چند ماہ پہلے نیٹ پر مجھے ایک ایسی خبر سننے اور پڑھنے کو ملی جس نے میرے پاؤں کے نیچے سے زمین کھینچ لی۔ افغانستان کا کوئی لیڈر بول رہا تھا ۔ اس نے بیان دیا ’’پاکستان کو بھارت ختم نہیںکر سکتا ہم کریں گے۔‘‘ اُف خدایا!ہمارے خاتمے کے لئے (خدانخواستہ) کہاں کہاں منصوبے بن رہے ہیں۔ یہ افغان ہماری سلامتی کے پیچھے کیوں پڑے ہیں؟ ہم نے ان کا کیا نقصان کیا ہے؟ جہاں تک ممکن تھا ہم نے ہمیشہ ان کی مدد کی ہے۔ان کے ادگرد اور بھی تو بہت سے ممالک ہیں ۔صرف پاکستان سے دشمنی کیوں؟ بعض اوقات تو میں یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہوں کہ آخر ہمارا مسئلہ کیا ہے؟ بھارت ہم سے خفا جس کی وجہ تو سمجھ میں آتی ہے۔ مغرب میں افغانستان ہمارا دشمن، جنوب میں ایران بھی کسی حد تک خفا، تو پھر ہمارا دوست کون ہے؟مشرقی پاکستان ہم سے علیحدہ ہوگیا اور وہ بھی لڑ کر علیحدہ ہوا۔کوئی ملک ہماری مدد کو نہ آیا۔ بلوچستان 1947ء سے ہم سے راضی نہیں۔وہاں سخت خانہ جنگی ہے اور دہشت گردی بے قابو ہے۔ فاٹا میں حالات اور بھی خراب ہیں۔ کیا یہ سب کچھ ہماری کمزوری یا بزدلی کی وجہ سے ہے یا ہماری سیاسی قیادت کی نا اہلی کی وجہ سے ہے؟ آخر ہم نے اتنے دشمن کیوں اور کیسے پال لئے ہیں؟ دنیامیں باقی ممالک بھی تو ہیں ۔ سب امن وامان سے رہ رہے ہیں۔ یہ صورت حال ہمارے لئے کسی بھی طرح سے قابلِ برداشت نہیں۔ ان حالات میں نہ تو ہماری معیشت درست ہو سکتی ہے ، نہ ہم ترقی کر سکتے ہیں اور نہ ہم پرامن زندگی گزار سکتے ہیں۔
اس میں تو اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ اس موجودہ دہشتگردی کے پیچھے افغانستان اور بھارت ہیں۔ یہ ناپاک گٹھ جوڑ ہماری سلامتی کے لئے بہت خطرناک ہے۔ افغانستان موجودہ دور کی دو سپر پاورز کو شکست دے چکا ہے۔ اس کا حوصلہ بہت بڑھ چکا ہے۔ کچھ سال پہلے امریکی سیکرٹری خارجہ ہیلری کلنٹن نے طالبان کے متعلق ٹھیک کہا تھاکہ پاکستان اگر اپنے بیک یارڈ میں سانپ پالے گا تو ایک دن وہ خود بھی ڈسا جائے گا۔یہی کچھ ہمارے ساتھ ہوا ہے۔ پاکستان طالبان کی جنم بھومی ہے۔ یہیں پر وہ پلے بڑھے ۔ پاکستان کی مدد ہی سے وہ کامیاب ہوئے اور اب وہ ہمیں ہی ڈسنا شروع ہو گئے ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ یہ ایک سیاسی مسئلہ ہے اور اسے سیاسی طور پر ہی حل ہونا چاہئے تھا لیکن افسوس ہے کہ اس سلسلے میں ہماری سیاسی قیادت کا روّیہ مایوس کن ہے۔ اب تو حالات اس نہج تک پہنچ چکے ہیں کہ ہر روز کہیں نہ کہیں دہشتگردی کا واقعہ رونما ہوجاتاہے جس میں ہمارے فوجی اور سویلین مارے جاتے ہیں اور ہم کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ حکومت کو سوچنا چاہئے کہ ہر مسئلے کا حل فوجی کاروائی ہر گز نہیں۔
دہشتگردی کے ہر واقعہ کے بعد ایک نپا تلا بیان سامنے آتا ہے ’’ہم دہشتگردی جڑھ سے اکھاڑ پھینکیں گے۔ بزدل کاروائیاں ہمارے عزم کو متزلزل نہیں کر سکتیں۔ہم دہشتگردوں کو نشانِ عبرت بنا دیں گے۔‘‘ لیکن سوال یہ ہے کہ ہم ایسا کب کر سکیںگے؟ 2001ء سے تو حالات اسی طرح آرہے ہیں۔ آج تک نہ تو کوئی دہشتگرد پکڑا جاسکا ہے اور نہ کسی کو سزا ملی ہے تو پھر دہشتگردی بڑھے گی نہیں تو کیا ہوگا؟ سیاسی قیادت کے اگر کوئی اپنے اہل وعیال یا عزیز و اقارب میں سے ان شہدا میں شامل ہوتا تو یقینا ان لوگوں کا رویہ اتنا غیر ذمہ دارانہ نہ ہوتا۔ شہید ہونے والے فوجی ہیں یا عام سویلین جو ان کے لئے اہم نہیں ہیں بلکہ یاد کر کے دکھ ہوتا ہے کہ ہمارے ایک عظیم سیاستدان نے تو فوج کو ’’توپ کا چارا‘‘قرار دیا تھا۔ کسی دور میں شرفا کی اولادوں کا فوج میں جانا باعثِ فخر تھا۔ مگر اب تو ان کی اولادیں فوج کی طرف دیکھنا بھی گوارہ نہیں کرتیں کیونکہ وہ پیدائشی ارب پتی ہوتی ہیں۔ فوج اب پاکستان میں شرفا کا پیشہ نہیں رہا بلکہ عام اور غرباء کا پیشہ بن چکا ہے۔اس لئے ان کی موت کا غم ان کے لئے صرف ظاہری بیانات تک محدود ہے۔ کسی نے ٹھیک کہا تھا کہ ان کی اولادیں محلات میں پیدا ہوتی ہیں ، یورپ اور امریکہ میں تعلیم حاصل کرتی ہیں اور صرف لوٹ مار اور حکمرانی کے لئے پاکستان آتی ہیں۔ بھلا جو نوجوان اپنے ملک کا پانی تک پینا پسند نہ کرے ۔ ڈالروں میں خریدے گئے جوتے پہنے تو وہ بھلا دہشتگرد ی سے کیسے لڑیں گے؟ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں مخلص اور ہمدرد قیادت عطا کرے۔ آمین!
11مارچ کو بلوچستان میں ٹرین اغواہ پاکستان کی سا لمیت کی لال لکیر کراس ہو چکی ہے ۔ یہ تاریخ کا وہ موڑ ہے جہاں قوموں کی تاریخ بنتی ہے یا بگڑتی ہے۔ہم ایک عرصہ دراز سے بغیر جنگ کے لاشیں اُٹھا رہے ہیں۔ سیاسی طور پر یہ مسئلہ کیوں نہیں حل ہو سکتا؟ہم ایک آزاد مطلق العنان ریاست ہیں ۔ ہمارے پاس خطہ کی ایک طاقتور فوج ہے ۔ ایٹمی پاور ہیں۔ تو کسی ملک کی کیا جرأت ہے کہ وہ پاکستان کے اندر آکر دہشتگردی کرے۔
مسئلے حل کرنے کے کئی طریقے ہیں اگر جذبہ ہو تو مسئلے حل ہو جاتے ہیں۔پھر بھی اگر کوئی ملک ہٹ دھرمی پر اترتا ہے تو اُسے منہ توڑجواب دینا چاہئے۔اس سلسلے میں دوست ممالک سے بھی مدد لی جا سکتی ہے۔ اب یہاں ایک اور سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ دھماکا خیز مواد سے بھری گاڑیاں سرحد عبور کر کے پاکستان کے اندر آ کیسے جاتی ہیں؟ کیا سرحد پر ہماری سیکورٹی کے کوئی انتظامات نہیں ہیں۔ یقینا ہیں مگر یا تو وہاں سستی ہوتی ہے یا پھر ڈالروں کی چمک رنگ دکھا جاتی ہے۔
اگر دہشتگردی کا جائزہ لیا جائے تو ایک اور تکلیف دہ چیز سامنے آتی ہے۔ ہماری نااہلی اپنی جگہ ۔ پچھلے کچھ عرصے سے دہشتگردی کے طریقہ واردات میں کافی تبدیلی آئی ہے۔اب یقین ہوتا جا رہا ہے کہ افغانستان پاکستان پرکسی بڑے حملے کی تیاری کر چکاہے۔ حالات دن بدن کشیدہ بلکہ بے قابو ہورہے ہیں۔ ایک تو ہمارے سیاسی قائدین ایک دوسرے کو غدار ثابت کرنے میں مصروف ہیں۔ دہشتگردی سے تو وہ تب لڑیں جب ان کی آپس کی نفرتیں ختم ہوں۔ اس وقت ان سب نے ایک دوسرے کے گلے پکڑے ہوئے ہیں تو یہ یقینا ملکی سلامتی کے لئے اچھا شگون نہیں۔
اب تک حکومت کی طرف سے اس عفریت سے نبٹنے کی کوئی مربوط پالیسی بھی سامنے نہیں آئی۔ اس وقت سیکورٹی کی ساری ذمہ داری فوج پر چھوڑ دی گئی ہے۔ جبکہ فوج کے لئے تنہا ان حالات سے نپٹنا ممکن ہی نہیں ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم خواب غفلت سے بیدار ہوں اور حالات سے مناسب انداز میں نپٹنے کی منصوبہ بندی کریں۔ ہمیں کیک کا ٹکڑا ہر گز نہیں بننا چاہئے کہ جس کا دل آئے اُٹھا کر منہ میں ڈال لے۔ پاکستان زندہ باد!