’’نائٹ ویژن Night Vision‘‘ عینکوں کا تو سنا تھا جن کے ذریعے رات کو بھی ہر چیز نظر آتی ہے لیکن ’’اقتداری عینکوں ‘‘کا کبھی نہیں سنا تھا جو ہمارے تمام سیاستدان جب اقتدار میں آتے ہیں تو پہن لیتے ہیں۔ ان عینکوں کے پہننے کے بعد انہیں اپنی کار کردگی آسمان تک بلند ہوتی ہوئی نظر آتی ہے۔انہیں ہر طرف ملک میں خوشحالی اور ترقی ہی ترقی نظر آتی ہے۔ ان کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ پاکستان کو ٹائیگر بنانے کے قریب ہیں۔ ان کے مداح دن رات ان کی تعریفوں کے پل باندھ دیتے ہیں۔ مثلاً فلاں صاحب نے ایک ماہ میں اتنا کام کیا ہے جتنا پچھلی حکومتوں نے کئی سالوں میں نہیں کیا۔ اُن کے ترقیاتی کاموں نے دنیا کو حیران کر دیا ہے۔ وغیرہ وغیرہ ۔ ان تعریفوں کا کوئی شمار ہی نہیں۔ ان بے جا تعریفوں نے صرف اوسط درجے کے بلکہ یہاں تک کہ کرپٹ لیڈروں کے دماغ پر بھی پردے چڑھا دئیے ہیں۔وہ اپنے متعلق بڑے بڑے القابات سن کراپنے آپ کو عظیم لیڈروں کی صف میں شمار کرنے لگ جاتے ہیں۔
ہماری ہر حکومت ایک ہی دعویٰ کرتی ہے ۔ ہم نے’’ مشکل فیصلے‘‘ کر کے پاکستان بچا لیا ہے۔ یہی کچھ ہماری موجودہ حکومت کر رہی ہے۔ آئیں ذرا موجودہ حکومت کے مشکل فیصلوں کا جائزہ لیتے ہیں۔ ہمارے یہ عظیم قائدین اقتدار سے پہلے ایک دوسرے کے سخت مخالف تھے۔سخت تقریریں کرتے تھے۔ تقریرروں میں غیر شریفانہ زبان تک بھی استعمال کر جاتے تھے حتیٰ کہ خواتین کو بھی نہ بخشتے ۔جو نہی انہیں اقتدار کی جھلک نظر آئی تو اتنا ’’مشکل فیصلہ ‘‘ کر لیا کہ سب کچھ بھول کر ایک دوسرے کے گلے لگ گئے۔ایک ہی پیالے میں مل کر کھانا شروع کر دیا۔ اس سے زیادہ ’’مشکل فیصلہ ‘‘ بھلا کیا ہو سکتا تھا۔ دوسرا ’’مشکل فیصلہ ‘‘ نواز شریف صاحب اپنی لندن رہائش ختم کر کے واپس آگئے اور حیران کن بات یہ کہ جس شدید بیماری کی وجہ سے وہ لندن تشریف لے گئے تھے وہ بالکل ہی ختم ہو گئی۔ آتے ہی سب کیسز حتیٰ کہ عدالتی نااہلی تک کا فیصلہ بھی ختم کرالیا۔ یہ بھی واقعی ’’مشکل فیصلہ ‘‘ تھا۔ اگلا ’’مشکل فیصلہ ‘‘ یہ ہوا کہ اقتدار میں آنے کے بعد تمام سیاستدانوں کے کرپشن کیسز ختم ہو گئے یا کرا دئیے گئے۔ رمضان شوگر ملز کے تمام کیسز سے بھی عزت مآب لیڈرز بری ہوگئے۔ اگلا ’’مشکل فیصلہ ‘‘ عوام کے لئے ٹیکسز بڑھا دئیے گئے۔عوام مرتے ہیں تو مریں لیکن ممبران صاحبان کی تنخواہیںڈیڑھ سو فیصد سے لے کر نو سو فیصد تک بڑھا دی گئیں۔