سیدمحمد قاسم رضوی نام کی دو شخصیتوں نے پاکستان کی قومی زندگی میں ناموری حاصل کی۔ ایک تو دکن کے مجاہد سید محمد قاسم رضوی جو سقوط حیدرآباد کے المیہ کے موقع پر حیدرآباد دکن سے پاکستان چلے آئے اور کچھ عرصہ پاکستان کی سیاست میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش کرتے ہوئے گوشۂ گمنامی میں چلے گئے۔
میں نے جناح کالونی فیصل آباد کی گرائونڈ میں اُن کی تقریر سُنی تھی، وہ بہت اعلیٰ درجے کے مقرر تھے، اُن کی تقریر کا ایک فقرہ ذہن میں محفوظ رہ گیا۔ اُنہوں نے کہا تھا، ’’میں جہاں کہیں جاتا ہوں لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ میں اپنی سیاسی جماعت کیوں نہیں بنارہا ہوں، میں کہتا ہوں کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں نالی کے گندے کیڑوں میں ایک اور کیڑے کا اضافہ کردوں‘‘۔ دوسرے سید محمد قاسم رضوی، یہ آل انڈیا مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل میر غلام بھیک نیرنگ کے بھتیجے تھے، انہوں نے تحریک پاکستان میں مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے پرچم تلے کام کیا۔ ڈاکٹر ضیاء الاسلام، حمید نظامی، عبدالستار خان نیازی، آفتاب احمد قرشی اور عبدالسلام خورشیدان کے قریبی رفقا تھے، وہ پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر بھی رہے۔ قیام پاکستان کے بعد اُنہوں نے سرکاری ملازمت اختیار کرلی، 1959ء میں وہ لائل پور کے ڈپٹی کمشنر مقرر کئے گئے۔
مصطفی صادق صاحب اور یہ خاکسار روزنامہ ’’آفاق‘‘ سے الگ ہونے کے بعد اپنا اخبار ’’وفاق‘‘ شائع کرنا چاہتے تھے، ہم نے ڈیکلریشن کی درخواست ’’آفاق‘‘ ہی کے اپنے رفیق کار حافظ بشیر سہیل کی طرف سے داخل کی تھی، یہ ایوب خان کے مارشل لاء کا دور تھا اور اخبار شائع کرنے کے لئے سرکاری اجازت قریب قریب ناممکن بنادی گئی تھی، ہم نے پاک نیوز سروس اور پاک ایڈورٹائزرز کے نام سے ایک مقامی خبر ایجنسی اور ایک تشہیری ادارے کی بنیاد تو رکھ دی تھی اور عارضی طور پرگوجرہ کے ایک سات روزہ ’’جانباز‘‘ کی اشاعت کا بھی اہتمام کرلیا تھا جس کے ناشر گوجرہ کے ایک نیوز ایجنٹ میاں وزیر محمد جالندھری تھے، ہم نے اخبار شائع کرنے کے لئے اپنے عزیز و اقارب اور احباب سے ادھار اور قرض لے کر جو رقم جمع کی تھی وہ تو لائل پور اور لاہور کے سفر کی ہی نذر ہوگئی کیونکہ ڈیکلریشن کی فائل کا پیچھا کرنے کے لئے ہمیں لاہور جانا پڑتا تھا۔ میں اخبار کی ملازمت کے ساتھ ساتھ گورنمنٹ کالج میں سال اول کا طالب علم بھی تھا، اس دوران مجھے گورنمنٹ کالج لائل پور کی مجلس علوم اسلامی کا سیکرٹری مقرر کردیا گیا، جس کے سربراہ شعبہ علوم اسلامی کے سربراہ پروفیسر افتخار احمد چشتی تھے۔ مجلس علوم اسلامی نے ’’اسلام کا فلسفۂ مذہب‘‘ کے عنوان سے ایک مجلس مذاکرہ کا اہتمام کیا جس میں خصوصی خطاب کے لئے گورنمنٹ کالج کے پرنسپل اور ممتاز فلسفہ دان و نفسیات کے ممتاز معلم پروفیسر سید کرامت حسین جعفری کو دعوت دی گئی۔ اُن کے خطاب کے لئے اس موضوع کا انتخاب پروفیسر افتخار احمد چشتی کے ذہن رسا کا ثمر تھا۔ جعفری صاحب نے اپنے خطاب میں اس موضوع سے خوب انصاف کیا اور اسلام کے فلسفۂ مذہب پر پُر مغز گفتگو کی۔ میں مجلس علوم اسلامی کے سیکرٹری کی حیثیت سے اس خطاب کے نکات نوٹ کرتا رہا۔ اخبارات کے لئے رپورٹنگ میں زود نویسی کا تجربہ تھا۔ میں نے اُن کی تقریباً پُوری تقریر قلم بند کرلی تھی، یہ تقریرسات روزہ ’’جانباز‘‘ کے وسط میں کُھلنے والے دو صفحات پر ایک مضمون کی صورت میں شائع کردی گئی۔ یہ مضمون شائع ہونا تھا کہ پروفیسر کرامت حسین جعفری نے مجھے ڈھونڈنا شروع کردیا، جب اُن کی طلبی پر میں اُن کے دفتر میں حاضر ہوا تو میں نے دیکھا کہ وہ درست رپورٹنگ کی میری صلاحیت سے مبہوت ہیں، اُنہوں نے تفصیل سے میرا حال احوال پوچھا۔ میں نے اُنہیں بتایا کہ میں روزنامہ ’’آفاق‘‘ میں سب ایڈیٹر تھا اور اب اپنا اخبار روزنامہ ’’وفاق‘‘ نکالنا چاہتا ہوں اور میرے ساتھ جناب مصطفی صادق بھی ہیں جو ’’آفاق‘‘ کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر اور جماعت اسلامی کے رہنما رہے ہیں اور اب ’’آفاق‘‘ سے وہ بھی الگ ہوگئے ہیں اور جماعت اسلامی تووہ پہلے ہی چھوڑ چکے ہیں۔ دشواری یہ ہے کہ حکومت ہمیں روزانہ اخبار شائع کرنے کے لئے ڈیکلریشن نہیں دے رہی کیونکہ سی آئی ڈی اور سپیشل برانچ نے اپنی خفیہ رپورٹوں میں جماعت اسلامی سے مصطفی صادق صاحب کی وابستگی کا ذکر کردیا ہے اور یہ تعلق اگرچہ اب برقرار نہیں ہے مگر ڈیکلریشن کے حصول کے راستے میں دیوار بن گیا ہے۔ پروفیسر کرامت حسین جعفری نے ایک لمحہ کے لئے سوچا اور پھر گویا ہوئے، یہ رکاوٹ تو دُور ہوجائے گی میں ڈپٹی کمشنر سید محمد قاسم رضوی سے آپ لوگوں کا تعارف کرادوں گا، اگلے ہی روزسید محمد قاسم رضوی کے دفتر سے مصطفی صادق صاحب کو ملاقات کے لئے پیغام مل گیا، ہم رضوی صاحب کے دفتر میں گئے، وہ بہت تپاک سے ملے، اُنہوں نے یقین دلایا کہ روزنامہ’’وفاق‘‘ کی اشاعت کے لئے اجازت جلد مل جائے گی اور خفیہ پولیس کی کوئی رپورٹ اب اس میں رکاوٹ نہیں بنے گی۔
اس موقع پر اُن سے جو گفتگو ہوئی وہ سات روزہ ’’وفاق‘‘ لائل پور کے آزادی نمبر 14) اگست 1961ء( میں شائع ہوئی جو اُنہی کے الفاظ میں یہاں نقل کی جارہی ہے۔ تحریک پاکستان میں طلباء کے کردار کا مطالعہ کرنے والے قارئین کے لئے یہ گفتگو تاریخی اہمیت کی حامل ہے۔
