خصوصی پارلیمانی کمیٹی نے تین سال کے لیے جسٹس یحییٰ آفریدی کو 30 واں چیف جسٹس آف پاکستان نامزد کیاہے۔ وہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ریٹائرمنٹ کے بعد یہ منصب سنبھالیں گے۔ پاکستان کے نئے چیف جسٹس کی تعیناتی کے لئے نام فائنل کرنے کے حوالے سے خصوصی پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں کمیٹی نے دو تہائی اکثریت سے جسٹس یحییٰ آفریدی کو چیف جسٹس پاکستان نامزد کیا ہے۔ اجلاس میں راجہ پرویزاشرف، فاروق ایچ نائیک، سید نوید قمر، کامران مرتضیٰ، رعنا انصار، احسن اقبال، شائستہ پرویز ملک، اعظم نذیر تارڑ اور خواجہ آصف شریک ہوئے۔ 12 رکنی خصوصی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس کا سنی اتحاد کونسل کے ارکان علی ظفر، بیرسٹر گوہر اور حامد رضا نے بائیکاٹ کیا۔ رجسٹرار سپریم کورٹ کی جانب سے نئے چیف جسٹس کی تعیناتی کے لئے 3 ججز کے نام پارلیمانی کمیٹی کو بھیجے گئے تھے جن میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر اور جسٹس یحییٰ آفریدی کے نام شامل تھے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے ججز کے نام کے ساتھ مختصر رپورٹ بھی بھجھوائی گئی تھی جس میں ججز کا مختصر پروفائل، تاریخ پیدائش، تعلیم، وکالت کی تفصیلات، کب جج بنے؟ کب ہائی کورٹس کے چیف جسٹس بنے، سپریم کورٹ میں تعیناتی کی تاریخ بھی شامل تھی۔
کمیٹی کو دو تہائی اکثریت سے نئے چیف جسٹس کی نامزدگی کرنی تھی۔ دن چار بجے کے بعد پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں وفاقی سیکرٹری قانون و انصاف نے تین سینئر ججز کے نام اور پروفائل پیش کیے۔ تاہم پی ٹی آئی اور سنی اتحاد کونسل کے ارکان اجلاس میں شریک نہ ہوئے جس پر اجلاس متفقہ طور پر رات ساڑھے 8 بجے تک مؤخر کردیا گیا۔ کمیٹی نے پی ٹی آئی کو منانے کا فیصلہ کیا اور چار ارکان خواجہ آصف، احسن اقبال، راجہ پرویز اشرف اور رعنا انصار پی ٹی آئی کو منانے کے لیے گئے۔ مگر پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے خصوصی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا جس کے بعد حکومت کی جانب سے انہیں منانے کی کوشش کی گئی جو کہ ناکام رہی۔ چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہرعلی خان نے کہا کہ ہم آئینی ترامیم کے تمام عمل کو غیرقانونی سمجھتے ہیں۔ ہماری جماعت کی سیاسی کمیٹی نے پارلیمانی کمیٹی کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا۔
صدر آصف علی زرداری کی طرف سے جسٹس یحییٰ آفریدی کی بطور چیف جسٹس سپریم کورٹ تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا جس کے تحت جسٹس یحییٰ آفریدی 26 اکتوبر کو بطور چیف جسٹس سپریم کورٹ حلف اٹھائیں گے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی 23جنوری 1965ء کو ڈیرہ اسماعیل خان میں پیدا ہوئے اور ابتداہی تعلیم ایچی سن کالج لاہورسے حاصل کی۔ گورنمٹ کالج لاہور سے گریجویشن کی۔ پنجاب یونیورسٹی لاہورسے ایم اے معاشیات کی ڈگری حاصل کی۔کامن ویلتھ سکالرشپ پر جیسس کالج کیمبرج یونیورسٹی سے ایل ایل ایم کی ڈگری حاصل کی۔1990ء میں ہائیکورٹ کے وکیل کی حیثیت سے پریکٹس شروع کی جبکہ 2004ء میں سپریم کورٹ میں وکالت کا آغاز کیا۔ 2010ء میں پشاور ہائیکورٹ کے ایڈیشنل جج مقرر ہوئے، انہیں 15مارچ 2012ء کو مستقل جج مقرر کر دیا گیا۔ 30 دسمبر 2016ء کو پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے منصب کا حلف اٹھایا اور 28 جون 2018ء کو سپریم کورٹ کے جج مقرر ہوئے۔جسٹس یحییٰ آفریدی نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس 2024ء کی تین رکنی ججز کمیٹی میں شامل ہونے سے معذرت کرلی تھی جس کے بعد جسٹس امین الدین کو کمیٹی میں شامل کیا گیا تھا۔اب اس کمیٹی کی سربراہی بطور چیف جسٹس یحییٰ آفریدی خود کریں گے۔