حکومتی اخراجات بھی کئی گنا بڑھ گئے۔ حالانکہ یہی حکومت خزانہ خالی ہونے کا شور مچا رہی ہے بلکہ ملک دیولیہ پن تک پہنچ چکا ہے۔ پھر بھی یہ شنید ہے کہ معزز ممبران صاحبان کے لئے اور کچھ اہم سرکاری افسران کے لئے نئی گاڑیاں خریدی جا رہی ہیں۔ یہ پیسہ لئے گئے قرض میں سے ادا کیا جائے گا۔ یہ ہوا نا قرض کا بہترین استعمال۔دلچسپ بات یہ ہے کہ برطانیہ جیسے امیر ملک کے پاس سرکاری استعمال کے لئے صرف83گاڑیاں ہیں لیکن ہمارے صاحب بہادروں کے لئے سبز پلیٹ والی گاڑیاں 90ہزار سے کچھ زیادہ ہی ہیں جن پر صرف پٹرول کا خرچ 22ارب روپے ہے۔اسی طرح ’’مفتے صاحب ‘‘ 5ارب روپے کی بجلی جلاتے ہیں اور یہ سب بوجھ غریب عوام پر ہے۔ عوام کی بھلائی کے لئے۔ اگلا ’’مشکل فیصلہ ‘‘ آئین میں مرضی کی ترامیم کر کے اپوزیشن کو دیوار سے لگا دیا اور بے پناہ حکومتی طاقت حاصل کر لی پھر ایسے ایسے بیانات دینے شروع کر دئیے جن سے عوام کی عقل بھی ماؤف ہو گئی ہے۔حکومتی دعویٰ ہے کہ ہماری دن رات کی محنت سے مہنگائی ختم ہو گئی ہے لیکن کہاں ختم ہوئی ہے یہ صرف انہیں ہی پتہ ہے۔ایک دل جلے نے’’ نیٹ ‘‘پر مہنگائی کے خاتمے کا جائزہ یوںپیش کیا ہے۔’’الحمداللہ پٹرول 149روپے سے کم ہو کر 252روپے لیٹر پر آگیا ہے۔ بجلی کی قیمت 16روپے یونٹ سے کم ہو کر 68روپے یونٹ ہو گئی ہے۔ ڈالر 170روپے سے کم ہو کر 278روپے پر آگیا ہے۔ چینی 70روپے کلو سے کم ہو کر 150روپے کلو پر آگئی ہے۔ دودھ 80روپے لیٹر سے کم ہو کر 200روپے لیٹر پر آگیا ہے یہی حالت باقی چیزوں کی ہے۔ لہٰذا عوام بہت خوش ہیں اور اپنے ہر دلعزیز حکمرانوں کے جان و مال کو جھولیاں اُٹھا اُٹھا کر دعائیں دیتے ہیں۔ ہم نے پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا ہے ( یعنی یہ نیک کام قوم پر مزید قرض بڑھا کر کیا گیا ہے۔)اب عوام جانے اور قرض جانے۔ کتنی خوشی کی بات ہے کہ اتنے ’’مشکل فیصلے ‘‘بھلا کون کر سکتا تھا۔ قوم کا بس چلے تو ان ’’مشکل فیصلوں ‘‘کے لئے ان عظیم سیاستدانوں کو نوبل انعام ملنا چاہیے ۔ اگر اور کچھ نہیں تو کم از کم نشانِ حیدر کا اعزاز تو ضرور ملنا چاہیے۔
