’’قائداعظم سے عشق جن کاسرمایہ رہا‘‘

تحریک پاکستان'قائداعظم محمد علی جناح سے عشق اور  قدیم  اکبر خان  ایک دوسرے کے ساتھ لازم وملزوم  جانے جاتے ہیں ۔قدیم اکبر خان' بیٹے فدا علی خان اور پوتے ذوالفقار علی خان ، افتخار علی خان  کی  زندگی اور زندگی سے منسلک تمام خوشیاں وطن'بانی پاکستان اور علمی چراغ روشن کرنے  کا مشن ہیں۔ صوبہ خیبرپختونخوا کے شہر صوابی میں قدیم اکبر خان گھرانے کی تحریک پاکستان سے وابستگی اور خدمات کا زمانہ معترف رہا۔ 23  مارچ1940ء کو قراردادپاکستان کی منظوری کے بعد تحریک پاکستان کے محبان نے محض 7 برس میں منزل پائی۔یہ اللہ کا کرم خاص اور رسول اللہؐ کی نگاہ عنائت تھی کہ برصغیر کے مظلوم' مجبور اور مقہور مسلمانوں کو قائداعظم محمد علی جناح کی عدیم المثال قیادت میں آزاد وطن نصیب ہوا۔ درس وتدریس سے وابستہ ذوالفقار علی بتاتے ہیں ان کے دادا قدیم اکبر خان  1928ء  کے دوران اسلامیہ ہائی سکول (کالج) میں زیر تعلیم رہے۔ اپنے علاقے میں صدر آل انڈیا مسلم لیگ کی حیثیت سے انہوں نے جو کار ہائے نمایاں انجام دئیے ان سے خاندان کا سر ہمیشہ سر بلند رہے گا۔ محکمہ کو آپریٹو  سے منسلک ہونے کے باوجود ان کا تعارف خدمت انسانیہ رہا۔ تحریک پاکستان اور محبان قائداعظم میں ان کا شمار کل بھی تھا اورآج بھی تاریخ دان انکا حوالہ عزت وتکریم سے لیتے ہیں۔ قدیم اکبر خان کی طرح ان کے صاحب زادے فدا علی خان ایڈور ڈز کالج پشاور کے طالب علم رہے1959ء  میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے بھی محکمہ کوآپریٹو میں ملازمت اختیار کی۔ سرکاری ملازم ایسے تھے جن کی دیانتداری ضرب المثل بنی۔ زندگی کی 38 بہاریں  دیکھنے کے بعد قائداعظم کایہ عاشق مٹی کی چادر اوڑھ کر سو گیا۔ فدا علی خان کے صاحبزادے افتخار علی خان اور ذوالفقار علی خان سینہ تان کر اپنے اسلاف کے کارناموں کو دھراتے ہیں… پروفیسر بشردوست بام خیل نے بتایا کہ عام طور پر باجا بام خیل باچاخان صاحبان کے نام سے پہچانا جاتا ہے اور یہ بات درست بھی ہے کہ علم و حکمت میں انھوں نے بڑا نام پیدا کیا تھا لیکن اسی مٹی میں پیدا ہونے والے اعلی تعلیم یافتہ اور لوگ بھی ہیں جو اپنی ذہانت علم و مرتبہ اور سیاست کی وجہ سے بام عروج پر تھے۔
 1880 میں انگریز دور کے بنائے گئے مشن ہائی سکول موجودہ ایڈورڈز کالج میں دور ایک چھوٹے سے گاؤں بام خیل کا ایک فطین بچہ  فرید خان اپنے ماں باپ سے دور ہاسٹل میں رہ کر میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے آیا۔ جس نے تعلیم مکمل کر کے صاحبزادہ عبدالقیوم خان اور صوبہ کے دوسرے بڑے لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر علم کے دئیے جلائے ۔وہ کچھ عرصہ نائب تحصیلدار کی ذمہ داری پر رہا، جب انگریز گورنر نے انھیں اپنا ہمنوابنانے اور وفاداری کا حلف لینے کے بدلے بہت بڑی جاگیر آفر کی تو ماں جیسی دھرتی سے غداری سے صاف انکار کر دیا۔فرید خان کا مقصد حیات اس وقت اندھیروں میں علم کی شمع دل و دماغ میں روشن کرناتھا۔ پرائمری سکول منظور ہواتو سیاسی اختلاف کے باوجود فرید خان بابا نے  تعلیم و تدریس کیلئے اپنا فالتو گھر وقف کر دیا۔ 