موجودہ حالات میں جسٹس آفریدی کے لیے چیف جسٹس پاکستان بننا ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ مقدمات کا ایک انبار ہے جس سے نمٹنے کی ہر چیف جسٹس کی طرف سے کوشش کی گئی مگر سیاسی مقدمات بہت سا وقت لے لیتے تھے۔ چیف صاحبان کے پاس سوموٹو کا اختیار تھا جسے بے جا طور پر بھی استعمال کیا جاتا رہا۔سیاسی اور عمومی نوعیت کے معاملات پر بھی سوؤ موٹو لیے گئے جو سیشن کورٹ سے بھی نچلی سطح پر دیکھے جا سکتے تھے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی کا تقرر آئین میں ہونے والی 26ویں ترمیم کے بعد کیا گیا ہے۔اس ترمیم کی مخالفت کی جاتی رہی ہے جو بدستور جاری ہے۔ سینیئر موسٹ جج کی تقرری نہ ہونے پر کچھ حلقوں اورتحریک انصاف کے کچھ وکلاء کی طرف سے احتجاج کا عندیہ دیا گیا ہے۔جسٹس آفریدی کی بطور چیف جسٹس سپریم کورٹ تقرری اس قانون کے تحت کی گئی ہے جو 26 ویں آئینی ترمیم کی صورت میں آئین کا حصہ بن چکا ہے۔ وکلاء سے زیادہ کون اس امر سے واقف ہوگا اور سمجھ سکتا ہے کہ آئین میں ہونے والی ترمیم اور کسی بھی قسم کی قانون سازی کے خلاف آپ سپریم کورٹ جا سکتے ہیں۔ اس کے لیے آئینی بینچ تشکیل پا رہا ہے۔وہاں آپ کا کیس بھی جلد لگ سکتا ہے۔ترمیم پر تحفظات کو آپ چیلنج کر سکتے ہیں۔اسی ترمیم میں چیف جسٹس کی تعیناتی بھی شامل ہے۔ ویسے ابتدائی مسودے میں 54 شقیں تھیں جو اتفاق رائے کا دائرہ وسیع کرتے کرتے 24 رہ گئی ہیں۔ ترامیم اور جسٹس یحییٰ آفریدی کی تعیناتی کے خلاف احتجاج کی سرخیل ایک مرتبہ پھر تحریک انصاف ہی بن رہی ہے۔تحریک انصاف ترمیمی پراسیس کا حصہ رہی ہے۔ اس کی نشاندہی پر بہت سی شقیں ترمیم سے نکال دی گئی تھیں۔ اس کا کردار فرینڈلی اپوزیشن کا رہا ہے۔ چیف جسٹس کے لیے تین ججوں کا پینل اور ان میں سے ایک کا انتخاب اس ترمیم کا حصہ ہے۔ اس کے مطابق چیف جسٹس کے انتخاب کے لیے کمیٹی تشکیل دی گئی کمیٹی کے ارکان میں پی ٹی آئی کے فاضل ممبران بھی شامل تھے۔ مگر یہ اجلاس میں شریک ہونے کی بجائے بائیکاٹ کر گئے۔اب ترامیم اور چیف جسٹس کی تقرری کے خلاف ان کا احتجاج مناسب نہیں ہے۔ پاکستان میں ویسے ہی سیاسی معاشی اور امن و امان کے حالات سازگار نہیں، لوگ روٹی روزگار کے لیے پریشان ہیں جبکہ احتجاجوں مظاہروں سے انارکی میں مزید اضافہ ہوگا۔اپوزیشن ہوش کے ناخن لے۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومتی رویے بھی اعتدال کے متقاضی ہیں۔ احتساب ضرور کیا جائے جس میں انتقام کا شائبہ تک بھی نہیں ہونا چاہیے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی تین سال تک چیف جسٹس کے منصب پر فائز رہیں گے۔ سپریم کورٹ میں آئینی بینچز کی تشکیل اور نظامِ عدل میں اصلاحات ان کے لیئے بڑا چیلنج ہوگا۔ آئینی بنچز تشکیل پانے سے لاکھوں زیرالتوا مقدمات جلد نمٹانے میں مدد ملے گی۔ عدلیہ میں اصلاحات کے لیئے وہ اپنے پیش رو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اٹھائے گئے اقدامات کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