جناب عالی! اگر جان کی امان پاؤں تو دست بستہ عرض ہے کہ یہ آپ کی نظر میں تو ’’مشکل فیصلے ‘‘ ہو سکتے ہیں لیکن عوام کی نظر میں ظلم کے مترادف ہیں۔کیا آپ کو معلوم ہے کہ دہشتگردی نے عوام کی کمر توڑ دی ہے۔ بلوچستان اور فاٹا میں حالات روزبروز خانہ جنگی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ دشمن ہماری تباہی (خدانخواستہ) کے لئے نظریں جمائے بیٹھا ہے اور وقت آنے پر وہ ضرور وار کرے گا۔ ہمارے پڑوسی بھی ہم سے خوش نہیں بلکہ ہمارے لئے روزبروز نئے مسائل پیدا کر رہے ہیں۔ کرپشن بڑھ گئی ہے خدا کے فضل سے پاکستان 180ممالک میں 135نمبر پر آگیا ہے۔ رشوت بھی ماشاء اللہ زوروں پر ہے۔ ترقی صرف اشتہارات میں نظر آتی ہے یا مداحوں کی جھوٹی تعریفوں میں۔ اخبارات ترقی اور اعلی کارکردگی بمعہ کچھ اہم شخصیات کے بڑے بڑے فوٹو گرافس سے بھرے ہوتے ہیں۔ شنید ہے کہ ان بلز کا بوجھ بھی غریب عوام ہی برداشت کر رہی ہے۔
اگر آپ واقعی ’’مشکل فیصلہ ‘‘ کرنے کے لئے سنجیدہ ہیں تو آپ قوم کی لوٹی ہوئی دولت واپس لے آئیں۔ قوم کے اُن ہمدرد اور محب ِ وطن پاکستانیوں کو سامنے لائیں جنہوں نے ملک لوٹ کر بیرون ممالک میں اربوں کھربوں کی جائیدادیں بنا لی ہیں اور کسی کوبھی اُن کے اتنی دولت کے ذرائع پوچھنے کی جراء ت نہیں ۔ جنہوں نے ملک کو دیوالیہ کیا ہے غریب عوا م کے منہ سے روٹی کا نوالہ تک چھین لیا ہے۔ انہیں کٹہرے میں لائیں اور اُن کے خلاف کاروائی کریں۔ جن لوگوں نے اربوں روپے کے قرضے معاف کرائے ہیں اُن سے یہ قرضے واپس وصول کریں، دہشتگردوں کو سولیوں پر لٹکائیں افسوس کہ سزا نہ ہونے کی وجہ سے ان کے دل بڑھ گئے ہیں۔ ماضی میں ایسی مثالیں بھی سامنے آئی ہیں جن دہشتگردوں کو فوج نے سزائیں دیںانہیں حکومت نے معاف کر دیا اور عدالتوں سے بھی بری ہو گئے۔اس موقع پر جبکہ قوم مہنگائی اور بے روزگاری کی چکی میں پس رہی ہے، قومی خزانہ خالی ہے، قرضے کے پہاڑ کھڑے ہیں بلکہ حکومت بھی قرضے پر چل رہی ہے۔ اس صورت میں بہت سے لوگوں کو مراعات دینا عوام سے ظلم کے مترادف ہے۔
اگر آپ یہ نیک کام کر گزرتے ہیں تو یقین مانیں قوم آپ کے قدم چومے گی اور آپ تاریخ میں ہمیشہ کے لئے امر ہو جائیں گے۔کسی نے خوب کہا ہے کہ ہمارے لیڈرز پیدا محلوں میں ہوتے ہیں۔تعلیم یورپ میں حاصل کرتے ہیں۔ انہیں معلوم ہی نہیں غربت کیا بلا ہے؟ جو اپنے ملک کا پانی تک نہ پئیںبھلا وہ ہمارے غم گسار کیسے ہو سکتے ہیں؟جو لوگ غربت کو محض کھڑکیوں سے دیکھتے ہیں وہ قطعاً غربت کو دور نہیں کر سکتے۔آپ سے پھر استدعا ہے کہ قوم کے لئے کچھ بہتر فیصلے کریں۔ ہم آپ کے شکر گزار ہونگے۔
٭…٭…٭