 انگریز دور کی ترغیبات کے باوجود  قدیم اکبر بابا اور ان  کے ہونہار جگر گوشے فداعلی نے بھی اپنے آبا و اجداد کی طرح لوگوں کو تعلیم  دینے پر زور دیا۔خود فداعلی نے پشاور شہر کا جب رخ کیا تو ایڈورڈز کالج میں قدم رکھا لیکن انہیں ایڈورڈزکالج کی فضا راست نہ آئی  پھر اسلامیہ کالج میں داخلہ لیا اور وہاں گریجویٹ ہو کر واپس  لوٹے۔اسلامیہ کالج میں ان کے کلاس فیلو میں حاجی غلام بلور اور نامور بیوروکریٹ، ججز، ماہر تعلیم اور سیاستدان شامل  تھے۔ضلع صوابی میں اس اعلی تعلیم یافتہ خاندانوں فرید خان بابا  اورقدیم خان جیسا فرد پیدا نہیں ہوا۔انہوںنے تحریک پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور وہ وسیع اوصاف کامالک  تھے۔  
قدیم خان کے پوتے اس گھرانے کے چشم و چراغ ذوالفقار علی خان اعلی تعلیم یافتہ اور معروف قلم کار ہیں ان کی نگارش میں سوچ کی پختگی حالات کی نازکی اور سیاست کے پیچ و خم دکھائی دیتے ہیں اورجب لوگ ان کی قلمی کاوشیں پڑھتے ہیں تو  قارئین پر کسی بزرگ رہنما کا شائبہ ہوتاہے۔افتحار علی خان بھی اسی گلشن کے پھول ہیں ایم اے انگلش  ہونے کے ناطے برسوں سے علم کی روشنی پھیلا رہے ہیں۔،ان کے ساتھ یوم پاکستان کی نسبت سے ہونے والی بات چیت نذر قارئین ہے۔
نوائے وقت: قومی تہوار کیسے مناتے ہیں؟
ذوالفقار علی: قیام پاکستان تاریخ کا ایسا غیر معمولی اوربابرکت عمل ہے جس پر مسلمانان عالم صبح قیامت تک فخر کرتے رہیں گے۔ رب کریم کالاکھ شکر ادا کریں مگر ہم آزاد فضاؤں کا اظہار تشکر ادانہیں کرسکتے۔ فلسطین اور مقبوضہ کشمیر میں بسنے والوں سے آزادی کی قدر پوچھیں 6 اکتوبر 2023  ء  اہل فلسطین بارود کی بارش اور میزائل حملے برداشت کررہے ہیں، سلام ہے وطن پرستی کے اس جذبہ پر جو 68 ہزارشہداء کی قربانی کے باوجود سرد نہیں ہوا، ایک لاکھ مسلمان عمر بھر کے لیے معذور ہوگئے جبکہ تک بے گھر ہوئے والوں کی تعداد 10 لاکھ سے متجاوز ہے۔ غزہ کے حوالہ سے یہ تعداد محض اندازہ ہے جانی ومالی نقصان کی تفصیلات اس سے کہیں زیادہ ہے امریکی ادارے غزہ کی تعمیر نو کا ہدف 15 برس بتا رہے ہیں آپ ان حالات سے تباہی اور جانی نقصان کا نقشہ کھیج سکتے ہیں؟ 