کلیجہ منہ کو آتا ہے

غزہ کے حالات اور عالمی سطح پہ مسلمانوں اور بین الاقوامی اداروں کی بے حسی اور بے بسی اسلامی جہاد کے اصول کے منافی ہے۔ ہم میں سے ہے کوئی؟ ایسا مائی کا لعل جو غزہ کے مسلمانوں کی طرح اللہ کے سپاہی ہوں، اور اللہ اور نبی کی راہ میں مسلمانوں کی نسلوں کی حفاظت کے لیے اپنی مائیں، بہنیں، بیٹے یہاں تک کہ نسل مٹانے کو تیار ہوں۔ غزہ میں، ہاں! غزہ میں ایسی ہی نسلیں آباد ہیں جو ہر خوف سے آزاد ہو کر کہتی ہیں کہ ہم نے تو گردنیں کٹا دیں، ہم نے تو معصوموں کو ماؤں سے لپٹے رہتے ہوئے ظالموں کو کاٹتے دیکھا، مارتے دیکھا، کٹتے دیکھا ان کے اجسام بارود سے اڑتے اور پھٹتے دیکھے، اے بے حس لوگو، تم تو ایک پٹاخہ پھوٹنے پرڈر جاتے ہو، ہم تو گولیوں اور بموں کی سماعتوں کو پھاڑتی ہوئی آوازوں کو اب ماں کی لوری سمجھتے ہیں کہ موت کی نیند تو آنی ہے ہم کیوں نہ اس شہادت کی صدا کو ماں کی لوری سمجھ کر سنیں اور پھر گہری نیند سوجائیں۔
دنیا کے دو ارب سے زائد مسلمانو! کلمہ حق پڑھتے ہو مگر اس کلمے کا حق ادا نہیں کرتے، ہم نے کیا ہے۔ آؤ اور آ کر دیکھو! مگر تم آکر دیکھنے کی ہمت کہاں رکھتے ہو؟ تم تو ایک سکرین پہ ہم اللہ کے بہادروں کی زندگی کی لٹتی بہاریں دیکھتے ہو، اف، ہائے اور افسوس صد افسوس کے الفاظ بول کر سکرین بند کر دیتے ہو۔ ہمیں معلوم ہے کہ تم بہت کچھ کر سکتے ہو مگر تم کچھ نہیں کرو گے، تم کچھ کر بھی نہیں سکتے کیونکہ تم بزدل ہو، میں ایک غزہ میں لٹے پٹے خاندان کا واحد چراغ جلتا رہ گیا ہوں، میری لَو مدہم ہو رہی ہے مگر ہڈیوں میں جو تیل میرے دین اور والدین کی تربیت نے بھرا ہے وہ ابھی دشمن دین کو خس وخاشاک میں بدلنے کے لیے کافی ہے، تم نہیں آتے، تم نہیں آواز اٹھاتے، تو کیا ہوا، مجھے تو بدلہ لینا ہے، غزہ کی بہنوں، بیٹیوں کا، گلی کوچوں میں کھیلتے سبز آنکھوں والے نرم گلابی چہروں والے بچوں کے بستوں، کتابوں اور کھلونوں کے ساتھ ان کو دفنانے کا، ایک گڑھے میں جب رکھنے پڑیں سو جسد خاکی جس میں سے کسی ایک کا جسم بھی سلامت نہ ہو اورجو پھٹے ہوئے کپڑوں میں لپٹ کر دفنائی جائیں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے نا! مگر اب میرا کلیجہ منہ کو نہیں آتا کیونکہ سوائے دین و ایمان اور خون کا بدلہ لینے کے علاوہ میں توکب کا پتھر کا ہوچکا، گوکہ مجھے یقین ہے کہ کوئی نہیں آئے گا مگر کم و بیش اسلامی ممالک میں سے کوئی ایک تو ہو!تم جس یقین کے ساتھ کھڑے ہوکہ موت تو آتی نہیں، اسی یقین کے ساتھ ایک دن تم بھی ختم کر دیے جاؤ گے۔ یہ جو دہشت گردی نے دنیا بھر کے مسلم ممالک میں کہیں نہ کہیں بربریت اور تباہی کے جھنڈے گاڑھ رکھے ہیں تو یہ اسی موت کا عندیہ ہے جو غزہ کی تباہی کا باعث بننے جارہا ہے، تو ہوش کے ناخن لو!
