مرد مومن حمید نظامیؒ کی یادوں کے روشن چراغ

تحریک پاکستان کے معروف کارکن کرنل سلطان ظہور اختر ماضی کا تذکرہ کرتے ہیں۔
فروری اور حمید نظامی ؒکی سنہری یادیں اور باتیں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں سال نو کے دوسرے ماہ میں وہ سارے واقعات اور جدائی کے زخم تازہ ہونے لگتے ہیں ایسا دکھائی دیتا ہے کہ وہ کل کی بات ہے جب میرے والد محترم نے خط لکھ کر مجھے حمید نظامیؒ کی رحلت کی روح فرسا خبر دی اس سانحہ ارتحال کو 55 برس بیت گئے اللہ پاک انہیں غریق رحمت کرے آمین۔ حمید نظامی نڈر‘ بے باک اور دلیر صحافت کا استعارہ تھے۔ اسلام ‘ پاکستان اور قائداعظم کے اس عاشق کی سچائی ‘ دیانت اور کمٹمنٹ سے زمانہ واقف ہے ان کا نام پاکستان اور بانی پاکستان کے محبان میں ہمیشہ فخرواعجاز سے لیا جاتا رہے گا وہ بھی کیا دن تھے.... اللہ اللہ ‘ مجھے پرانے سکے جمع کرنے کا شوق بچپن سے ہے اس شوق کو دیکھتے ہوئے حضرت قائداعظم نے مجھے برطانیہ اور جرمنی کے سکے دئیے وہ سکے آج تک میرے پاس محفوظ ہیں‘ یہ مارچ 1948ءکا حسین منظر تھا جب میں اور حمید نظامی حامد محمود کی گاڑی پرممدوٹ ویلا لاہور میں حضرت قائداعظم سے ملاقات کرنے پہنچے‘ اس سے قبل گورنر پنجاب کو ہم نے بتایا کہ حکومت پاکستان کے جاری کردہ پہلے سکے پر کنداں اور پہلے ڈاک ٹکٹ پر موجودہ چاند کا رخ الٹا ہے۔ گورنر یہ جان کرسشدررہ گئے تاہم وہ اس کی تصحیح کرانے کے لیے بااختیار نہ تھے چنانچہ ہم نے وزیراعظم خان لیاقت علی خان کی موجودگی میں قائداعظم کے سامنے یہ انکشاف کیا ”چاند الٹا ہے“ یہ سن کر قائداعظم حیران ہوگئے انہوں نے وزیراعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہیلو پرائم منسٹریہ نوجوان کیا کہہ رہے ہیں؟ وہ اقبال نے کیا کہا تھا ” جوانوں کو پیروکا“ بانی پاکستان کو حضرت اقبال کے اس شہرہ آفاق شعرکا مصرعہ پورا یاد نہیں تھا تاہم موقع محل اور حالات کی نزاکت کے تحت انہیں مصرعہ ”جوانوں کو پیرو کا استاد کر“ خوب یاد رہا چنانچہ فوری طورپر قائداعظم نے ہدایات دیں کہ ان کی گاڑی پر موجود پرچم میں چاند درست کیا جائے اور وزیراعظم کو حکم دیا کہ سکہ اور ڈاک ٹکٹ پر تصحیح ہونی چاہیے۔ خصوصی نشست میں 88 سالہ بزرگ رہنما گولڈ میڈلسٹ کرنل ریٹائرڈ سلطان ظہور اختر نے دکھ بھرے لہجے میں بتایا کہ آج صرف جماعت اسلامی کے پارٹی پرچم میں چاند کا رخ درست ہے باقی مسلم لیگ سمیت سیاسی ودینی جماعتوں کے پارٹی پرچم پر چاند ستارہ موجود ہے انکے رخ غلط ہیں حیرت ہے کہ کسی ادارے اور ذمہ دار شخص نے اس اہم ترین مسئلہ کی طرف ابھی تک توجہ نہیں دی۔
نوائے وقت: آپ کا وقت شیخوپورہ میں بھی گزرا؟
سلطان ظہور اختر: میرے والد راجہ حسن اختر شیخوپورہ میں ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ریونیو تھے ان دنوں حمید نظامی غالباً ایم اے کے طالب علم تھے اور میں آٹھویں جماعت میں پڑھتا تھا وہ سانگلہ ہل کے تھے اکثر شیخوپورہ والد مرحوم سے ملنے آتے۔ حضرت اقبالؒ اور انکے گھرانے سے میرے والد محترم کی خاص عقیدت تھی میرا نام سلطان ظہور کا انتخاب بھی شاعر مشرق نے کیا تھا۔ 1939ءکے دوران حمید نظامیؒ میرے والد گرامی سے ملنے آئے اور بتایا کہ اسلامیہ کالج کے طلباءنے مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن پنجاب کی داغ بیل ڈالی ہے دوسری بات کا تعلق نئے اخبار کے اجراءسے متعلق تھا قائداعظم نے مجھے حکم دیا کہ پنجاب سے اخبار نکالنا ہے اوریہ کام تم (حمید نظامی) کرو گے!! راجہ صاحب آپ بتائیں یہ کام بہت مہنگا ہے کیسے پورا ہوگا؟ میرے والد چونکہ برطانوی گورنمنٹ کے ملازم تھے ہمارا خدمت وسیاست کا ایک پس منظر بھی تھا دادا مرحوم راجہ کرم داد خان ڈپٹی لیگل کونسلر بھی رہے۔ تحریک خلافت میں وہ پیش پیش تھے میرے والد گرامی نے شیخوپورہ میں ملک صاحب (نام یاد نہیں رہا) اور شیخ کرامت کو فوری بلا کر اور انہیں بتایا کہ نظامی صاحب کو قائداعظمؒ کا یہ حکم ملا ہے آپ مشاورت کیلئے چیدہ چیدہ لوگوں کو بلائیں انہوں نے اس مشن کےلئے ایک ہزار روپے عطیہ بھی دیا‘ صدر مسلم لیگ (شیخوپورہ) ملک صاحب کی زیرصدارت اجلاس ہوا اور اس ارفع مقصد کےلئے دس ہزار اکٹھے ہو گئے۔ میں نے ایم ایس ایف کا ذکر کیا تھا اس پلیٹ فارم پر حمید نظامی کے ساتھ جمشید ترین،حامد محمود‘ امین ترین‘ قاسم رضوی‘ ڈاکٹر ضیاءاسلام اور آفتاب قرشی متحرک رہے۔ 23 مارچ 1940 ءکو قائداعظم محمد علی جناح کے سامنے پندرہ روزہ نوائے وقت پیش ہوا تو وہ دیکھ کر مسرور ہوئے اور انہوں نے حمید نظامی کو خوب داد دی۔ 'Well Done Mr Young Man' نوائے وقت پہلے چھوٹی ,,ی,, سے لکھا گیا اس کی پیشانی معروف کاتب پروی رقم نے جلی حروف میں لکھی۔ بعد میں نوائے وقت کو نئے حروف نوائے وقت سے مزین و منور کر دیا گیا .... پروی رقم کے صاحبزادے این پروی رقم اپنے والد کی طرح اعلیٰ پایہ کے خطاط تھے انہوں نے حضرت اقبال کے مزار پر شاعر مشرق کے اشعار کنداں کئے اس خاندان کی بھی پاکستان اور اکابرین پاکستان سے محبت مثالی ہے
س: آپ علی گڑھ میں زیرتعلیم رہے‘ وہاں بھی حمید نظامی آتے تھے۔
ج: قائداعظم محمد علی جناح جب بھی دورہ علی گڑھ پر آئے وہ نوجوانوں سے ضرور ملتے‘ حمید نظامی دو مرتبہ علی گڑھ آئے تھے ایک دفعہ 1944 ءاور دوسری دفعہ 1946 ءآئے۔ دونوں مرتبہ وہ ہاسٹل میں کمرے میں ٹھہرے‘ صدر مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن پنجاب کی حیثیت سے انکے ساتھ جمشید ترین‘ امین ترین‘ حامد محمود‘ قاسم رضوی‘ بنگال مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کی طرف سے فضل قادر چودھری‘ محمود علی (سہلٹ) مجیب الرحمان (کلکتہ) اور دیگر سٹوڈنٹس راہنما دیکھے جاتے ان دنوں نوائے وقت کی قیمت ایک آنہ تھی‘ حمید نظامی اخبار کی 100 کاپیاں مجھے علی گڑھ بھجواتے میں وہ کاپیاں چار ہاسٹلز میں تقسیم کرتا