20  جنوری 2025ء￿  یعنی ڈونلڈ ٹرمپ کی حلف برداری سے ایک روز قبل حماس اور اسرائیل میں سیئز فائر ہوا ، اس معاہدے کو جس طرح عرب دنیا اور  فلسطینیوں نے سیلیبرٹ کیا اس سے جشن اور فتح کے چراغ روشن ہوئے ،ہم دعاگو ہیں فلسطینی اپنی سرزمین پر آزادی کے ساتھ رہیں آج امریکہ اور اسرائیل یک زبان ہو کر غزہ کے مسلمانوں کو اردن' شام' ایران اور سعودی عرب میں بسانے کی خواہش کااظہار کررہے ہیں عالم اسلام نے اس ناپسندیدہ تجویز پر سخت ترین ردعمل دیا ہے۔ کاش مسلم قیادت بہت پہلے اتحاد ویکجہتی کی ایسی قوت کا اظہار کرتی۔  ہمارے کشمیری بھائی 77 برس سے غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں ،جنوری 2021ء￿  میں مودی سرکار نے آرٹیکل 370 ختم کرکے کشمیر کی خصوصی حیثیت پر ضرب لگائی، بھارتی حکومت کا یہ قدم خود اس کے آئین کی خلاف ورزی تھا 26جنوری بھارتی یوم جمہوریہ کو کشمیری اور پاکستانیوں نے یوم سیاہ کے طور پر منایا 5 فروری کو اظہار یکجہتی کشمیر کے ذریعے بتایا گیا کہ پاکستان اور کشمیری یک قالب دو جان ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں بسنے والے پاکستانی قومی دن ہم سے زیادہ جوشیلے انداز سے مناتے ہیں۔23 مارچ '14 اگست' 6 ستمبر' 9 نومبر اور 25 دسمبر جیسے قومی ایام  پاکستان اور بانیان پاکستان سے محبت کی تجدید کرتے ہیں۔ ملک کے طول وعرض میں یوم آزادی اور یوم پاکستان انتہائی جوش وجذبے سے منایا جاتا ہے۔ صوبہ خیبرپختونخوا میں قومی دن سیلیبریٹ کرنے کا اندازہ جداگانہ ہے۔ بچے' بڑے' بوڑھے ' طلباء  اور مزدور سب کے سب پاکستان سے محبت کے چراغ روشن کرتے ہیں، تعلیمی اداروں اور سماجی تنظیموں کے زیر اہتمام خصوصی تقاریب میں ہمارے'' بڑے'' نئی نسل کو تحریک پاکستان ، محبان پاکستان اور عاشقان قائداعظم وعلامہ اقبال سے آگاہی دیتے ہیں  ہم بھی اپنے طورپر اپے اسلاف کے زریں کارناموں کے تاج محل تعمیر کرتے ہیں۔ پاکستان محبت قدیم اکبر خان خانوادے کے خون میں شامل ہے جو نسل درنسل منتقل ہوئی ،ان شاء اللہ یہ سلسلہ دراز ہوتا رہے گا 
خون دل دے کر نکھا ریں گے رخ برگ گلاب
ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے
س :فلاحِی معاشرے کا خواب کیسے پورا ہوگا؟
ج :معاشرتی ترقی  کا دار و مدار اس بات پر ہے کہ ہم اپنی نئی نسل کی تربیت کیسے کرتے ہیں ایک مضبوط کردار والا انسان نہ صرف اپنی زندگی میں کامیاب ہوتا ہے بلکہ وہ ایک بہتر معاشرہ بنانے میں بھی اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ آج کی دنیا میں جہاں جدید ٹیکنالوجی، سوشل میڈیا، اور تیز رفتار زندگی نے انسانی سوچ کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے، وہاں نوجوانوں کی تربیت  بڑا چیلنج بن چکی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ معاشرتی اقدار میں تبدیلی آ رہی ہے، روایتی اصول ختم ہوتے جا رہے ہیں، اور نئی نسل زیادہ تر فوری نتائج کی تلاش میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کی دنیا میں صبر، قناعت، ایمانداری اور محنت جیسے بنیادی اوصاف کم ہوتے جا رہے ہیں۔ کردار کی مضبوطی صرف ایک فرد کی ذاتی ترقی کے لیے ضروری نہیں، بلکہ یہ ایک بہتر اور متوازن معاشرہ تشکیل دینے کے لیے بھی انتہائی اہم ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے اور نوجوان بہتر مستقبل کے معمار بنیں، تو ہمیں ان کی تربیت پر خصوصی توجہ دینا ہوگی۔ ایک انسان کی پہچان اس کے الفاظ اور اعمال سے ہوتی ہے۔ دنیا میں بے شمار لوگ کامیاب دکھائی دیتے ہیں، لیکن حقیقی کامیابی اسی کی ہوتی ہے جو اپنے اصولوں پر ثابت قدم رہتا ہے اور دوسروں کے لیے ایک مثبت مثال بنتا ہے۔ کسی بھی ملک اور قوم کی ترقی میں وہاں کے افراد کی اخلاقیات اور کردار بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ اگر معاشرے میں دیانت داری، انصاف، اور محنت جیسے اوصاف ناپید ہو جائیں تو وہ معاشرہ زوال پذیر ہو جاتا ہے۔ ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ہم اپنی نسل کو کن اصولوں پر پروان چڑھا رہے ہیں۔ کیا ہم انہیں صرف مادی کامیابی کی دوڑ میں لگا رہے ہیں یا انہیں سکھا رہے ہیں کہ حقیقی کامیابی اچھے اخلاق اور کردار میں ہے؟ ہم روزمرہ زندگی میں دیکھتے ہیں کہ ایک ڈاکٹر، وکیل، یا سرکاری افسر ہونے کے باوجود اگر کسی شخص میں ایمانداری، دیانت داری اور دوسروں کی مدد کا جذبہ نہیں تو اس کی ڈگریاں معاشرے کے کسی کام کی نہیں۔ ایک اچھے کردار کے بغیر علم، دولت اور طاقت سب بے معنی ہو جاتے ہیں۔ ہمیں اپنے نوجوانوں کو سکھانے کی ضرورت ہے کہ کامیابی کا مطلب صرف ایک اچھی نوکری حاصل کرنا نہیں بلکہ ایک اچھا انسان بننا بھی ہے۔
س:اور سوشل میڈیاکا سحر
ج:  لمحہ موجود میں سوشل میڈیا نے نوجوانوں کی سوچ پر گہرا اثر ڈالا۔ اکثر دیکھتے ہیں کہ نوجوان اپنی اصل زندگی کی بجائے ورچوئل دنیا میں زیادہ مگن رہتے ہیں، جہاں وہ دوسروں کی زندگیوں کو دیکھ کر اپنی زندگی کے بارے میں غلط توقعات باندھ لیتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں وہ حقیقت سے دور ہو جاتے ہیں، صبر اور قناعت جیسے اوصاف ان میں کم ہوتے جا رہے ہیں، اور وہ چھوٹے چھوٹے مسائل پر مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج ڈپریشن اور ذہنی دباؤ جیسے مسائل عام ہو چکے ہیں۔ کردار کی مضبوطی کا مطلب صرف سچ بولنا یا اچھے کام کرنا ہی نہیں بلکہ یہ ایک مکمل طرز زندگی ہے جو ہر چھوٹے بڑے فیصلے میں ظاہر ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک شخص کسی مصیبت میں ہے اور آپ کے پاس اسے مدد فراہم کرنے کا موقع ہے، تو آپ کا ردعمل ہی آپ کے کردار کا عکاس ہوگا۔ کیا آپ بے غرضی سے مدد کریں گے؟ کیا آپ خود کو اس کی جگہ رکھ کر سوچیں گے؟ یا پھر آپ صرف اپنے مفاد کی پرواہ کریں گے؟ یہی وہ سوالات ہیں جو ہمیں اپنے نوجوانوں کو سکھانے چاہئیں تاکہ وہ معاشرتی فلاح و بہبود کے لیے عملی طور پر تیار ہو سکیں۔