اسرائیل اپنے ایجنڈے کے مطابق پہلے بائیڈن اور پھر ٹرمپ کی کامیابی اور حمایت سے غزہ کو نیست و نابود کرنے کے درپے ہے، کیا افغانستان، لیبیا، یمن اور شام و عراق کا حال بھول گئے؟ یاد رکھو آج ہم نشانے پرہیں تو کل تم بھی اس کی فہرست میں صف اول میں ہوگے، پھر کیا کرو گے؟ اگر آج ہم مٹھی بھر فلسطینی بچ جاتے ہیں (ان شاء اللہ) اور پھر سے طاقت پکڑ لیتے ہیں اللہ کے حکم سے پھر سے غزہ آباد ہو جاتا ہے دشمنوں کے منہ کالے ہو جاتے ہیں تو قسم اللہ کی! تم جب مدد کو پکارو گے تو ہم تمھارے جیسی بے حسی کا مظاہرہ نہیں کریں گے۔ اس لیے دعا کرو کہ فلسطینی پھر سے زندہ و تابندہ ہو جائیں۔عدم تحفظ اور انتشار کی جو فضا ہر مسلم ممالک میں پھیلتی نظر آ رہی ہے، یہ قیامت کی گھڑیاں ہیں گو کہ غزہ میں قیامتیں برپا ہو چکیں، سچ پوچھو تو اب مجھے تمھاری فکر کھائے جارہی ہے کہ ہماری قوم نے، ہماری نسلوں نے یہاں تک کہ ہماری ہواؤں اور فضاؤں نے بھی صہیونی طاقتوں کا غزوہ رسولؐ کے سپہ سالار صحابیوں کی طرح مقابلہ کیا ہے۔ ان شاء اللہ فتح بھی ہمیں نصیب ہوگی کیونکہ ہم تو وہ بہادر ہیں کہ
پیٹھ پہ گولی کانشاں تک بھی نہیں تھا
جس کا بھی بدن دیکھا سینہ ہی کھلا تھا
اور تم بزدل، منافق بس! زندگی کی عیاشیوں میں پڑے ہو تمھارے لیے اے مسلمانو! یہ آیت اتری تھی کہ ’’یہ بہرے ہیں گونگے ہیں اندھے ہیں سو یہ اب نہیں لوٹیں گے‘‘۔(سورۃ البقرہ)
مگر جہاں مولانا ظفرعلی خان کہتے ہیں کہ
اخوت اس کو کہتے ہیں، چبھے کانٹا جو کابل میں 
تو ہندوستان کا ہر پیر و جواں بے تاب ہو جائے
لیکن اگر آج مولانا ظفر علی خان کو اس بربریت کا علم ہو جائے تو وہ شاید اپنا قلم ہی توڑ دیتے۔ غزہ میں اسرائیل کس سفاکیت کے ساتھ انسانیت سوز سلوک جاری رکھے ہوئے ہے، یہ کھیل آج کا نہیں، 78سال سے پرانی اور لہو کی ارزانی کی داستان آج کس نہج پہ پہنچ گئی کہ سینکڑوں یتیموں، ہزاروں بیواؤں کی صدائیں، مسجدوں کے میناروں سے اللہ اکبر، الاماں الاماں کی پکار سنائی دے رہی ہے۔ کیا تاریخ کے فیصلہ ساز حکومتی عہدے دار اپنی غیرت و خودی بیچ بیٹھے ہیں؟ ہمیشہ ہمت و جرأت کا جنازہ نکل چکاہے؟ کہ جو وحشی یہودیوں کے اس بیہمانہ عمل، کہ جس کی آج کے دور میں مثال نہیں ملتی، اس نسل کشی کو روک سکیں، وہ جو سنتے تھے کہ محمد بن قاسم تھا، یوسف بن تاشقین، سلطان محمود غزنوی تھا کیا تم میں سے کوئی بھی نہیں، جانتے ہو اگر ایک ظالم معصوم بچے کے سامنے اس کے باپ کو مارتاہے تو وہ بچہ اپنے کھلونے والی بندوق سے اسے گولی مارنے کو آگے بڑھ آتاہے، چاہے وہ اپنے والد کو بچا پائے، یاخود مارا جائے اسے بس اپنے والد کی محبت میں قدم اٹھانا تھا،اس نے اٹھا لیا، تو کیا! اے مسلمانوں تم اپنے جیسے ایک ہی رب اور نبی کے نام لیوا بہن بھائیوں سے اس بچے جتنی محبت بھی نہیں کرتے!
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن