ایک زمانہ تھا جب رابطے محدود تھے اور صرف رابطوں کا ایک ہی ذریعہ خط تھا ، جسے اردو ادب میں ’’ نامہ ‘‘ بھی کہا جا تا ہے ،تاریخ میں معروف ادیبوں ، دانشوروں ،مفکروں شاعروں کے خطوط کا تذکرہ ملتا ہے ، بعض خطوط نے بہت شہرت پائی اور بعض کو تعلیمی نصاب میں بھی شامل کیا گیا ، عصر حاضر میں پیغام رسانی کا ذریعہ اسقدر تیز رفتار اور محفوظ ہے کہ ادھر آپ نے پیغام بھیجا ادھر پلک جھپکتے موصول ہو جاتا ہے ، پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ عمران خان کا لکھا مبہم خط جس پتے پر بھیجا گیا وہاں نہ پہنچتا، جدید دور کی ای میل ٹیکنالوجی کے ذریعے غلط پتے پر بھیجی گئی ای میل کا فوراً جواب مل جاتا ہے، ہمیں یہ پتہ ہے کہ عمران خان تعلیم یافتہ ہیں ، لیکن خط کے لفافے کے لئے پتے کی بھی ضرورت ہوتی ہے ، ان کے پہلے خط کی کسی طرف سے تصدیق نہیں ہوئی ، نہ ہی جیل حکام کی طرف سے اور نہ ہی سیکورٹی ادارے نے تسلیم کیا۔ عمران خان کے خط لکھنے کا مقصد یہی ظاہر ہوتاہے کہ انتہائی گہری منصوبہ بندی سے پہلے رائے عامہ ہموار کی جائے، پھر کھلا خط لکھ کر کارکنان میں نفرتیں ابھارا کر اپنے لئے ہمدردیاں حاصل کی جائیں۔
دوسرا شائد ان کے دل میں خدشات ہوں گے کہ یہ خط کہیں کسی کے ہاتھ نہ لگ جائے اور نہ جانے کیا داستان بن جائے، داستان این آر او ہی ہے ، اور عمران خان یہ طعنہ سننے کی سکت ہی نہیں رکھتے ،وہ چاہتے ہیں کہ این آر او بھی مل جائے اور کسی کو کانوں کان خبر بھی نہ ہو، اس لئے خط کو بغیر عنوان اور بغیر پیغام لکھے ہی کبوتر کے حوالے کر دیا ، بالکل ایسے ہی۔
آج کا خط بھی اسے بھیجا ہے کور ا لیکن
آج کا خط بھی ادھورا نہیں لکھا میں نے
اس لئے میں اسے مبہم کہتا ہوں ، لہذا یہ خطوط مبہم بھی ہیں اور ذاتی تشہیر کی عکاسی بھی کرتے ہیں ، جب خط ہی کورا تھا تو اس پر واویلا مچانا بھی بے معنی ہے، ایسا نامہ جسے بھی ملے گا وہ تو یہی کہے گا کہ
اجی پھینکو رقیب کا نامہ
نہ عبارت بھلی نہ اچھا خط
لہذا دوسرا کھلاخط لکھ کر پہلے خط کی حقیقت ظاہر کردی کہ واقعی پہلا خط کورا تھا ، دوسرے کھلے خط کا متن ظاہر کرتا ہے کہ مجوزہ پارٹی کی ساکھ کو کارکنان میں برقرار رکھا جائے اور جسقدر ممکن ہو مصائب بیان کر کے ہمدردیاں سمیٹی جائیں ، اور یہ باور کرایا جائے کہ جیل کے مصائب سہنے کے باوجود حوصلے پست نہیں ہوئے جب کہ حقیقت اسکے بر عکس ہے۔ کیمبرج ڈکشنری کے مطابق کھلے خط سے مراد یہی ہوتی ہے کہ اسے زیادہ سے زیادہ لوگ پڑھیں ،نہ کہ صرف وہ شخص جسے مخاطب کیا گیا ہو۔ تحریک انصاف کے رہنمائوں اور وکلاء کے مطابق عمران خان نے آرمی چیف کے نام تین خطوط لکھے ، پہلا 3 فروری، دوسرا 8 فروری اور تیسرا 13فروری کولکھا تھا ، آرمی چیف کا کہنا ہے کہ عمران خان کی طرف سے مجھے کوئی خط نہیں ملا ، یہ خط ’’ میڈیاآ پٹکس ‘‘ ہیں ، ان کا کوئی مقصد نہیں ہوتا ، یہ صرف توجہ حاصل کرنے کے لئے لکھے جاتے ہیں۔