س:کردار سازی میں والدین
ج : کردار سازی میں والدین کا کردار سب سے اہم ہے، کیونکہ بچے سب سے پہلے اپنے والدین کو دیکھ کر سیکھتے ہیں۔ والدین خود ایمانداری، دیانت داری اور صبر کا مظاہرہ کریں گے، تو بچے بھی انہی اصولوں کو اپنائیں گے۔ ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ والدین اپنے بچوں کو سچ بولنے کی تلقین تو کرتے ہیں، لیکن خود ہی معمولی مفاد کے لیے جھوٹ بول دیتے ہیں، جس سے بچوں کو یہ سبق ملتا ہے کہ سچائی کا کوئی فائدہ نہیں۔ اسی طرح اگر ایک استاد اپنے شاگردوں کو محنت کا درس دے لیکن خود کلاس میں سنجیدگی نہ دکھائے، تو طلبہ بھی غیر سنجیدہ ہو جائیں گے۔ اس لیے کردار کی مضبوطی کے لیے ضروری ہے کہ ہم جو بات کہیں، اس پر خود بھی عمل کریں۔ تعلیمی اداروں میں بھی اس حوالے سے اصلاحات کی ضرورت ہے۔ آج زیادہ تر اسکول اور یونیورسٹیاں صرف نصابی تعلیم پر زور دیتی ہیں، جبکہ کردار سازی کو پس پشت ڈال دیا گیا۔ نتیجتاً، ہم ایسے نوجوان سامنے لا رہے ہیں جو عملی دنیا میں کامیابی تو حاصل کر لیتے ہیں لیکن ان میں ایمانداری، احساسِ ذمہ داری اور سماجی اقدار کی کمی ہوتی ہے۔ ہم روز دیکھتے ہیں کہ لوگ ٹریفک سگنلز توڑتے ہیں، جھوٹے وعدے کرتے ہیں، رشوت لیتے اور دیتے ہیں، اور دوسروں کے حقوق غصب کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے، اور یہ سب کچھ اس لیے ہوتا ہے کیونکہ بچپن میں ان کی تربیت میں یہ عناصر شامل نہیں کیے گئے تھے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اسکولوں میں کردار سازی کے موضوعات کو نصاب کا لازمی حصہ بنایا جائے، تاکہ بچے چھوٹی عمر سے ہی اچھے اور برے کی تمیز سیکھ سکیں۔ ہمیں نوجوانوں کو یہ بھی سکھانا ہوگا کہ کامیابی کا مطلب صرف مادی دولت اور عہدہ حاصل کرنا نہیں بلکہ دوسروں کی مدد کرنا، معاشرے میں مثبت تبدیلی لانا اور اچھے اخلاق کا مظاہرہ کرنا بھی ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری نئی نسل ایک مضبوط کردار کی مالک ہو، تو ہمیں انہیں عملی مثالوں سے سکھانا ہوگا، محض زبانی نصیحتیں کافی نہیں۔ ہمیں انہیں ایسے مواقع فراہم کرنے ہوں گے جہاں وہ عملی طور پر سیکھ سکیں کہ ایمانداری، دیانت داری، صبر اور محنت کیسے ان کی زندگی میں بہتری لا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، اگر ایک نوجوان کسی فلاحی کام میں حصہ لیتا ہے، تو وہ اپنی زندگی میں دوسروں کی مدد کی اہمیت کو سمجھے گا۔ اسی طرح، اگر ہم انہیں خود احتسابی کا سبق دیں، تو وہ اپنی غلطیوں سے سیکھنے کے قابل ہوں گے۔ 

ای پیپر دی نیشن