گلوبل ویلج
مطلوب احمد وڑائچ
matloobwarraich@yahoo.com
میری زندگی کا زیادہ تر حصہ پاکستان سے باہر گزرا ،خصوصی طور پر یورپ میں اور آج کل کئی سال سے میں کینیڈا میں مقیم ہوں۔ قبل ازیں بھی ملکوں ملکوں گھوما کرتا تھا آج کل ایک بار پھر دنیا کے دورے پر نکلا۔ یہ میرے دورے کا دوسرا فیز تھا، پہلے دورے میں جو چند ماہ قبل کیا تھا وہ یورپی یونین سے وسط ایشیائی ریاستوں کا وزٹ تھا اور حالیہ دنوں سعودی عرب میں عمرے سے میں نے اپنے وزٹ کا آغاز کیا وہاں تک تو میری اہلیہ بدر النساءمیرے ساتھ تھیں، عمرے کے بعد وہ کینیڈا چلی گئیں جب کہ میں نے ملائیشیا سے شروع کر کے اپنے دور کا اختتام بالی میں کیا۔ میں جن ممالک میں گیا ان میں ملائیشیا، لاﺅس، کمبوڈیا، ویتنام ،سنگاپور، ہانگ کانگ، انڈونیشیا ،بالی اور فلپائن شامل تھے۔
ویسے تو سیر و سیاحت کے دوران انسان جس ملک میں جاتا ہے یا جس علاقے میں جاتا ہے وہاں کی آب و ہوا، وہاں کا رہنا سہنا، وہاں کی بلڈنگیں عمارتیں ،تاریخی مقامات سے دلچسپیاں فطری طور پر ہوتی ہیں مگر میرا اس کے ساتھ ساتھ وہاں کے حکومتوں کے نظاموں پر بھی فوکس ہوتا ہے۔میں چونکہ سیاست کا طالب علم ہوں جس میں اگر میں اپنے اتالیق کی بات کروں تو سب سے پہلے بے نظیر بھٹوآتی ہیں۔ آصف علی زرداری کی سیاست سے میرے اختلافات رہے ہیں۔ان کی شخصیت اور کردار کے حوالے سے بھی ہو سکتا ہے کہ میرے کچھ تحفظات ہوں۔مگر مجھے یہ بھی اعتراف کرنا ہے کہ آصف علی زرداری کے ساتھ میری کبھی گہری دوستی ہوا کرتی تھی، جیل ہم نے ایک ساتھ گزاری۔اس دوران میں نے آصف علی زرداری سے بھی سیاسی امور میں بہت کچھ سیکھا۔
ایک ملک سے دوسرے سے تیسرے میں موجودگی کے دوران میری وہاں کی سیاست پر گہری نظر رہی۔ جو میں نے آپ کو ملک شمار کروائے ہیں ان میں سے چند ایک کے علاوہ یہ چند ایک بھی دو یا تین سے زیادہ نہیں ہیں ان میں تو جمہوریت کسی حد تک موجود ہے مگر اکثر ممالک میں وہ جمہوری نظام نہیں ہے جس کو ہم اصل جمہوریت کہہ سکیں۔ویسے تو پاکستان میں بھی جمہوریت اپنی روح کے مطابق موجود نہیں رہی البتہ جیسا تیسا ہے پاکستان میں کچھ عرصے کے لیے جمہوری نظام ضرور رہا ہے۔جن ممالک کی میں بات کر رہا ہوں وہاں پہ دو تین ممالک کے علاوہ سب میں ان کا اپنا نظام ہے جو ان کو وارہ کھاتا ہے ،کہیں بادشاہت ہے، کہیں ملوکیت ہے، کہیں کیمونزم ہے۔ان ممالک میں میں نے ایک قدر مشترک دیکھی ہے۔نہ صرف ان ممالک میں بلکہ کئی وسط ایشیائی اور یورپی ممالک میں بھی وہاں پہ جو بھی سسٹم ہے لیکن سارے کے سارے ممالک آپ اپنے معاملات میں خود کفیل ہیں۔ ان کا شمار ایک دو کے علاوہ امیر ممالک میں ہوتا ہے۔ہر ملک کو ترقی یافتہ ہی پایا گیا ہے۔ملکوں کی ترقی اور خوشحالی جمہوریت سے وابستہ نہیں ہے۔بلکہ کسی بھی ملک میں وہ ہی نظام کامیابی سے چل سکتا ہے جو لوگوں کے مزاج کے مطابق ہو۔
