گلوبل ویلج
مطلوب احمد وڑائچ
matloobwarraich@yahoo.com
ٹرمپ کے امریکہ کا صدر بننے کے بعد عالمی منظر نامہ تیزی سے بدل رہا ہے۔انتخابی مہم کے دوران اور اقتدار میں آنے سے قبل کوئی بھی بڑا لیڈر بڑے بڑے وعدے کرتا ہے ،دعوے کرتا ہے اپنے ایجنڈے سامنے رکھتا ہے مگر اقتدار میں آنے کے بعد ان پر عمل کی رفتار بہت سست ہوتی ہے بعض اوقات تو سارے دعوے، وعدے، پروگرام، ایجنڈے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں اور مدت پوری ہو جاتی ہے۔مگر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے جو کچھ کہا گیا تھا اس پر انہوں نے صدارت سنبھالتے ہی ہتھیلی پر سرسوں جمانے کے مترادف فوری طور پر عمل کرنا شروع کر دیا۔خلیج میکسیکو کا نام خلیج امریکہ کر دیا۔غیر قانونی امریکہ میں موجود تارکین وطن کو واپس بھجوانے کا سلسلہ شروع کر دیا۔اسرائیل فلسطین جنگ بندی ان کے نامزد کردہ مشرق وسطیٰ کے لئے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف نے شٹر ڈپلومیسی سے ٹرمپ کے صدارتی حلف اٹھانے سے پہلے ہی کروا دی تھی۔اب وہ یوکرین اور روس کی جنگ بند کروانے کے لیے سرگرم عمل ہیں۔
یوکرین یہ جنگ ہار چکا ہے۔ یورپ میں دس بارہ جو بڑے ملک ہیں کسی نے پچاس بلین کسی نے سو بلین اس پر لگایا ہوا ہے۔وہ اتنے پیسے لگا کر رسک نہیں لے سکتے۔ان کا پروگرام یہ تھا کہ جنگ میں یوکرین کی برتری ہونے کے بعد۔یوکرین کے پاس جو معدنیات ہیں وہ اس سے حصہ لینا چاہتے تھے۔وہ اب ان کو نہیں ملے گا۔کیونکہ امریکہ جنگ بندی کروانا چاہتا ہے اور اس جنگ کا سب سے بڑا فریق روس بھی اس پر تیار ہے۔جس سے ان یورپی ممالک کی گیم بری طرح سے فیل ہو گئی جن کی یوکرین کی معدنیات پر نظر تھی۔اب یہ سارا کچھ روس اور امریکہ میں تقسیم ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔اسی لیے یہ ممالک غیر متوقع طور پر کھل کر امریکہ کے سامنے کھڑے ہو گئے۔ اگر رشیا نے یوکرین پر قبضہ کر لیا تو امریکہ اور رشیا آپس میں یوکرین کو ہی بانٹ لیں گے۔
یہ دنیا میں کیسا چکر چلتا ہے کہ ابھی کل کے دشمن رشیا اور امریکہ آج دونوں ایک میز پر بیٹھے ہیں اور سعودی عرب کو انہوں نے ساتھ ملا لیا ہے۔ زیلنسکی جو یوکرین کا پریذیڈنٹ ہے وہ استنبول آیا تھا اوراس نے ایک رات رکنا تھا اور اگلے دن اس میٹنگ میں شامل ہونا تھا جو سعودی عرب میں ہو رہی تھی۔یہ روس اور امریکہ کے صدروں کی میٹنگ سے پہلے دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کی سربراہی میں آنے والے وفود کے درمیان ہو رہی تھی۔اپنے ملک سے زیلنسکی اس میٹنگ میں شرکت کرنے کے لیے گئے تو ایک رات کے لیے ترکی میں رک گئے۔اس نے وہاں جا کر طیب اردگان کے ساتھ مل کرامریکہ اور روس پر دبائو بڑھانے کے لیے یہ فیصلہ کیا کہ مجھے آگے نہیں جانا چاہیے۔