23 مارچ 1940 ء￿  منانے کی ضرورت کیوںہے؟

صدائے علی…ذوالفقار علی
 zulfiqar686@yahoo.com  

22 سے 24 مارچ 1940 ء کو متحدہ ہندوستان میں لاہور میں منٹو پارک میں آل انڈیا مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس منعقد ہوا۔اس اجتماع میں ہندوستان کے مسلم صوبوں سے ہزاروں مسلمانوں ،سیاسی کارکنوں اور مسلمانوں کے سرکردہ قد آور نامی گرامی قائدین اور رہنمائوں نے شرکت کی۔اس جلسے میں اندازے کے مطابق شرکاء￿  / حاضرین کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ تھی۔23 مارچ 1940 ء  کو بنگال کے مولوی فضل الحق نے قرار داد لاہور پیش کی۔جس کی تائید متحدہ ہندوستان کی ریاست اْتر پردیش سے چوھدری خلیق الزمان ،سید ذاکر علی ،بیگم مولانا محمد علی جوھر،مولانا عبدالحامد بدایونی ریاست بہار سے جناب محمد اسمٰعیل خان بمبئی سے آئی آئی چنددیگر ،صوبہ سندھ سے جناب عبداللہ ہارون ،بلوچستان سے قاضی محمد عیسٰی خان ،صوبہ سرحد سے (موجودہ خیبر پختونخواہ) سے سردار اورنگزیب خان اور پنجاب سے مولانا ظفر علی خان اور ڈاکٹر محمد عالم نے کی۔یہ قرار داد 23 مارچ 1940 ء کو پاس کی گئی۔جس میں مسلمانوں کے مطالبات کو ان الفاظ میں پیش کیا گیا۔اس ملک میں کوئی ایسا آئینی منصوبہ مسلمانوں کے لئے قابل قبول نہیں ہوگا۔جو اْصولوں سے ھٹ کر ہو۔اور جغرافیائی اعتبار سے متصلہ وحدتوں میں ضروری ردوبدل کرکے انہیں ایسابنا دیا جائے۔کہ وہ علاقے ،صوبے،اور ریاستیں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہو،جیسے متحدہ ھندوستان کے شمال مغربی اور مشرقی حصے میں ہے۔یکجا ہوکر یہی آزاد مملکتیں بن جائیں۔جن کی آئینی وحدتیں ( Units  Constitutional) با اختیار اور خود مختار ہوں۔قرارداد لاہور پاس ہونے پر پاکستان مخالف لوگوں نے اس کی مخالفت شروع کی۔اور اس سکیم کو ناقابل عمل قرار دیا۔ہندو اخبارات نے اسے قرار داد پاکستان کا نام دیا۔مسٹر جناب محمد علی جناح (قائد اعظم)اور مسلم لیگ نے اسی نام کو اختیار کیا۔قرارداد لاہور پاس ہونے کے بعد جناح نے مسلمانوں کو متفقہ نکات پر متحد کرنے کی کوشش کی۔پاکستان کے قیام کے لئے محمد علی جناح نے ھندوستان کے مختلف علاقوں کا دورہ کیا۔اور عوام کو مسلم لیگ کا پیغام پہنچایا۔قیام پاکستان کے لئے نظریاتی راہ ہموار کی۔اور مسلمانوں کو انڈین نیشنل کانگریس کے مغاندانہ پالیسیوں سے آگاہ کیا۔جو قیام پاکستان کی راہ میںحائل رکاوٹیں تھیں۔مسلم لیگ کے قد آور شخصیات اور فی نفسیہ مسٹر جناح نے غیر مسلم لیگی مسلمان رہنمائوں کی اخلاقی ،سیاسی حمایت حاصل کرنے کی بھر پور کوشش کی۔جس کے نتیجے میں علماء  دیوبند کے اہم گروپ نے مولانا شبیر احمد عثمانی کی سرکردگی میں محمد علی جناح اور مسلم لیگ کا ساتھ دیا۔