برطانیہ کو دنیا کی بڑی جمہوریتوں میں شمار کیا جاتا ہے مگر یہاں بھی بادشاہت موجود ہے۔سعودی عرب کی بادشاہت کی بات کریں تو اس ملک کو غیر جمہوری قرار دیا جاتا ہے مگر برطانیہ کی بادشاہت کو جمہوری سمجھا جاتا ہے۔ان کو بھی دہرا معیار ہی کہا جا سکتا ہے۔جیسا کہ عرض کیا کہ نظام وہی کامیاب ہے جو وہاں کے عوام کے مزاج کے مطابق ہو۔عرب ممالک میں دیکھا گیا ہے کہ جمہوریت کم ہی ہے مگر وہاں کے عوام وہ اپنے اپنے مروجہ نظاموں میں خوش بھی ہے، خوشحال بھی ہیں۔ایک گھر شہر سے کئی سو کلومیٹر دور پہاڑ پر ہے یا صحرا میں ہے حکومت کی طرف سے وہاں پر بجلی، گیس، سڑک اور انٹرنیٹ پہنچا دیا گیا ہے، بجلی کی قیمت نہ ہونے کے برابر ہے۔باقی بھی زندگی کی جو بھی سہولت ہے اس گھر کو میسر ہے، شہروں کی بات کی جائے تو اس سے کہیں زیادہ شہریوں کو سہولتیں ہیں۔وہ اپنے ملک ہی نہیں بلکہ دنیا کے کسی بھی ملک میں بڑی آسانی سے جا سکتے ہیں ،آ سکتے ہیں۔اس حوالے سے بھی حکومت اپنے شہریوں کی سپورٹ کرتی ہے۔یہ بتانے کی تو ضرورت نہیں کہ ان ممالک میں تعلیم اور صحت کی سہولتیں نہ صرف گھر کے قریب دستیاب ہیں بلکہ بالکل فری بھی ہیں۔
جب ہم پاکستان کی بات کرتے ہیں تو اب تک یہ طے نہیں ہو سکا کہ ہمارے ہاں کون سا نظام سود مند ہو سکتا ہے۔پاکستان میں 45 سال تو کسی نہ کسی صورت میں اسٹیبلشمنٹ مقتدر رہی ہے۔مسلمان ہونے کے ناطے مغربی جمہوریت کا ہمارے ساتھ کچھ لگا نہیں کھاتا۔دنیا میں کوئی بھی ایک مسلمان ملک نہیں ہے جہاں پہ مغربی طرز کی جمہوریت کامیابی سے رائج ہو۔ملائیشیا بڑا ترقی یافتہ ملک ہے وہاں بھی بادشاہت ہے۔ترکی کی مثال دی جا سکتی ہے وہاں پہ جمہوریت بلا شبہ موجود ہے لیکن کب سے ذرا دہائیوں کی بات کریں تو تھوڑا سا عرصہ ہی وہاں پہ جمہوریت کی کار فرمائی نظر آتی ہے۔پاکستان میں ہم ابھی تک اپنی منزل کا تعین ہی نہیں کر سکے۔کبھی یہاں پہ صدارتی نظام کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔کبھی آمریت سر چڑھ کر بولنے لگتی ہے۔پھر کچھ عرصے کے لیے وہ جمہوریت آتی ہے جو آج کل رائج ہے۔وہ بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ کتنی زیادہ خالص جمہوریت ہے۔یہ جمہوریت ہمارے مزاج کا حصہ نہیں بن سکی۔ہمارے بھی کیا جمہوری انداز ہیں ،ایک پارٹی اقتدار میں آتی ہے تو جانے والی پارٹی کو انتقام کا نشانہ بنانا شروع کر دیتی ہے۔اور پھر عدالتوں میں جو کچھ ہوتا ہے وہ بھی سامنے ہے۔جب کسی کو سزا دینے پہ آ جائیں تو وزیراعظم کو گھر بھجوا دیا جاتا ہے۔نااہل بھی قرار دے دیا جاتا ہے۔وزیراعظم کو پھانسی کے تختے تک پہنچا دیا جاتا ہے۔اور پھر یہ بھی ہماری عدلیہ میں کرشمہ ہوتا ہے کہ دی گئی ساری سزائیں معاف کر دی جاتی ہیں۔حتی کہ جس وزیراعظم کو بے جا طور پر پھانسی کی سزا سنا کر پھانسی کے پھندے سے لٹکا بھی دیا گیا۔اس کے کیس کی سماعت کو بھی غیر شفاف قرار دے دیا جاتا ہے۔اگر سارا کچھ انصاف، قانون، آئین کے دائرہ کار کے اندر ہو رہا ہو تو فیصلے بدلنے کی ضرورت پیش نہ آئے۔
میں نے تقریباً پوری نہیں تو تین چوتھائی دنیا دیکھ رکھی ہے۔ میں نے یہ دیکھا کہ کینیڈا فن لینڈ اور سائبیریا میں سردی اتنے غضب کی پڑتی ہے کہ وہاں پہ آپ تربوز کاشت نہیں کر سکتے کیونکہ یہ ان ممالک کے موسمی مزاج کا حصہ نہیں ہے۔پنجاب میں چیری نہیں بیجی جا سکتی۔ یہی عوام کا بھی مزاج ہے۔عوام کے مزاج کے مطابق ہی آپ کا نظام ہو تو وہی کامیابی سے چل سکتا ہے۔