ بنیاد پر تجارتی خسارہ 11 فیصد کم کیا ہے۔حکومت کی جانب منعقدہ  سمندر پار پاکستانیوںکا ماضی قریب کنونیشن اس لحاظ سے تو بہتر تھا کہ  اس میں وزیراعظم نے سمندر پار پاکستانیوںکیلئے کچھ اعلانات کئے مگر ان اعلانات پر عمل درآمد  نوکر شاہی اور متعلقہ اداروںمیں بیٹھے دقیانوسی قسم کی انتظامیہ وزیر اعلانات اور  سمندر پار پاکستانیوںکے درمیان کیا  مثبت یا منفی رشتہ بناتی ہیں چونکہ ماضی میں بھی بے شمار  اعلانات  کے بعد  سمندر پار پاکستانی سنہرے خوابوںسے بیدار نہیں ہوپائے، ماضی قریب کے اسلام آباد کے کنونیشن میٰں سے سے اہم خطاب  سپہ سلار  عاصم منیر کا  ولولہ انگیز خطاب تھا  جس نے پوشیدہ  بیٹھے ملک دشمن سوشل میڈیا  کی نیندیںحرام کیں نیز  سپہ سلار کا  قرانی حوالوںنے خطاب نے دنیا بھر میں محب وطن پاکستانیوںکے دل جیت لئے مگر  اس پر بھی منفی سوشل میڈیا نے اپنی بکواس کم نہ کی  ، پہلے بھی کئی مرتبہ ان صفحات پر لکھا ہے سوشل میڈیا کی روک تھام کیلئے بیرون ملک بیٹھے سفارت کار اگر چاہیںتو مثبت کردار ادا کرسکتے ہیں مگر وہ  اپنی تین سالہ نوکری  ’’کھڑکانے ‘‘ میںمصروف ہوتے ہیں۔ نیز کنونیشن کے شرکاء پر  بھی سوال ہے کہ دروازہ کھلا تھا سب کیلئے مگر  بڑی تعداد  صرف مسلم لیگوںکی تھی ، جن میں سرمایہ کار تو نمک کے برابر تھے اگر یہ کہا جائے کہ سرمایہ کاروںکو بلایا گیاتھا تو یہ ایک خوامخواہ کا دعوہ تھا  ، اگر اس سلسلے میں سفارت خانوں ، قونصل خانوںسے OPF انتظامیہ مدد لے لیتی تو شائد کچھ  بہتری ہوسکتی تھی جبکہ وہاںبھی پسند نہ پسند پر  ’’محب وطنی‘‘کی سندیں تقسیم کی جاتی ہیں ۔  وزیر اعظم کی جانب سے بجلی قیمتوں میں ساڑھے سات روپے گی یونٹ کمی کردی گئی یہاں اہم بات یہ ہے کہ پیٹرول  کی فی لیٹر قیمت میں بھی اتنی ہی کمی متوقع تھی اور اگر یہ اعلان کردیا جاتا تو حکومت کی اور بلے بلے ہوجاتی لیکن حکومت نے کچھ اور فیصلہ کیا وہ یہ تھا کہ اس کمی کا فائدہ بلوچستان کو دیا جائے وہاں کی محرومیوں کو کم کیا جائے تو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا وقتی ریلیف عوام کو منتقل کرنے کے بجائے پٹرول کی قیمت کو برقرار رکھتے ہوئے طویل مدتی ملکی ترقی کو ترجیح دی گئی جو مناسب فیصلہ کہا جاسکتا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک میں بہت کچھ اچھا ہوتا دکھائی دے رہا ہے آنے والوں دنوں، مہینوں اور برسوں میں اچھی پیشگوئیاں کی جارہی ہیں جن کا فائدہ یقینا ملک کو اور ملک کے عام آدمی کو ہوگا۔پاکستان کی معیشت کی درستگی کے حکومت کے وزراء  صبح و شام دعوے کرتے ہیںمعیشت کی درستگی کے مگر عوام کہتے ہیں کہ  اسکا فائدہ ہمیں کب ہوگا ؟؟ یہ سوال  دنیا کے اکثر ممالک ہم جیسی معیشت کے حامل ملکوںکے عوام کرتے ہیں ۔ یہ واقعی ایک اہم اور پیچیدہ مسئلہ ہے، اور یہ وہ چیز ہے جسے پاکستان میں بہت سے لوگ (اور دوسری جگہوں پر) اس وقت محسوس کر رہے ہیں - حکومت کے کہنے اور لوگوں کو درحقیقت تجربہ کرنے کے درمیان فرق ہے یہاں ممکنہ وجوہات کی ایک خرابی ہے کیوں کہ معیشت کاغذ پر ''اچھی'' نظر آتی ہے، لیکن لوگ فوائد محسوس نہیں کرتے:چند نکات پر اگر غور کرلیا جائے تو بات سمجھ میں آسکتی ہے جیسے  ترقی کا مطلب منصفانہ تقسیم نہیں ہے۔ اگر جی ڈی پی یا دیگر معاشی اشاریے بہتر ہو رہے ہیں، تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ سب کو فائدہ ہو رہا ہے۔ نمو اس میں مرکوز ہو سکتی ہے اگر معیشت ترقی کرتی ہے، اگر ضروری اشیاء (خوراک، ایندھن، بجلی، وغیرہ) کی قیمتیں زیادہ ہوں، تو زندگی گزارنے کی قیمت کسی بھی فائدے کو ختم کردیتی ہے۔ پاکستان میں اعلیٰ مہنگائی ایک بڑا مسئلہ  ہے  خاص طور پر خوراک کی مہنگائی جس کا ہر طبقہ سامنا کررہاہے  اگر روپیہ قدر کھو دیتا ہے (جیسا کہ حالیہ برسوں میں ہوا ہے)، تو اس سے درآمدات زیادہ مہنگی ہو جاتی ہیں – جس کی وجہ سے ایندھن، خوراک اور دیگر ضروری اشیاء کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں۔ لہٰذا اگر حکومت کہتی ہے کہ ''برآمدات بڑھ رہی ہیں'' یا ''ذخائر مستحکم ہو رہے ہیں، تب بھی عام لوگ جدوجہد کر رہے ہیں کیونکہ روزمرہ کی اشیاء کی قیمت زیادہ ہے۔جب کوئی حکومت اپنی معیشت کی درستگی کیلئے IMFکے دروازے پر پہنچ جاتی ہے تو  پھر شرائط بھی ماننی پڑتی ہیں پاکستان کو آئی ایم ایف اور دیگر سے قرضہ لینا پڑا دوست ممالک سے ملنے والا قرض بھی بلا  سود نہیںہوتا  اسلئے کہا جاتا ہے کہ  قرض اتارنے کیلئے بھی قرض لینا پڑتا ہے آئی ایم ایف  کی شرائط پورا کرنے کیلئے   ان شرائط کو پورا کرنے کے لیے، حکومتیں اکثرسبسڈی کاٹ دیتی ہیں ، مختلف جگہوںپر ٹیکس میں اضافی کرتی ہیں ، روز مرہ کی قیمتوںمیں اضافہ ہوتا ہے ، اگر  حکومتی کنٹرول مضبوط نہ  ہوتو مارکیٹ منافع خوروںکے ہاتھوںآجاتی ہے اور وہ اپنی پسند کی قیمتوں پر کاروبار کرتے ہیں جو صارف کیلئے نقصاندہ ہوتا ہے اور حکومت کے خلاف  ذہن بناتا ہے ہو سکتا ہے کہ جاب مارکیٹ کافی معیاری روزگار پیدا نہ کر رہی ہو۔ یہاں تک کہ اگر ترقی ہو رہی ہے، اگر لوگوں کے پاس مستحکم ملازمتیں یا اجرتیں نہیں ہیں، تو وہ محسوس نہیں کریں گے کہ معیشت بہتر ہو رہی ہے۔کرپشن معیشت کی خرابی میں مرکزی کردار ادا کرتی ہے  اگر عوامی رقوم کا غلط استعمال یا غیر موثر طریقے سے انتظام کیا جاتا ہے تو ترقی نچلی سطح تک نہیں پہنچ پاتی۔ یہ اعتماد کی کمی کا باعث بنتا ہے - اور لوگ محسوس کرتے ہیں کہ ''کچھ نہیں بدل رہا ہے۔'' آئی ایم ایف کی شرائط نے پاکستان میں رہنے کی بلند قیمت میں نمایاں کردار ادا کیا ہے، جس سے بہت سے شہریوں کی روزمرہ کی زندگی متاثر ہوئی ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے اور مزید قرض کیلئے ضروری اشیاء اور خدمات پر سبسڈی ختم کر دی گئی، جس سے بجلی، ایندھن اور خوراک جیسی اشیاء کی قیمتیں بڑھ گئیں ان اقدامات سے گھریلو اخراجات میں اضافہ ہوا ہے، خاص طور پر کم اور درمیانی آمدنی والے خاندانوں کے لیے۔2024 میں، تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کا بوجھ بڑھ کر 39 فیصد ہو گیا، جس کے نتیجے میں جولائی اور نومبر کے درمیان ٹیکس کی ادائیگیوں میں 57 فیصد اضافہ ہوا۔ یہ اور بے شمار ایسے عوامل  ہیں جو عوام تک نہیں پہنچتے ، عوام کو آگاہی دینے کیلئے پریس کانفرنسیں، بیانات ناکا فی ہوتے ہیں بیرون  ملک بیٹھی ذرمبادلہ فراہم کرنے والی مشینوں اور ملک کے اندر بیٹھے مہنگائی کے ستائے ہوئے لوگوںکی تربیت  اور  آگہی ایک نکتہ ہے  جس پر  حکومت کی توجہ نہیں ۔ 
 

  
 

ای پیپر دی نیشن