آل انڈیا مسلم لیگ‘ قائداعظم محمد علی جناح‘ تحریک پاکستان اور قیام پاکستان سے جڑیں یادوں کا سرمایہ لئے بہت سے خانوادے آج بھی وطن عزیز کی تعمیر وترقی اور خوشحالی کی سفر کا حصہ ہیں۔ پاکستان کے محبان اور بانی پاکستان کے عاشقان کی اولادیں اپنے ’’بڑوں‘‘ کی شان وحشمت‘تمکنت وبلندی اور شوکت واعجاز کا تذکرہ جن چمکتی آنکھوں اور جن مسکراتے چہروں سے کرتی ہیں وہ دلربا جذبات اور وہ دل افروز لمحات زندگی اور زندگی سے منسلک خوشیوں میں اضافہ کا سبب بنتے ہیں۔ لکھنو کے سید محمد زبیر زیدی کے صاحب زادے چیئرمین کامیٹس ڈاکٹر ایس ایم جنید زیدی (ہلال امتیاز ‘ ستارہ امتیاز) عسکری پس منظر کے حامل مرحوم احمد بشیر ہاشمی کے پوتے پروفیسر ڈاکٹر عزیز احمدہاشمی ، حیدر آباد دکن کے عبدالحکیم قریشی کے صاحب زادے محمد عبدالعظیم قریشی مینجنگ ڈائریکٹر لیجنڈ ہوٹلز مینجمٹ گروپ پاکستان اور مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن لدھیانہ کے سرگرم کارکن چوہدری محمد اسلم کے صاحب زادے چوہدری ذوالفقار علی اسلم آسودہ ومطمعن ہیںکہ قائداعظم کا پاکستان سائنس وٹیکنالوجی ‘ علم وتدریس اور سپورٹس وسیاحت اور ہوٹلنگ صنعت میں بتدریج آگے بڑھ رہا ہے۔ اپنے اپنے شعبوں میں قابل رشک انداز سے خدمات پر مامور یہ شخصیات یوم پاکستان کے موقع مسرور تھیں ان کا کہنا تھا کہ ہم رہیں نہ رہیں انشاء اللہ بائیس کروڑ محبان کا یہ گلشن پھلتا پھولتا رہے گا۔
٭… چیئرمین کامسیٹس‘‘ ڈاکٹر ایس ایم جنید زیدی نے بتایا کہ 81 برس قبل 23 مارچ 1940ء کو لاہور کے منٹو پارک میں برصغیر کے مظلوم اور مجبور مسلمانوں نے حضرت قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں علیحدہ وطن کے لیے قرارداد منظور کی۔ آل انڈیا مسلم لیگ کی جدوجہد اور قائداعظم کی عدیم المثال قیادت کی بدولت محض سات برس میں خواب اقبال (پاکستان) تعبیر کی صورت میں ظہور پزیر ہوگیا۔ ہم رہیں نہ رہیں قائداعظم کا پاکستان قیامت تک قائم دائم رہے گا۔ 1947ء سے اب تک پاکستان نے خوب ترقی کی ہے۔ سائنس وٹیکنالوجی کے میدان میں تعمیر وترقی اور استحکام کا سفر جاری ہے ایک وقت وہ بھی آئے گا جب پاکستان کا شہرہ پوری دنیا میں سنا جائے گا۔ والد صاحب کاآبائی شہر لکھنو تھایہ شہر اپنی تہذیب وتمدن میں آج بھی دنیا بھر میںشہرت کا حامل ہے ۔ زیدی فیملی لکھنو کے ممتاز خاندانوں میں شمار ہوا کرتی تھی۔ دادا جان صاحب جائیداد تھے۔ والد محترم سید محمد زبیر زیدی قائداعظم کے عاشقان میں شامل تھے ،انہوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کے پیغام کو عام کرنے میں لکھنو شہر میں بہت خدمات انجام دیں۔ حضرت قائداعظم کی اپیل بلکہ حکم پر وہ لکھنو میں تمام جائیدادیں چھوڑ کر خوابوں کی سرزمین پاکستان چلے آگئے ۔ والد مرحوم نے نئے اور آزاد وطن پہنچ کر اپنی جائیدادوں کے بدلے کوئی کلیم نہیں کیا۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ مسلمانوں نے آزاد وطن کی آزاد فضاء پانے کے لیے کتنے خون کے دریا عبور کئے تھے۔ ہندوستان سے پاکستان آنے والوں کی ہجرت تاریخ کا غیر معمولی واقعہ ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں کبھی کسی نے دوسری جگہ ہجرت نہیں کی۔ڈاکٹر ایس ایم جنید زیدی نے بتایا کہ والد محترم وفاقی دارالحکومت میں اس وقت سرکاری ملازم ہوئے جب اسلام آباد میں گز کے حساب سے زمین خریدی اورفروخت کی جاتی تھی یہ 1960-61 کا دور تھا‘ کبھی کبھی ہم سوال کرتے تھے کہ آپ نے اسلام آباد میں جائیداد کیوں نہیں بنائی؟ وہ مسکرا کر جواب دیتے! بچوں کو اچھی تعلیم دلا دی جائے یا صاحب جائیداد بنادیا جائے۔ انہوں نے بچوں کے محفوظ اور روشن مستقبل کا راستہ چنا۔سقوط ڈھاکہ کے تلخ لمحات کے بارے میں کہا کہ والد صاحب کو اس قدر صدمہ لگا، گمان تھا کہ ان کی جان نہ چلی جائے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے زخم سے ہر گھر میں صف ماتم بچھی ہوئی تھی ۔کئی روز تک ابا جان نے کھانا پیٹ بھر کر نہیں کھایا ، والد محترم پان کھانے کے عادی تھے۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد انہیں پان لاکر دیئے تو انہوں نے کھانے سے انکار کر دیا ۔ان کا کہنا تھا کہ یہ پان بنگلہ دیش کے نہیں بھارت کے ہیں؟ بابا جان نے وطن کی محبت پر اپنا شوق قربان کر دیا اور وہ پھر مرتے دم تک اس پر قائم رہے ۔
٭…سربراہ قومی ترانہ فائونڈیشن ڈاکٹر پروفیسر عزیز احمد ہاشمی کا کہنا تھا کہ مارچ میں تحریک پاکستان‘ قیام پاکستان‘ آل انڈیا مسلم لیگ اور قائداعظم محمد علی جناح سے وابستہ یادوں کے چراغ پوری طرح روشن ہو جاتے ہیں۔ 80 برس کی عمر کے دائرے میں موجود مجھ جیسے محبان پاکستان ہر لمحہ پاکستان کی تعمیر‘ ترقی اور خوشحالی کے لیے دعاگو ہیں۔ اللہ کریم سیاست دانوں کو باہمی اختلافات بالائے طاق رکھ کر نئی نسل کی سرپرستی ‘ قوم کی ترجمانی اور وطن کے استحکام کے لیے مشترکہ اقدامات اٹھانے کی توفیق دے۔ نوائے وقت سے خصوصی گفتگو میں ڈاکٹر عزیز ہاشمی نے بتایا کہ وہ 1957ء سے 2021ء تک پاکستان کے مختلف ادوار میں سیاسی ‘ سماجی ‘ تعلیمی اور تدریسی حالات کو قلم بند کررہے ہیں ان کی آخری خواہش ہے کہ یادداشتوں پر مشتمل کتاب ’’متاع عزیز‘‘ تدوین کے بعد شائع ہوجائے ۔ دادا احمد بشیر ہاشمی اور والد مرحوم محمد صادق ہاشمی فوجی پس منظر کے حامل تھے تقسیم سے قبل ہاشمی فیملی کہوٹہ کے ممتاز خاندانوں میں شمار ہوا کرتی تھی۔قومی ترانہ کی بابت عرض ہے کہ مختلف شعراء کے لکھے ہوئے 723 میں سے ابوالاثر حفیظ جالندھری کا لکھا ہوا ترانہ محمد علی بوگرہ ( وزیراعظم کے) دور میں قومی ترانہ قرار پایا گیا۔ پہلی بار 13 اگست 1954ء کو ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا قومی ترانہ ایک منٹ 30 سیکنڈ میں مکمل ہوتا ہے قومی ترانے کے تین بند اور 15 مصرعے ہیں قومی ترانے کے پچاس الفاظ 203 حروف اور 121 نقطے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں رہنے والے ہر شہری سے بالعموم اور طلباء اور اساتذہ سے بالخصوص یہ گزارش ہے کہ وہ قومی ترانہ کو زبانی یاد کریں ، اس کے معنی اور تشریح کو سمجھنے کی کوشش کریں اور جہاں بھی قومی ترانہ پڑھا جائے مودب کھڑے ہو کر نہ صرف سنیں بلکہ پڑھنے والے کے ساتھ پڑھیں ، عملی نفاذ کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔ سانحہ مشرقی پاکستان کی روح فرسا خبر ؟ اس روز افشاں کالونی میں اپنی درسگاہ میں موجود تھا ایک بجے ریڈیو آن کیا تو عین اسی لمحے قائداعظم کا نایاب پوٹریٹ دیوار سے نیچے آن گرا‘ ساتھ ہی ریڈیو پاکستان سے سقوط ڈھاکہ کی دل شکن خبر نشر ہوگئی ۔ جنرل ٹکا خان سے ہم نے پوچھا کہ دشمن نے ہمیں اندر سے کمزور کردیا تھا جو سقوط ڈھاکہ کا سبب بنا ۔ ٹکا خان کی مسلسل خاموشی ہمارے سچ کی تصدیق کر رہی تھی۔
٭… چوہدری ذوالفقار علی اسلم نے بتایا کہ والد محترم بتاتے ہیں کہ آل انڈیا مسلم لیگ نے حضرت قائداعظم محمد علی جناح کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے پورے ہندوستان میں تحریک آزادی کی شمع فروزاں کر دی ۔ مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن پبجاب تحریک پاکستان کا ہر اول دستہ کہلاتی تھی۔ لدھیانہ میں والد مرحوم ومغفور ایم ایس ایف کے سرگرم رکن تھے ان کی قائداعظم محمد علی جناح سے ملاقاتیں بھی ہوئیں اور بانی پاکستان کے ہاتھوں سے توصیفی سرٹیفکیٹ وصول کرنے کا اعزاز بھی پایا۔ 14 اگست 1947ء کو والد محترم اپنے والدین کے ہمراہ بہت سی جائیداد اور کاروبار چھوڑ کر پاکستان چلے آئے۔ راولپنڈی میں ان کا پڑاؤ ہوا، نیا محلہ میں مکان الاٹ کیا گیا ۔ والد گرامی کے دوستوں میں مولانا عبدالستار خان نیازیؒ جیسی قدر آور شخصیات شامل تھیں۔ 1962ء میں مادر ملت کے صدارتی الیکشن میں والد محترم نے اپنے دوستوں اور احباب کے ساتھ مل کر قائداعظم کی ہمشیرہ محترمہ کی الیکشن مہم چلائی بظاہر فاطمہ جناح کو الیکشن میں ہرا دیا گیا لیکن یہ واحد نتائج تھے جنہیں آج تک قوم نے تسلیم نہیں کیا۔ 2007ء میں والد محترم مختصر علالت کے بعد اللہ کو پیارے ہوگئے ۔
٭… محمد عبدالعظیم قریشی کا کہنا تھا کہ میرے والد محترم عبدالحکیم قریشی تقسیم سے قبل حیدر آباد دکن میں عثمان علی پاشا اسٹیٹ میں کرنل کی حیثیت سے ذمہ داری پوری کیا کرتے ۔ یہ 1951ء کا زمانہ ہے جب حیدر آباد دکن میں پولیس ایکشن ہوا ۔ پولیس کو میرے والد گرامی مطلوب تھے۔ سیکورٹی فورس کے پاس ان کو جان سے مار دینے کا آرڈر بھی تھا۔ قصہ یوں تھا کہ ایک ہندو نے بھرے مجمع میں بانی پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ کو مطعون کرنا شروع کردیا۔ والد محترم کو شدید غصہ آیا اور انہوں نے آگے بڑھ کر اس ہندو کو وہ سبق سکھایا کہ اس کی نسلیں یاد رکھیں گی۔ ہندو کی مار پیٹ کی خبر لمحہ بھر میں عام ہوگئی پولیس نے والد صاحب کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارنے شروع کر دئیے انہیں زندہ یا مردہ گرفتار کرنے کے احکامات تھے ۔ ایسی صورت حال میں والد صاحب نیپال کے راستے ہجرت کرکے پاکستان (کراچی )آگئے۔ والد محترم قائداعظم کے عاشق اور پاکستان کے محبان میں شامل تھے ان کے لیے پاکستان جان سے بڑھ کر تھا وہ جس محبت وعقیدت سے حضرت قائداعظم کا تذکرہ کرتے ہوئے اس محبت کا اظہار الفاظ میں کرنا مشکل ہے۔