عمران خان با قاعدہ منصوبہ بندی سے اپنے کارکنوں اور عوام کو دھوکہ دے رہے ہیں کہ میں نے آرمی چیف کو خط لکھے ہیں جب کہ یہ سارے خطوط ’’ میڈیا آپٹکس ‘‘ کے زمرے میں آتے ہیں۔ آرمی چیف کا کہنا کہ مجھے کوئی خط نہیں ملا، ایک مسلمہ حقیقت ہے کیونکہ خط جس شخص یا ادارے کے نام ہو جو وصول کنندہ ہوتا ہے ، اس کا نام اور مکمل پتہ درج ہو تو پھر یہ دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ خط لکھا اور بھیجا تھا ، لیکن میڈیا آپٹکس خطوط کی حیثیت ذاتی تشہیر کے سوا کچھ نہیں ہوتی۔ یہ پہلو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ عمران خان کے یہ خطوط ایک طرف فوج کو مخاطب کر رہے ہیں ، لیکن دوسری طرف ان کے سیاسی بیانیہ کا حصہ بھی بن رہے ہیں ، ایسے مواقع پر دوہرے معیار کے سیاسی رہنما اپنی ساکھ کو برقرار رکھنے اور کارکنوں کو متحرک رکھنے کے لئے عوامی ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
سر دست پی ٹی آئی کو سیاسی اور قانونی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ، اس تناظر میں یہ خطوط ایک ایسا پیغام ہو سکتے ہیں جس کے ذریعے عمران خان یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ وہ اب بھی سیاسی منظر نامے میں اہم ہیں ، اور اداروں کے ساتھ بات چیت کے خواہاں ہیں تاہم ان خطوط کا فوج پر کوئی عملی اثر ہو گا یا نہیں یہ کہنا قبل از وقت ہے ، کیونکہ آرمی چیف نے واضح طور پر کہا ہے کہ اگر مجھے کوئی خط ملا تو میں پڑھوں گا نہیں اسے وزیر اعظم کوبھیج دوں گا، سیاستدانوں کا یہ دعویٰ کرنا کہ عمران خان خطوط کے ذریعے براہ راست این آر او مانگ رہے ہیں ، ایک سیاسی موقف ضرور ہو سکتا ہے ، لیکن ماضی میں بھی جب سیاست دان اسٹیبلشمنٹ کو خطوط لکھنے یا مذاکرات کرنے کی کوشش کرتے تھے تو اسے این آر او کے زاویے سے ہی دیکھا گیا چاہے وہ کھلے عام اس کا اعتراف کریں یا نہ کریں۔
سیاست میں خطوط لکھنے کی روایت کافی پرانی ہے ، اوران کے اثرات مختلف حالات میں مختلف مرتب ہوتے ہیں ، البتہ جمہوری روایات میں سیاست دانوں کو اپنے مطالبات پارلیمنٹ اور حکومتی سطح پر پیش کرنے چاہئیں کیونکہ براہ راست فوج کو مخاطب کر نے سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ سیاسی معاملات میں فوج کو مداخلت کی دعوت دی جا رہی ہے ، جو جمہوری روایات اور جمہوریت کے لئے نقصان دہ ہو سکتا ہے ، بعض سیاست دان رائے عامہ اپنے حق میں لانے کی خاطر کھلے خط لکھ کر یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ قومی اداروں سے براہ راست نبرد آزماہیں اور انہیں عوام کی مشکلات اور پریشانیوں کا بہت خیال ہے ، بظاہر یہ خام خیالی ہی کے زمرے میں آتاہے لیکن سیاست میں ایسی دوہری چالوں سے ہی سیاسی چہروں کو ڈھانپا جا تاہے ، اور یہی آج کل کی سیاست کے اسلوب ہیں۔