مجھے یاد ہے کہ میں تحریک پاکستان کے سلسلہ میں تین مرتبہ لائل پور آیا ہوں میرا پہلا دورہ (1942ء) میں سر چھوٹورام کی ایک انتخابی مہم کو ناکام بنانے کے سلسلہ میں تھا اس وقت صوبہ میں یونینسٹ راج تھا اور آنجہانی سر چھوٹورام زمیندارہ لیگ، جسے جاٹ لیگ بھی کہا جاتا تھا، کی تنظیم کے سلسلے میں یہاں اپنا سالانہ جلسہ منعقد کرنے والے تھے۔ میں طلبہ کا ایک وفد لے کر جب یہاں پہنچا تو معلوم ہوا کہ اُس وقت کے ڈپٹی کمشنر نے زمیندارہ لیگ کی جلسہ گاہ سے باہر کی تمام حدود میں دفعہ 144 نافذ کردی ہے لیکن ہم نے فی الفور لائوڈ سپیکر کا انتظام کیا اور اسے جلسہ گاہ کی اس حد پر نصب کردیا جہاں دفعہ 144 نافذ نہیں تھی۔ مجھے اب تک یاد ہے کہ میں کسی وقفہ کے بغیر مسلسل مائیکرو فون کے ذریعے مسلمانوں کو زمیندارہ لیگ کے جلسے میں شمولیت سے منع کرتا رہا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ زمیندارہ لیگ کا پنڈال حاضرین سے بالکل خالی رہا اور سر چھوٹو رام سورگ باش ہوگئے… یہ تھا لائل پور میں میرا پہلا دورہ۔
دوسری مرتبہ حاجی عبداللہ مرحوم کے الیکشن کے سلسلے میں ادھر آنے کا اتفاق ہوا، حاجی صاحب مرحوم کا مقابلہ ذیلدار محمد قاسم سے تھا، میں طالب علموں کی ایک جماعت کے ساتھ گوجرہ کے علاقہ میں گیارہ روز تک بس پر سفر کرتا رہا ہوں۔ لائوڈ سپیکر بھی اس بس میں نصب کیا ہوا تھا۔ ہم اس بس میں دن بھر گھومتے پھرتے اور پھر رات کو بھی اسی میں قیام ہوتا۔ گیارہ روز کی اس مہم میں ہمیں اکثر چنوں پر قناعت کرنا پڑی اس مہم میں میرے ہمراہ بعض دوسرے طلبہ کے علاوہ اکبر یزدانی اور مسٹر عزیز بھی تھے ان میں اول الذکر آج کل فوج میں میجر ہیں اور موخرالذکر پہلے فنانس ڈیپارٹمنٹ میں تھے اور آج کل مرکزی حکومت کے پول ڈیپارٹمنٹ میں ہیں، یہ دورہ اس لحاظ سے بہت ہی کامیاب تھا کہ عام مسلمان ہماری ’’تبلیغ‘‘ سے بے حد متاثر ہوئے، ہم اس وقت محسوس کررہے تھے کہ عام لوگ تعصب سے بہت بُلند ہیں اور اصول پرستی کا بہترین نمونہ… کردار کی مضبوطی ان کے چہروں سے جھلک رہی تھی اور اپنا ذاتی نقصان کرکے بھی اصول پرستی کو ترجیح دیتے تھے۔ افسوس کہ یہ کیفیت پھر کبھی دیکھنے میں نہ آئی۔
تیسری مرتبہ لائل پور آنے کا اتفاق اس وقت ہوا جب ہم فیڈریشن کی تنظیم کے سلسلے میں مختلف سکولوں کا دورہ کررہے تھے اس موقعہ پر شاہ جیونہ ضلع جھنگ کے ایک جلسۂ عام میں بھی شریک ہوئے جس میں میاں ممتاز محمد خان دولتانہ نے پہلی مرتبہ پنجابی زبان میں تقریر کی، یہ تقریر بے حد اثر انگیز تھی جلسے کا اہتمام سید عابد حسین اور میجر مبارک علی شاہ کی طرف سے کیا گیا تھا۔ واپسی پر میاں دولتانہ نے لائل پور میں بھی تقریر کی۔ مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے وفد میں میرے ہمراہ محمد نواز مرحوم بھی تھے، ہم یہاں تمام سکولوں میں گئے اور فیڈریشن کی شاخیں قائم کرنے میں ہمیں خوب کامیابی ہوئی۔
…………………… (جاری)