طیب اردگان کے روس کے ساتھ بہتر تعلقات رہے ہیں مگر جب ماضی کی جغرافیائی صورتحال ان کے سامنے آتی ہے جب سلطنت عثمانیہ کی کئی ریاستیں روس کا حصہ بن گئی تھیں،تو طیب اردگان امادہ انتقام ہو جاتے ہیں۔انہوں نے زیلنسکی کے مذاکرات میں شرکت کے لیے سعودی عرب نہ جانے کے فیصلے کی حمایت کر دی۔زیلنسکی نے یہ بڑی غلطی کی ہے کہ طے شدہ میٹنگوں میں جانا پڑتا ہے۔ اس پر روس تو کچھ کر نہیں سکتا تھا تاہم صدر ٹرمپ کی طرف سے اشتعال انگیزی کا مظاہرہ کیا۔صدر ٹرمپ نے زیلنسکی کو ڈکٹیٹر قرار دیتے ہوئے انہیں جنگ کا ذمہ دار قرار دیا جبکہ روس کے حوالے سے کہا کہ روس کے لیے یہ جنگ یوکرین کی پہل کی وجہ سے مجبوری بن گئی تھی۔
اب امریکہ نیٹو سے نکل جائے گا اور نیٹو ٹوٹ جائے گی۔ نیٹو ہے ہی اسی کے دم سے۔ امریکہ اگر نیٹو سے نکل گیا تو یورپی یونین بھی ٹوٹ جائے گی۔ پھر یہ ہوگا کہ اس سال کے آخر تک ہر ملک پہلے کی طرح پھر آزاد ہو جائے گا۔ یورپ ٹکڑوں میں بٹ جائے گاکیونکہ ہنگری ،رومینیا ،جارجیا اور بہت سارے ملک یورپی یونین کے اندر تھے۔یورپی یونین کے ستائیس ملک ہیں۔ اس میں آٹھ نو ملک تو ویسے ہی رشیا کے ساتھ ہیں کئی امریکہ کے ساتھ بھی ہیں۔
نیٹو میں برطانیہ شامل نہیں تھا اور اب اسے احساس ہوا کہ اس نے غلطی کی تھی۔ اس میں ہوتا تو اس کا کنٹرول ہوتا۔لیکن اب برطانیہ کے امریکہ کے ساتھ تعلقات خراب ہو گئے اور اب وہ یورپ کی اس گیم میں واپس آنا چاہ رہا ہے لیکن اسے اب ملے گا کچھ نہیں۔جو دوبڑے ملک ہیں اپنے اسلحے کے اعتبار سے، پیسے کے اعتبار سے وہ فرانس اور جرمنی ہیں۔نیٹو میں اگر طاقت کے اعتبار سے ان دونوں میں اگر کوئی مضبوط ہے وہ ترکی ہے۔یعنی نیٹو میں ویسے بھی اگر امریکہ کے بعد مضبوطی کا نمبر آتا تھا وہ ترکی کا ہی ہے۔ کیونکہ ان کی فوج کے علاوہ کوئی فوج لڑنے کے قابل ہی نہیں۔ان کے پاس پیسہ ہے، ٹیکنالوجی ہے لیکن فوج لڑنے والی ترکی کے پاس ہی ہے۔ عددی اعتبار سے بھی زیادہ ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اب یورپ کا مستقبل کوئی نہیں۔آئندہ جو دنیا ہے وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے گی ،بے روزگاری، جاب ختم اور دنیا مختلف بلاکس میں تقسیم ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔اب امریکہ کا یہ پلان ہے کہ کسی طرح چین کو کنٹرول کرے۔ اس کو وہ معاشی طور پر شکست نہیں دے سکتا کیونکہ وہ دنیا کا سب سے بڑا ایک سو پچاس کروڑ کی پاپولیشن والا ملک ہے۔انڈیا کی بھی ایک سو چالیس کروڑ آبادی ہے لیکن انڈیا کے پاس ٹیکنالوجی نہیں ہے ،انڈیا کے پاس پیسہ نہیں ہے، غربت ہے۔ آپ جائیں تو لوگ سڑکوں پر لیٹے ہوئے ہیں،گند ہے، انفراسٹکچر نہیں ہے۔ چائنا یہ سب کچھ بنا گیا ہے، اب چائنا دیکھیں تو یورپ سے بھی آگے نکل گیاہے۔ اب امریکہ کا ہے کہ وہ کسی طرح چائنا کو روکنا چاہتا ہے۔ اس لیے اس نے رشیا سے صلح کی اور رشیا کی لاٹری نکل آئی ہے۔ ویسے تو رشیا امریکہ کا دشمن ہے دونوں ایک دوسرے کے سرد جنگ میں بھی دشمن ہوتے ہیں۔ لیکن اب رشیا نے امریکی دعوت قبول کر لی ہے لیکن چائنا کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔چائنا پر حملہ کوئی بھی نہیں کرے گا۔امریکہ چاہتا ہے کہ چائنا کام کرتا رہے لیکن اپنا مال بنا کر سستا میری عوام کو دے۔امریکہ کے تو چونتیس کروڑ عوام کو کھانے پینے کا گھریلو سامان چاہیے وہ کون دے گا۔ سستے سے سستا تو چین ہی دے سکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ چائنا رہے اور مال بنا کر ہمیں دیتا رہے اور ہمیں تنگ نہ کرے۔انڈسٹریل ملک امریکہ، رشیا اور چائنا یہ سارے ایک طرف ہو جائیں گے۔یورپ میں جو لوگ سیٹل ہیں ،آنے والے دنوں میں ان کو اقتصادی بحرانوں کا سامنا کرنا پڑ ے گا۔قصہ مختصر نیٹو اب اپنا وجود برقرار رکھتا ہوا نظر نہیں آرہا اس کا ٹوٹنا یقینی ہو گیا ہے جبکہ یورپ کی حیثیت بھی مردِ بیمار کی ہے یہ بھی روس کی طرح بکھر جائے گا۔اور یہ سارا کچھ آئندہ چند مہینوں میں ہوتا ہوا نظرآ رہا ہے۔
یورپ کا ڈائون فال وہاں سے شروع ہوا تھا جب1980ء میں دنیا تیزی سے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی طرف بڑھ رہی تھی مگر یورپ نے اپنی ٹیکنالوجی کو مخصوص سمتوں میں محو سفر رکھا۔اور یقینا شاید اس وقت کے مطابق ان کی یہ حکمت عملی ٹھیک بھی تھی کیونکہ اس وقت فارماسوٹیکل اور میڈیسن کا شعبہ بامِ عروج پر تھا ۔ آپ دیکھیں آج بھی جرمن اور باقی یورپ کی مشہور میڈیسن کمپنیاں جیسے فائزر ،سیباگائیگی، شازو انڈسٹری اور درجنوں ایسی کمپنیاں پچھلے پچاس سالوں سے ادویات کے شعبے میں بھاری انویسٹمنٹ کر رہی ہیں۔اس طرح اٹلی،جرمن،فرانس اور سویڈن کی آٹوویکل انڈسٹری پوری دنیا کو گاڑیاں سپلائی کر رہی ہیں لیکن یہ ترقی کا صرف ایک پہلو تھا ،یورپ دوسرے پہلو کو یکسر نظرانداز کر گیا اور وہ پہلو تھا جسے چین،انڈیا اورامریکہ نے بروقت شروع کرکے ایجوکیشن اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی صنعت میں سرمایہ کاری کی۔اور ان تینوں بڑے ممالک کے دوراندیش رہنمائوں نے یہ دیکھ لیا تھا کہ آنے والا وقت انفارمیشن ٹیکنالوجی کا ہے۔اور یہی وجہ ہے کہ روس ،امریکہ ،چین اور انڈیا اس وقت ڈیجیٹل ٹیکنالوجی میں بلاشرکت غیرے حکمرانی کر رہے ہیں۔لیکن یورپ کے تھنک ٹینک نے اس کو نظرانداز کرکے آج کی اس ناگفتہ بے حالت تک پہنچا۔اگر آج بھی یورپ ان سمتوں میں ترقی کے اقدامات شروع کر دے تو امریکہ اور چین کے برابر پہنچنے کے لیے انہیں عشرے درکار ہوں گے۔