23 مارچ 1940 ء کے قرار داد لاہور میں ایک لاکھ سے زائد مسلمانوں کی شرکت اور مطالبہ پاکستان کی حمایت اور اس جلسے میں سرکردہ قد آور مسلم لیگی قائدین کی قیادت اور نمائندگی سے ظاہر ہوتا ہے۔کہ کن قد آور بالغ نظر ،بااثر ،دور اندیش سیاسی شخصیات اور قائدین نے کیوں پاکستان کے قیام یعنی متحدہ ھندوستان کے مسلمانوں کے لئے علٰحدہ ملک کے قیام کا آئینی ،سیاسی ،قانونی مطالبہ کیا۔اور اس کی کتنی ،کیوں،کیسے ،آئینی ،سیاسی ،قانونی،اہمیت ہے۔اس سے کانگریس اور پاکستان مخالف اور مضبوط بڑی سیاسی بارسوخ جماعت دعوئوں کیقلعی کھل جاتی ہے۔1940 ء کا تاریخی جلسہ اور پاکستان کے قیام کا مطالبہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے۔جہاں عوام کی بڑی اکثریت کے ایک لاکھ سے زائد مجمع ،جلسے میں بااثر ،دور اندیش ،سمجھدار ،سیاسی قائدین اور رہنمائوں کی موجودگی میں ایک مطالبہ ،قرار داد پیش کریں۔تو اس کو مضبوط ،آئینی ،سیاسی ،قانونی،اخلاقی حیثیت مل جاتی ہے۔اور اس پر عمل درآمد ہر صورت میں لازم ناگزیر ہوجاتا ہے۔بااثر،مضبوط ،دور اندیش ،بالغ نظر سیاسی قائدین رہنمائووں کی قیادت ،رہنمائی اور موجودگی میں ایک لاکھ سے زائد مسلمانوں کا پاکستان کے حق میں قرارداد اور مطالبہ پیش اور پاس کرنا بر صغیر کی سیاسی تاریخ کاایک غیر معمولی  واقعہ ہے۔اس سے قیام پاکستان اور مسلم لیگ کے علٰحدہ مملکت کو نظریے کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔کہ پاکستان کا قیام کیوں ناگزیر تھا۔اٹھارویں صدی میں بر صغیر کے عظیم مسلم قائد ،رہنما ، مبلغ ،سکالر،مصلح اور تعلیمی انقلاب کے بانی سرسید احمد خان نے ہندوئوں اور کانگریس کے مغاندانہ سیاسی طرز فکر ،سوچ اور مسلم مخالف نظریے کے پیشِ نظر اس خطرے کی احتمال کو بھانپ لیا تھا۔کہ بر صغیر میں ایک نہیںدو قومیں یعنی ہندو اور مسلمان بستے ہیں۔بعد میں محمد علی جناح نے سرسید احمد کی دیکھا دیکھی اور تقلید میں دوقومی نظریہ پیش کیا۔اور سر سید احمد خان ہندو مخالف نظریات اور دو قومی نظریے نے نظریہ پاکستان ،دو قومی نظریے نے قرار داد لاہور اور مطالبہ پاکستان کی راہ ہموار کی۔علٰحدہ ملک کے بدون بر صغیر کے مسلمان اور ہماری نسل نو،سیاسی ،معاشی ، سماجی ،تعلیمی فروغ ،ارتقائی ڈھانچہ شکل،اور وجود جنداں ممکن نہیں تھا۔پاکستان کے قیام نے مسلمانوں کے سیاسی ،معاشی،تعلیمی ،سماجی بہبود ،ترقی اور استحکام کی منزل آسان اور ممکن بنا دی۔1857 ء کی جنگ آزادی میں مسلمانوں کی انگریزوں کے خلاف شدید مزاحمت او رناکامی نے مسلمان رہنماوئوں نے ،علی گڑھ ،دیو بند ،ندوہ العلماء جیسے اداروں کے قیام کی صورت میں مسلمانوں کی رہنمائی کی۔ان کے سامنے ایک واضح نصب العین اور لائحہ عمل اْجاگر کیا۔