پاکستان میں سیاست کے مستقبل کو دیکھا جائے تو یہ بات واضح سمجھ آتی ہے کہ مستقبل میں وہی قیادت ملک کی بھاگ دوڑ سنبھال سکتی ہے جو نوجوان نسل کو ساتھ لیکر چلے گی کیونکہ ملکی آبادی کا 50 سے 62 فیصد حصہ نوجوانوں پرمشتمل ہیں۔ ملک ترقی کے نظریے کو دیکھا جائے تو یہ بات اس تناظر میں بالکل صحیح بیٹھتی ہے کیونکہ گزشتہ پانچ سے سات برسوں میںنوجوانوں کی سیاست میں دلچسپی بہت زیادہ بڑھی ہے اور ملک کی سیاسی جماعتوں کے مشور اور حکومتوں کی کارکردگی کا موازنہ بھی کیا جاتا ہے ۔پاکستان میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے بعد ڈیجیٹل میڈیا تیزی سے بڑھ رہا ہے اور سیاسی جماعتوں کی کارکردگی اور حکومت کی پالیسیوں کا موازنہ چند لمحوں کے بعد شروع ہو جاتا ہے ۔ ملک کی ترقی کی امید اور نوجوانوں کے مستقبل پر بات کی جائے تو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ ملک کی یوتھ ایسی صاف ستھری نوجوان قیادت پر اعتماد کرے گی ،جن پر کرپشن کے الزامات نہ ہوں ،وہ خود بھی نوجوان ہوں اور ملک کی قسمت کے فیصلے غیر جانبداری سے کرنا جانتے ہوں ان پر نوجوان نسل آگے چل کراعتماد کرے گی ۔پاکستان کی سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی واحد سیاسی جماعت ہے جس میں بلاول بھٹو زرداری اور آصفہ بھٹو زرداری وہ سیاسی شخصیات ہیں جن پر کرپشن کے کوئی الزامات نہیں ہیں ،اور دونوں ملکی سیاست کے اتار چڑھائو کو بخوبی سمجھتے ہوئے آئندہ کیلئے سیاست میں نوجوانوں کی امیدِ فردا ہیں ۔بلاول بھٹو زرداری کی بات کریں تو بلاول بھٹو اکیس ستمبر 1988کو پیدا ہوئے اور دوہزار سات میں انہوں نے محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے بعد 2007 میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چئیرمین بنے ،انہوں نے لاڑکانہ سے قومی اسمبلی کا پہلی بار دوہزار اٹھارہ میں انتخاب لڑا جس میں وہ این اے 200 سے منتخب ہوکر قومی اسمبلی کے ممبر بنے ۔پی ڈی ایم کی حکومت میں پاکستان کے 37ویں وزیر خارجہ کی حیثیت سے27 اپریل 2022 سے 10 اگست 2023 تک ذمہ داریاں انجام دیں۔اس عرصے میں انہوں نے بین الاقوامی سطح پر بہترین وزیر خارجہ اپنے آپ کو منوایا ۔بلاول بھٹو زرداری گزشتہ بارہ برس میں پہلے وزیر خارجہ تھے جو بھارت کے شہرگوا ایس سی او کانفرنس کیلئے گئے ۔وہ جرمنی ،ڈنمارک ،سویڈن اور ناروے کی حکومتوں کے مہمان بنے اور کامیاب دورے کئے ،اپنی وزارت میں وہ روس،جاپان ،سنگاپور ،ایران ،اردن ،یو اے ای جیسے ممالک میں بہترین خارجہ امور کے فرائض انجام دئے ،بلاول بھٹو زرداری امریکہ کی دعوت پروہاں تشریف لے کر گئے ۔غرضیکہ انہوں نے پاکستان کے ان ممالک سے بہترین سفارتی تعلقات بحال کئے انہوں نے پاکستان کا کیس ہر جگہ بہترین انداز سے لڑا ،انہوں نے ثابت کیا کہ ان کے خون میں ان کے نانا ذوالفقار علی بھٹو شہید،اپنی والدہ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے ملک سے وفاداری کی جھلک نظر آتی ہے ،اور ان کے والد صدر مملکت آصف علی زرداری نے ان کی تربیت ایسے کی ہے کہ مشکل حالات میںصحیح فیصلے کیسے لئے جاتے ہیں یہ درس انہوں نے اپنے والد محترم آصف علی زرداری سے سیکھا ہے اسی وجہ سے وہ اٹھارویں ترمیم میں بات کرتے ہیں کہ اگر فیڈریشن کو مضبوط کرنا ہے تو اس کی اکائیوں (صوبوں) کو مضبوط کرنا ہوگا ،انہوں نے مخالفین کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنے کا فن اپنے والد سے سیکھا ہے اسی وجہ سے چھبیسویں(26)ترمیم کی منظوری کی مشکلات بڑھیں تو بلاول بھٹو زرداری کا کردار اس میںسب سے اہم تھا اور وزیراعظم شہباز شریف ،مولانا فضل الرحمان کو بھی بلاول کی قومی خدمات کو تسلیم کرنا پڑا،ملک میں آزادی اظہار کی بات ہو،خواتین کے حقوق کی بات کا مسئلہ ہو،سول رائٹس کی بات ہویا ملک میں ماحولیاتی تبدیلیاں یا معاشی مسائل بلاول بھٹو ہر جگہ بات کرتے اور ملک کو سپورٹ کرتے نظر آتے ہیں ۔بلاول بھٹو اور آصفہ رزادری میں وہ تمام خوبیاں ہیں جو آج کا نوجوان ایک نئی نسل کے لیڈر میں دیکھنا چاہتا ہے کیونکہ بلاول ایک کامیاب ڈپلومیٹ ،دلیرانہ اندازکی سیاسی شخصیت،وفاق کو مضبوط کرنے ،معاشی مسائل کے حل کے لئے روڈ میپ دینے اور سیاسی جماعتوں کے درمیان ہم آہنگی پیداکرنے والی شخصیت ہیںاس وقت وہ واحد سیاسی شخص ہیں جن کے خلاف کرپشن کا نہ تو کوئی کیس ہے اور نہ ہی ان پر کوئی الزامات ہیں اور سب سے بڑھ کر وہ نوجوان نسل جو ملک کے ساتھ آگے بڑھنا اور چلنا چاہتی ہے ان کے نمائندے ہیں اور جو نوجوان نسل سوچ سکتی ہے یہ وہ وہاں خود کو رکھ کر سوچ سکتے ہیں اور اس خاندان اور اس کے چہرے کو کسی تعارف کی ضرورت نہیں کیونکہ ان کے خاندان کی ملک کے ساتھ وفاداریاں کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے اورملک پاکستان کے لئے سب سے زیادہ قربانیاں بھی بھٹو خاندان کی ہیں۔اس لئے مستقبل کی سیاست اور بھاگ دوڑ بلاول بھٹو زرداری جیسے نوجوان نسل کے ہاتھ میں آئے گی تو ملک کا معاشی سفر جدید دنیا کے ساتھ ہم آہنگ ہو سکے گا اور جدید دنیا کا تقاضہ بھی یہی ہے۔