س: آپ مسلم لیگ سٹوڈنٹس نیشنل گارڈ کے سالار بھی رہے۔
ج: تقسیم کے بعد میں علی گڑھ سے لاہور آ گیا‘ یہاں مجھے مسلم لیگ سٹوڈنٹس نیشنل گارڈ کا سالار چنا گیا۔ مجھے قائداعظم کے باڈی گارڈ بننے کا اعزاز بھی حاصل ہے اس دوران کشمیر کا جہاد شروع ہو گیا حمید نظامی اور میں نے سٹوڈنٹس گروپ تشکیل دیا اس گروپ میں آفتاب قریشی بھی شامل تھے ہم نے کشمیر موومنٹ کےلئے تراڑ کھل میں سردار ابراہیم جو اس وقت نئے نئے صدر بنے تھے ان سے ملاقات کی‘ سردار صاحب نے ہمارے یوتھ گروپ کو لکھت پڑھت کا کام سونپ دیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب نوائے وقت باقاعدہ روزنامہ بن گیا تھا ان دنوں انقلاب‘ زمیندار‘ شہباز اور ہندووں کے اخبارات پرتاب‘ ملاپ‘ سول اینڈ ملٹری گزٹ کی دھوم تھی۔ حمید نظامی نے نوائے وقت کے ذریعے ملک و قوم کےلئے جو خدمات انجام دیں وہ آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔
س: لاہور میں حمید نظامی سے ملاقاتیں ہوتی رہیں
ج: ہر تیسرے دن ملاقات ہوا کرتی تھی‘ جہاد کشمیر سے واپس آئے تو حضرت قائداعظم سے ملاقات میں سکہ اور ڈاک ٹکٹ والا معاملہ پیش کیا‘ قائداعظم مجھے دیکھ کر مسکرائے! حمید نظامی فوراً بانی پاکستان سے مخاطب ہو کر کہنے لگے۔ سر سلطان ظہور کو سکے جمع کرنے کا بہت شوق ہے قائداعظم زیرلب مسکرائے اور بولے۔ I Know Very Well حمید نظامی نے اردو صحافت میں دیانت‘ شرافت اور وطن دوستی کی جو مثالیں قائم کیں انکی نظیر ملنا مشکل ہے۔ وہ بہت اچھے مدیر اور دلیر ایڈیٹر تھے ان کی اسلام‘ پاکستان اور قائداعظم سے کمٹمنٹ مسلمہ تھی وہ اور انکے برادر میرے دوست مجید نظامی مرتے دم تک پاکستان کے وفادار رہے۔ نظامی برادران کی صحافت پاکستان سے شروع اور پاکستان پر ختم ہو جاتی ہے/
س: آپ کو حمید نظامی کی رحلت کی خبر کیسے ملی؟
جب: 1962 کے دوران میں میری ڈیوٹی انڈس ویلی (شاہراہ قراقرم) کے حوالہ سے تھی مجھے والد محترم نے خط لکھا جس میں حمید نظامی کی رحلت کی خبر تھی اس میں بابا جان نے لکھا کہ 25 فروری بروز اتوار صبح 11-45 پر حمید نظامی نے جان جان آفرین کے سپرد کر دی۔ اگلے روز 50 ہزار افراد نے انکی نماز جنازہ میں شرکت کی۔ 27 تاریخ کو انکی رسم قل بھی ادا کی گئی۔ ابو جان لکھتے ہیں کہ حمید نظامی کی رحلت پر مجھے اپنی والدہ ماجدہ کے انتقال سے بڑا صدمہ ہوا بلاشبہ وہ مرد مومن اور مرد امین تھے!!

ای پیپر دی نیشن