دہشت گردی سے پاک اور امن و امان کے قیام کے لحاظ سے مثالی معاشرے آج معاشی ترقی کے میدان میں پوری دنیا پر حکمرانی کر رہے ہیں۔ معاشی ترقی اور امن و امان کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ کوئی بھی ایسا ملک جو جتنی مرضی قدرتی وسائل سے مالا مال کیوں نہ ہو جب تک امن قائم نہیں ہو گا معاشی ترقی کا خواب پورا نہیں ہو سکتا ۔ وطن عزیز میں جاری دہشت گردی کی لہر کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو چکی ہے کہ منظم سازش کے تحت ان علاقوں کو چن چن کر ٹارگٹ کیا جاتا ہے جہاں غیر ملکی سرمایہ کاری کے ذریعے ملکی معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کیلئے حکومتی سطح پر کوشش کی جاتی ہے۔ اس میں زیر زمین معدنیات سے لے کر سی پیک کے منصوبے شامل ہیں اس وقت بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں بی ایل اے اور ٹی ٹی پی کا گٹھ جوڑ غیر ملکی سرمایہ کاری کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے دہشت گردوں کا مقصد بم دھماکوں اور تخریبی کاروائیوں کے ذریعے سے ایسا ماحول پیدا کرنا کہ بین الاقوامی سرمایہ کاری کے تمام راستے بند ہو جائیں اس مقصد کے لیے یہ کسی بھی حد کو جانے کے لیے تیار ہے۔ دہشت گرد اسلام کا نام استعمال کر کے لوگوں کو بے وقوف بناتے ہیں یہ لوگ اسلام کے نام پر بدنما داغ ہے یہاں تک کہ دہشت گردی کے ناپاک کام کے لیے مساجد کے تقدس اور احترام کو بھی پامال کرنے کو کوئی عار نہیں سمجھتے۔مسجدیں مسلمانوں کے لیے عبادت، تعلیم , ا تحاد، امن اور روحانیت کی علامت ہیں ۔ مساجد کے احترام اور تقدس کے بارے میں سورہ حج کی آیت نمبر 25 میں اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں وہ لوگ جو کافر ہیں اور (لوگوں کو) خدا کے راستے سے اور مسجد محترم سے جسے ہم نے لوگوں کے لیے یکساں (عبادت گاہ) بنایا ہے روکتے ہیں خواہ وہ وہاں رہنے والے ہوں یا باہر سے انے والے اور جو اس میں شرارت سے گنج ردی (و کفر) کرنا چاہتے ہیں اس کو ہم درد دینے والے عذاب کا مزہ چکھائیں گے ہمارا مذہب اپنے ماننے والوں کو امن و اتشی کا کا درس دیتا ہے لیکن بدقسمتی سے یہ جنگجو اسے سازش اور خوف کی جگہ میں تبدیل کرنے میں لگے ہوئے ہیں دہشت گرد اسلام کا لبادہ اوڑھ کر اللہ کے گھر کو شرپسند کارروائیوں کے لیے استعمال کرتے ہیں، جو کہ معاشرتی امن کے لیے خطرہ ہے۔ دہشت گرد دین کی غلط تشریح کرتے ہیں اور لوگوں کو اپنے نظریات کی طرف مائل کرتے ہیں۔ مساجد کا احترام کرنے کے بجائے، خوارج انہیں کمانڈ سینٹرز اور پناہ گاہوں کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ ان سرگرمیوں کے دوران خوارج نمازیوں کو مساجد میں داخل ہونے سے روکتے ہیں۔ یہ مساجد اسلام کی حرمت کی براہ راست توہین ہے۔ خوارج مذہبب کو ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور اسلامی اصولوں کا کوئی احترام نہیں کرتے۔ وہ اسلامی اقدار کو عمل کرنے کے لیے نہیں بلکہ بقا کے لیے ان میں ہیرا پھیری کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ بزدلی ہے، جہاد نہیں۔ خوارج ایک سیاہ داغ ہیں جو اپنے گھناؤنے اعمال سے اسلام کی شبیہ کو داغدار کرتے ہیں۔یہ جانتے ہوئے کہ پاکستان آرمی اور ریاستی ادارے مذہبی تقدس کا احترام کرتے ہیں، یہ عسکریت پسند اس احترام کو ایک ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہیں? مقامی لوگوں کو اس سلسلے میں اگے انا چاہیے اور جن علاقوں میں مساجد کی حرمت اور تقدس کو یہ دہشت گرد پامال کرتے ہیں وہاں ان کے خلاف متحدہ محاذ بنائیں? علماء کو فتوے کے ذریعے ان غیر اسلامی اعمال کو بے نقاب کرنا چاہیے۔ بعض اوقات، یہ خوارج سیکیورٹی فورسز کے اپریشن کے دوران مساجد میں پناہ لیتے ہیں اور بعد میں سکیورٹی فورسز کے خلاف مسجد کی حرمت کا احترام نہ کرنے کا پروپگنڈا کرتے ہیں۔ خوارج لعنت ہیں اور اور وطن عزیز کی بہادر افواج عوام کے بھرپور تعاون سے اس فتنے کو ختم کر دم لیں گے ۔اس صورتحال میں سب سے بڑی ذمہ داری علماء اور سیاسی لیڈروں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ عوام کے سامنے دہشت گردوں کے مکروہ چہرے سے پردہ اٹھائیں ک اسلام کے نام کو کس طریقے سے اپنی منفی سرگرمیوں کے لیے استعمال کرتے ہیں?دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سیکیورٹی ادارے بے پناہ قربانیاں دی ہیں اور بڑی بہادری سے دہشت گردی کے چیلنجز کا سامنا کررہے ہیں لیکن اس ناسور کا مقابلہ صرف فوجی اپریشن کے ذریعے ممکن نہیں ہے اس جنگ میں ریاست پاکستان کے تمام اداروں کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اگر ہر ادارہ اور اس کا ہر فرد اج سے اس بات کا تحیہ کر لیں کہ جس کردار کی ان کو ذمہ داری سونپی گئی ہے وہ اس کو خلوص نیت سے اور جذبے کے ساتھ سرانجام دیں تو وہ دن دور نہیں جب دہشت گردی کے ناسور سے پاک معاشرے کا ہمارا خواب حقیقت بن سکے۔