اور مسلمانوں کے روشن مستقبل کے راستے کھول دیے۔بر صغیر میں مسلمان مسلم لیگی رہنمااور اسلاف ،خلوص نیت ،کے عملی پیکر تھے۔جن میں مسلمانوں کے بے لوث ، خدمت ،قیادت کا جذبہ کھوٹ کھوٹ کا بھرا ہوا تھا۔حسرت موھانی ، مولانا محمد علی جوھر ،مولانا شوکت علی،مولانا ظفر علی خان،سردار عبدالرب نشتر ،سر عبداللہ، ہارون اور سینکڑوں آزادی کے ہیرو نے پاکستان کے قیام کی شمع اپنے لہو سے روشن کی۔23 مارچ کو یوم پاکستان منانے کا مقصد یہی ہے۔کہ نسل نو کو یہ پیغام دیا جائے۔کہ 23 مارچ منانے کی تاریخی حقیقت اور اہمیت کیوں اور کیا ہے۔23 مارچ کے دن افواج پاکستان کے مارچ پاس اور پاک فضائیہ کی فضائی مہارتوں کے مظاہروں کامقصد دنیا کو یہ پیغام پہنچانا ہے۔کہ آزادی اور علٰحدہ ملک کی حیثیت ہم نے اپنی انفرادی ،قومی تشخص بنا کر اپنی معاشی ،سیاسی ،تعلیمی ،عسکری ،بالادستی حاصل کرکے اپنی پہچان بنا کر اپنے آپ کو منوا کر دنیا پر یہ ثابت کرنا تھا۔کہ آزاد ہو کر ہم اپنی طاقت منوا سکتے ہیں۔اور آزاد خود مختار ملک کی حیثیت سے ہم نے اپنا اسلامی آئین بنایا۔یہ الگ بات ہے کہ بے حس حکمرانوں نے ملک کو معاشی غلام بنایا۔آزاد ملک کی حیثیت سے ہم اپنی مذہبی ،ثقافتی۔رسومات ،عبادات کی پرچار اور مشق کرتے ہیں۔جو کہ متحدہ ہندوستان میں ہم اس طرح نہیں کرسکتے تھے۔اس لئے ہمارے اسلاف خاصکر آل انڈیا مسلم لیگ کے بزرگوں ،قائدین کا قیام پاکستان کے منزل کے لئے سیاسی جدوجہد ،اور قربانیاں بے مقصد قطعًا نہیں تھیں۔بفضل خدا ہمارا بہتر اسلامی دستور موجود ہے۔جو کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔اگر بے حس پارلیمان اس پر عمل درآمد نہیں کرتی۔تو یہ ہمارے حکمرانوں کی نالائقی ہے۔علٰحدہ ملک حاصل کرکے ھم آزادی ،اور آسای سے کسی خوف وہراس کے ماحول کے بدون ،اپنی ثقافتی ،تفریحی سرگرمیوں کی مشق کرکے دینی جسمانی تسکین اور نشونما حاصل کرتے ہیں۔اور آزاد فضاوئوں میں پنج گانہ عبادت کی ادائیگی کیساتھ اپنے نسل نو کو اسلامی تعلیمات اور شعائر کی اشاعت سے روشناس کرتے ہیں۔یہی آزادی کا اصل مقصد تھا۔23 مارچ1940 ء  کے ثمرات اسی سرگرمیوں کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہیں۔جس کا مطالبہ ،اور قرار داد ہمارے عظیم اسلاف نے کیا تھا۔عصر حاضر میں بھارت میں اقلیتوں پر بے تحاشہ مظالم کی ہوشربا داستانیں ،خبریں ،پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی زینت بنے اور روز کا معمول ہیں۔23 مارچ 1940 ء  کے قرارداد پاکستان کے مطالبے کی اکثریتی تائید وحمایت نے متحدہ ہندوستان کے مظلوم ،مجبور ،کمزور اور پسے ہوئے مسلمانوں کو آزاد ،خود مختار ملک کے قیام کی اْمید دلائی۔اور انہیں عزم،حوصلہ ،استقامت عطا فرمایا!!

ای پیپر دی نیشن